تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     23-06-2019

سرخیاں‘متن اور رفعت ناہید کی تازہ شاعری

عمران‘ تم 70 سال کے بوڑھے اور 
میں 30 سال کا جوان ہوں: بلاول
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران‘ تم 70 سال کے بوڑھے اور میں 30 سال کا جوان ہوں‘‘ جبکہ والد صاحب بھی 70 کے پیٹے میں ہیں‘ اس لیے دراصل دو بوڑھوں کا مقابلہ ہوگا‘ کیونکہ میں تو والد صاحب کی مرضی کے بغیر ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا کہ اصل چیئر مین وہی ہیں اور انہی کی پالیسی چلتی ہے۔ اسی لیے میں جہاں بھی جاتا ہوں مجھ میں لوگوں کو زرداری ہی نظر آتا ہے اور اُن کے سارے کارنامے‘ جبکہ آئندہ بھی سب کچھ وہی کریں گے ‘کیونکہ میری تو ساری عمر مقدمات لڑتے ہی گزر جائے گی کہ جعلی اکائونٹس والا 34 ارب روپیہ کہاں سے آیا ہے؛ حالانکہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ خود مجھے بھی معلوم نہیں کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا‘ میں تو صرف اُس تنظیم کا چیئر مین تھا اور وہاں بھی مجھے والد صاحب ہی نے پھنسایا ‘جبکہ چیئر مین وہ خود بھی بن سکتے تھے۔آپ اگلے روز نواب شاہ میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
جج بیوی بچوں کے اعمال کا ذمہ دار نہیں: افتخار چوہدری
سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری نے کہا ہے کہ ''جج بیوی بچوں کے اعمال کا ذمہ دار نہیں‘‘ اسی طرح برخوردار ارسلان افتخار کے اعمال کا بھی میں ذمہ دار نہیں تھا‘ اس لیے میں نے اُسے بری الذمہ قرار دے کر گلو خلاصی کی تھی؛ اگرچہ اس نے جو کچھ بھی کیا تھا؛ اگر وہ میرا بیٹا نہ ہوتا تو ہرگز نہ کر سکتا‘ اسی طرح میاں نواز شریف اور شہباز شریف بھی اپنے بچوں کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہیں‘ جبکہ نواز شریف تو بالکل ہی نہیں ہیں‘ کیونکہ اُن کے بچوں نے گھر سے پیسے چوری کر کے لندن میں فلیٹس خریدے تھے اور یہی صورت حال حمزہ شہباز‘ سلمان شہباز اور بہنوئی صاحب کی ہے اور شہباز شریف ان کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہیں؛ اگرچہ شہباز شریف‘ اگر وزیراعلیٰ نہ ہوئے تو یہ عزیزان ہرگز وہ کچھ نہ کر سکتے‘ جو انہوں نے کیا۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہماری پرورش حوصلہ مند مائوں نے کی: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ قیدی‘ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ہماری پرورش حوصلہ مند مائوں نے کی‘‘ اور اسی موروثی حوصلہ مندی کے بل بُوتے پر ہی وہ سارے کارہائے نمایاں ممکن ہوئے جو والد صاحب اور چچا جان نے انجام دیئے ہیں‘ جبکہ میری حوصلہ مندی بھی کسی سے کم نہیں ہے کہ اپنے زبردست بیانیے کی بناء پر والد صاحب کو اندر کروا کر ہیرو بنا دیا‘ ورنہ انہیں اتنی شہرت کبھی نہ مل سکتی اور اب وہ جیل میں اپنی پسند کے کھانے بھی کھا رہے ہیں اور پورے دھڑلّے سے سیاست بھی کر رہے ہیں اور اپنی نئی سے نئی بیماریوں کا سراغ لگانے میں بھی مگن رہتے ہیں ‘تا کہ واقعی کوئی خطرناک بیماری دریافت کی جا سکے‘ جس کا علاج صرف لندن میں اور صرف ایک ڈاکٹر ہی کر سکتا ہو۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
اور‘ اب ملتان سے رفعت ناہید کی تازہ شاعری:
مٹی‘ پانی سارا ہو گئی
لے میں کچّا گارا ہو گئی
آدھی آنکھیں رکھنے والے
دیکھ میں نین ستارہ ہو گئی
پہلے رمز کنایہ تھی میں
اب بھرپور اشارہ ہو گئی
جتنی بار مٹایا تو نے
اتنی بار دوبارہ ہو گئی
تیرا رستا تکتے تکتے
کھڑکی بھی انگارا ہو گئی
چنگاری کچھ دیر تو چمکی
اور‘ پھر پارہ پارہ ہو گئی
بہتے بہتے ہانپ گئی تو
ندیا آپ کنارا ہو گئی
پانی پانی کھیلیں گے اب
تُو ساحل‘ میں دھارا ہو گئی
٭...٭...٭
پائوں بستی میں دیکھ بھال کے رکھ
دیکھ‘ دل کو ذرا سنبھال کے رکھ
وار دے اس پہ جان کی نقدی
اور‘ کلیجہ وہیں نکال کے رکھ
روشنی بن کے جھلملا اس میں
آئنہ ساتھ ہی جمال کے رکھ
اک کہانی محل سرا کی سُنا 
اُس میں دھوکے بڑے کمال کے رکھ
سات رنگوں سے یہ حویلی سجا
رنگ سب آس اور وصال کے رکھ
آج کی شب چراغ کی شب ہے
عطر دانوں میں عطر ڈال کے رکھ
لے جا گلگشت سے جنوب کے پھول
گھر کے کونے میں اک شمال کے رکھ
ساتویں آسماں سے آ کر مل
اور‘ شکوے ہزار سال کے رکھ
آج کا مطلع
سر بھی میرا نہیں‘و حشت بھی کسی اور کی ہے
کر رہا ہوں جو محبت بھی کسی اور کی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved