تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     23-06-2019

خالی خولی بڑھکیں اور چوروں کی رہائی …(2)

پاکستان میں کرپشن، کمیشن اور لوٹ مار کس حد تک کھلم کھلا اور دھوم دھڑکے سے ہوتی ہے اور قانون کس حد تک مجبور و معذور ہے‘ اس حوالے سے آپ کو ملتان کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔
میں بچپن میں سنتا اور پڑھتا تھا کہ نشتر ہسپتال ایشیا کا سب سے بڑا ہسپتال ہے۔ تب ہم کم سے کم ایشیا میں تو سب سے بہتر اور شاندار چیزیں بنایا کرتے تھے۔ خیر بات نشتر ہسپتال کی ہو رہی تھی۔ ایک عرصے سے یہاں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔ تاہم یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ پاکستان بھر میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ نشتر ہسپتال کے ایک ایم ایس تھے، بلکہ تھے نہیں اب بھی ہیں۔ انہوں نے تو ایک کام کیا کہ اگر گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں کو علم ہو جائے تو موصوف کا نام اپنے اگلے ایڈیشن میں ڈال دیں۔ صرف ایک خریداری کی مد میں پرچیز کمیٹی نے، جس کا مدارالمہام یہی ایم ایس تھا ہسپتال میں استعمال ہونے والے ٹیکوں کی ایک کھیپ خریدنے کی نہ صرف منظوری دی بلکہ خرید بھی لی۔ دیدہ دلیری اور دھڑلے کی انتہا ملاحظہ کریں کہ موصوف نے یہ ٹیکے، جن کی ''شیلف لائف‘‘ یعنی ایکسپائری کی مدت دو سال تھی ہسپتال کی اگلے دس سال کی طلب کے مطابق خرید لی۔ دو سال کے بعد ٹیکے ایکسپائر ہو جانے تھے لیکن خریداری اگلے دس سال کے لیے کر لی گئی اور یہ خریداری ایسی نہیں تھی کہ دس سال کی مدت میں سپلائی کا شیڈول دے کر ہر سال آرڈر کا دسواں حصہ منگوا لیا جاتا بلکہ ساری کی ساری خریداری یکمشت کر لی گئی۔ دو سال کے بعد اگلے آٹھ سال کے پیشگی خرید کردہ ٹیکے بلا استعمال ایکسپائر ہو کر ضائع چلے جانے تھے۔ لیکن کسی کو کیا؟ اللہ جانے اس جعلی ڈیمانڈ سے کس فارما سیوٹیکلز کمپنی کو فائدہ پہنچایا گیا لیکن موصوف نے دس سال کی پرچیز کر کے اپنا کمیشن کھرا کیا اور اپنی جیب گرم کر لی۔ دنیا بے اعتبار چیز ہے۔ کیا خبر کب ٹرانسفر ہو جائے اس لیے شاید دس سال کا کمیشن ایک ہی بار وصول کر لینا عقلمندی اور دوراندیشی کا تقاضا تھا۔
بالکل اسی طرح ریلوے کے ایک سابق وزیر نے کیا۔ موصوف پہلے چیئر مین ریلوے تھے۔ اس عہدے کی مدت تین سال تھی۔ موصوف نے چیئر مین بننے کے کچھ ہی عرصہ بعد اگلی ساری مدت کی تنخواہ اکٹھی نکلوا لی۔ زندگی کی بے ثباتی پر غور کرنے کے بعد ان کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ خدا جانے یہ ناپائیدار زندگی کتنی ہے اور یہ دنیاوی عہدے کتنے دن کی بہار دکھلاتے ہیں۔ سو انہوں نے ماہ بہ ماہ تنخواہ لینے کے جھنجٹ سے جان چھڑوالی اور اپنی مدت چیئر مینی کی بقیہ ساری تنخواہ مبینہ طور پر پیشگی وصول کر لی۔ ان کی یہ احتیاط پسندی ان کے بہت کام آئی اور آپ تھوڑے ہی عرصے بعد ریلوے کے وزیر لگ گئے اور اپنی اس وزارت کی تنخواہ بھی لینی شروع کر دی۔ جس عرصے میں موصوف وزیر ریلوے کے طور پر تنخواہ لے رہے تھے اسی عرصے کی وہ بطور چیئر مین ریلوے بھی ایڈوانس تنخواہ لے چکے تھے۔ یعنی موصوف اپنی پینشن اور چیئر مین ریلوے اور وزیر ریلوے کی دو تنخواہیں‘ یعنی تین تین مشاہرے بیک وقت لیتے رہے۔
نشتر ہسپتال کی دراصل قسمت ہی خراب ہے۔ پہلے موصوف ڈاکٹر عاشق حسین اس ہسپتال کے ایم ایس تھے۔ پھر کرپشن کی شکایات پر تبدیل کر دیئے گئے اور ان کی جگہ جو ایم ایس آیا وہ بھی خیر سے چندے آفتاب، چندے ماہتاب تھا اس نے اپنے بیٹے کے ذریعے یا اس کے بیٹے نے، خوب مال سمیٹا۔ بمشکل اس ہیرے سے جان چھوٹی اور وہی پرانا ایم ایس پھر آن وارد ہوا۔ پہلے اس کو ن لیگ کی سرپرستی حاصل تھی اب کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کے ایک مقامی صوبائی وزیر کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے۔ اسی دوران ٹیکوں کی یکمشت دس سال کے لیے خریداری کے معاملے کی انکوائریزشروع ہو گئیں۔ موصوف کو جب یہ یقین ہو گیا کہ اب بچنے کی راہیں مسدود ہو گئی ہیں تو ہر دروازہ بند پا کر موصوف نے تخت لاہور کا رخ کیا۔ شنید ہے کہ اس لاہور یاترا میں ان کے ساتھ آدھی درجن کے قریب ممبران اسمبلی بھی تھے۔ علاوہ ازیں محکمہ صحت کے دیگر کئی کھلاڑیوں کی مدد کے ساتھ اس نے آدھی رات کو ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ملتان امجد شعیب ترین کا ٹرانسفر کروا دیا۔ لیکن بد قسمتی سے اس آدھی رات کو ہونے والے غیر معمولی ٹرانسفر پر بہت زیادہ ''رولا‘‘ پڑ گیا اور اس رولے کا اثر یہ ہوا کہ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن ملتان کا ٹرانسفر کینسل ہو گیا۔ ایک بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ڈاکٹر عاشق نے سیکرٹری ہیلتھ کی جانب سے معطلی کے بعد ملتان سے تحریک انصاف کے ایم پی اے اور صوبائی پارلیمانی سیکرٹری ندیم قریشی کا خط عدالت میں پیش کر کے اپنی معطلی کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر لیا اور واپس دفتر سنبھال لیا۔ ندیم قریشی صاحب کا کہنا ہے کہ یہ خط میرا ہے ہی نہیں اور سو فیصد جعلی ہے۔ لیکن تیر ہدف پر لگ چکا تھا اور اپنا کام دکھا چکا تھا۔ 
ایک صحافی دوست بتا رہا تھا کہ جب صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد سے سوال کیا گیا کہ آپ نے ایک ایسے شخص کو ایم ایس نشتر لگا دیا ہے جو اسی ہسپتال سے پہلے بھی کرپشن کے الزامات پر فارغ ہوا تھا اور اب بھی پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی کا سامنا کر رہا ہے تو اس شریف النفس خاتون نے ساتھ کھڑے پنجاب کے وزیر برائے انرجی ڈاکٹر اختر ملک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے پوچھیں یہ پودا انہی کا لگایا ہوا ہے۔ اس پر وزیر موصوف نے فرمایا کہ پہلا ایم ایس ڈاکٹر عبدالرحمان بہت کرپٹ تھا۔ سوال ہوا کہ ڈاکٹر عاشق ملک کے خلاف تو کرپشن کے کیس باقاعدہ طور پر درج ہو چکے ہیں۔ جواب ملا یہ شخص بڑا اچھا ایڈمنسٹریٹر ہے۔ سو یہ اچھا ایڈمنسٹریٹر دو سالہ مدت والے انجکشنوں کی دس سال کے لیے یکمشت خرید کر کے اچھی ایڈمنسٹریشن کے ثبوت دے رہا ہے۔ 
امریکہ میں ایک مسلم لیگی دوست سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ پاکستان میں موجودہ حکومت میاں صاحبان پر سیاسی کیس بنا رہی ہے۔ میں نے پوچھا: گویا آپ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ میاں صاحبان نے بالکل کرپشن نہیں کی اور ان کے ہاتھ بالکل صاف ہیں؟ وہ کہنے لگا جب تک ان کے خلاف کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی وہ تب تک بے گناہ ہیں۔ میں نے پوچھا اور وہ لندن کی جائیدادیں؟ وہ کہنے لگا اس جائیداد کا میاں صاحب سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔ وہ ان کے بیٹوں کی ہے۔ وہ خود مختار اور ذاتی کاروبار کے مالک ہیں۔ میں نے کہا: مطلب یہ ہوا کہ عدالت یا تفتیشی ادارے ان سے منی ٹریل نہیں مانگ سکتے؟ وہ خوش ہو کر کہنے لگا: اللہ آپ کا بھلا کرے‘ میں یہی بات آپ سے کہنے والا تھا اور آپ نے خود ہی کہہ دی۔ میں نے کہا: آپ کا مطلب ہے کہ لندن کی ساری پراپرٹی میاں صاحب کے فرزندان حسین اور حسن نواز شریف کی کاروباری صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے؟ وہ دوست مزید خوش ہوا اور کہنے لگا: آج تو آپ میرے منہ کی باتیں چھین رہے ہیں۔ میں نے کہا: اگر وہ ان کے کاروبار کے طفیل بنی ہوئی جائیداد ہے تو وہ اپنی کمائی کی منی ٹریل دے دیں۔ برطانیہ وغیرہ میں ہزار دو ہزار کی آمدنی پر تو ٹیکس کا گھپلا ہو سکتا ہے۔ کروڑوں پائونڈ کا کاروبار اور آمدنی تو ٹیکس وغیرہ سے نہیں چھپائی جا سکتی۔ وہاں تو قطری خط نہیں چلتے۔ وہاں بینک سے بالا بالا لاکھوں پائونڈ کا کاروبار نہیں چلایا جا سکتا۔ برخورداران اپنے کاروبار کی منی ٹریل دے دیں۔ وہ دوست تقریباً ناراض ہی ہو گیا۔
ضروری ہو چکا ہے کہ پاکستان میں وائٹ کالر کرائم کرنے والوں کو شکنجے میں لانے کے لیے اور مالیاتی جرائم سے نمٹنے کے لیے موجودہ ناقابل عمل اور متروک قوانین کو مغرب کے وضع کردہ وائٹ کالر کرائمز سے نمٹنے کے قوانین کی روشنی میں اپ ڈیٹ کیا جائے اور مالیاتی جرائم سے متعلق تفتیشی اور تحقیقاتی اداروں کے عمومی افسروں اور لاء افسروں کو ڈیپوٹیشن یا سیاسی رشوت کی بجائے میرٹ پر منتخب کیا جائے۔ بارِ ثبوت استغاثہ کے بجائے بار ِصفائی ملزم کے سر ڈالا جائے تو سارا معاملہ ٹھیک ہو سکتا ہے ‘لیکن المیہ یہ ہے کہ کرپشن کے خاتمے کا نعرہ لگا کر حکومت میں آنے والے کوئی قابل عمل نظام اور قانون وضع کرنے کے بجائے محض نعروں اور بڑھکوں سے کام چلا رہے ہیں کہ ہم کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ کسی کو معاف نہیں کریں گے۔ وزیراعظم نے چند دن قبل فرمایا: جان چلی جائے مگر چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جان بھی کہیں نہیں جائے گی اور چور بھی چھوٹ جائیں گے۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved