تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     30-11--0001

سیاست کے برادرانِ یوسف

یہ تو سب کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ وطنی سیاست کو تماش بینوں میں گھِری ہوئی طوائف بھی کہا گیا۔ نیرنگیٔ سیاستِ دوراں کے اصول کبھی نہیں بدلے۔ تاریخِ سیاست میں 'گیم آف تھرون‘ کے مقام بدلتے آئے ہیں، ضابطے اور انجام‘ دونوں کبھی نہیں بدلے۔ آج بھی ویسا ہی ہوتا ہے جیسا برادرانِ یوسف نے کنعان کے کنویں (نواحِ شام میں طبریہ کے نزدیک) میں کیا تھا۔
سیاست کے برادرانِ یوسف کی تازہ واردات کی طرف جانے سے پہلے ایک کھلی حقیقت کی طرف اشارہ ضرور کروں گا۔ اب تو مروجہ سیاست سے کامریڈ شپ بھی بے دخل ہو گئی ہے۔ آپ سے اس موضوع پر کئی واقعات اور تجربے شیئر کیے جا سکتے ہیں۔ یہ مضمون طویل اور فہرست بہت لمبی ہے‘ اس لیے لُبِ لُباب پہ ہی گزارہ کر لیتے ہیں۔ سکندر مرزا کی جبری جلا وطنی (27 اکتوبر 1958ئ) سے لے کر نواز شریف کی سزا یابی تک 3 ثبوت ناقابلِ تردید ہیں۔ پہلا یہ کہ سیاسی جماعتیں اپنے لوگوں کے ساتھ مشکل میں کم ہی کھڑی ہوتی ہیں۔ کِسے معلوم نہیں کہ گرفتار ہونے والے یا ملک سے بھاگ جانے والے لیڈروں کی لیڈری کے چراغ کارکنوں نے اپنے خون پسینے سے جلائے رکھے۔ انہیں سب سے زیادہ خوف اپنے کامریڈز سے ہی آیا۔ جونہی ایسے لیڈروں کو دوبارہ انٹری ملی‘ انہوں نے پہلی فُرصت میں اُن سے چھٹکارا حاصل کیا‘ جو مشکل حالات میں لڑتے رہے‘ جس کی وجہ اندر کا خوف تھا۔ اور وہ یہ کہ گھریلو لیڈرشِپ، سٹرگل کرنے والے طبقے کو کسی قیمت پر ٹرانسفر نہیں ہونی چاہیے۔
ویسے بھی سیاسی انقلابات کے بارے میں ایک تاریخی بات مسلمہ ہے۔ یہ کہ انقلاب کی کامیابی کے بعد سب سے پہلے انقلاب کے داعی (Proclaimants of revolution) ہی مارے جاتے ہیں۔ اگلے روز لاہور میں آلِ شریف کے اندرونی انقلاب کا پہلا clap ایچ ڈی کیمروں نے فلم بند کیا۔ یہ منظر خاندانی سیاست سیزن 2019ء کا افتتاحی سین ہے‘ جس کا آغاز ''ن‘‘ سے نواز لیگ کی مریم نواز صاحبہ نے لاہوری میڈیا ٹاک میں کیا۔ عجیب اتفاق یہ ہے کہ اسی روز افریقی ملک ایتھوپیا میں بھی بغاوت ہو گئی‘ جس کی تصدیق امریکی سفارت خانے نے کی ہے۔ اس بغاوت میں ایتھوپین ریاستی چیف سمیت باغیوں کے سارے بڑے مخالف In the line of fire آ گئے۔ یہ تو شاید محض اتفاق ہو گا‘ مگر شریف سیاست کی 'گیم آف تھرون‘ میں وہ اختلافات جن کو چھپانے کے لیے بہت جتن ہوئے‘ آخر کار برسرِ بازار آ گئے۔ پچھلے دو چار ہفتوں کا انسٹا گرام ہی دیکھ لیں۔ چچا بھتیجی کی انتہائی فدویانہ مشترکہ تصویر۔ چچا کے بیٹے کے ساتھ ''ن‘‘ لیگ کی نائب صدر صاحبہ کی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یک جہتی والی تصویر بھی کسی کام نہ آ سکی۔ میں نے اپنے ویڈیو بلاگ 'بابر اعوان آفیشل‘ پر ''اور اپوزیشن کٹ گئی‘‘ میں تازہ انقلاب کی کھل کر نشان دہی کی‘ جس کے دو پہلو توجہ کے قابل ہیں۔
اولاً! پارلیمنٹ کے اندر دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے سربراہوں کی تقریریں ۔ دونوں میں این آر او کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ مثال کے طور پر 'پچھلے حساب چھوڑو، احتساب بند کرو‘ میثاقِ معیشت کی طرف آ جائو‘۔ ان درخواستوں کا این آر او کے علاوہ کیا مطلب نکل سکتا ہے؟ خاص طور سے 3 گھنٹے والی تقریر میں اور تھا ہی کیا‘ جو کسی کو یاد رہ جاتا؟ پھر پارلیمنٹ کی کچھ غیر مصروف لابیوں میں بھی میثاقِ معیشت کی لابنگ ہوتی رہی۔ یہ بھی حسنِ اتفاق نہیں بلکہ اتفاقِ رائے سے کی گئی دونوں تقریروں میں میثاقِ معیشت پہ بوجوہ زور دیا گیا۔
اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ آپ کو یاد ہو گا‘ پنجاب میں شہباز شریف کی 2008ء والی حکومت کے عرصے میں کچھ ہفتوں کے لیے گورنر راج لگا تھا۔ اس سے ذرا پہلے شہباز شریف کی بھرپور کوششوں سے 50 نکاتی میثاقِ معیشت پیش کیا گیا تھا‘ جس پر عمل درآمد کے لیے ویسی ہی کمیٹی بنی تھی‘ جیسی اب تجویز ہو رہی ہے۔ اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے شامل تھے۔ رضا ربانی، اسحاق ڈار اور میں بھی۔ ظاہری بات ہے‘ یہ سب کچھ مریم صاحبہ بھی جانتی ہیں، کیونکہ یہ ابھی گُزرے کل کی سیاست ہے۔
دوسرے، یہ کہ برادرنِ یوسف جیسے طرزِ عمل کی آخری حد نے ''ن‘‘ لیگ کی نائب صدر مریم نواز صاحبہ کو مشتعل کر دیا‘ جس کا سفر لندن سے لاہور تک تب شروع ہوا‘ جب باپ بیٹی نے علامہ اقبال ائیر پورٹ پر لینڈ کیا تھا‘ جہاں یہ دیکھ کر ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں کہ نہ کوئی استقبالی ہجوم آیا‘ نہ لیڈر نہ عہدے دار‘ بلکہ نہ بھائی موجود تھا‘ نہ بھتیجے پہنچے۔ اس پہ ستم بالائے ستم یہ کہ ایک طرف باپ بیٹی گرفتار ہو رہے تھے جبکہ دوسری جانب باپ بیٹا SUV کے اندر سے مال روڈ کی نواحی سڑکوں پر وکٹری کا نشان بنائے پھر رہے تھے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ بھائی نے بھائی سے یا کزن نے کزن سے یہ پوچھا ہی نہ ہو کہ استقبالی ہجوم اور باپ بیٹے کا جلوس ائیر پورٹ کیوں نہیں پہنچا۔ یہ نقطۂ آغاز تھا۔ پھر گرفتاری کے بعد باپ بیٹی عدالتی حکم پر اڈیالہ جیل میں بند ہو گئے۔ اس پر بھی نواز کے بھائی اور مریم کے کزن‘ دونو ں ری ایکشن ظاہر کرنے کے لیے سڑک پر نہ نکلے۔
سیاست کے برادرانِ یوسف والا تیسرا اور آخری رائونڈ اب شروع ہوا ہے‘ جب اتوار کے دن حمزہ شہباز کو ضمانت قبل از گرفتاری مل گئی‘ اور جسمانی ریمانڈ کے عرصے میں شہباز شریف کو سپیکر قومی اسمبلی کا پروڈکشن آرڈر۔ نواز شریف کے برادرِ اصغر جیل میں ویسے ہی گئے جیسے دورانِ اقتدار مارکیٹ کمیٹیوں کے دوروں پر جاتے رہے۔ نُمائشی آرام دہ دورہ۔ نواز شریف صاحب کی بیماری بڑی ہے، چھوٹی، گمبھیر ہے یا سادہ مجھے براہ را ست کچھ معلوم نہیں۔ اس لیے تبصرہ بھی نا مناسب ہو گا۔ شہباز شریف کو ای سی ایل پھلانگ کر لندن جانے کی اجازت کس بیماری نے دلوائی‘ اس کا نام پردۂ راز میں ہے۔ اسی وجہ سے موصوف کی واپسی پر میں نے ٹویٹ کے ذریعے کہا تھا: اپنی رپورٹس عدالت میں پیش کر دیں‘ قوم اتنا تو جان سکے‘ بیماری ہے کیا‘ جس کا علا ج لندن کی کالی ٹیکسی، مارکس اینڈ سپینسر اور العریز لبنانی کے کھابے کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ کم از کم بیماری نہیں کسی رازداری کا ثبوت تھے۔ جس طرح کہتے ہیں: مر ض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘ ویسے ہی شہباز شریف کی زندگی با سہولت ہوتی گئی۔ اس کے مقابلے میں نواز شریف جیل میں ہیں اور اُن کے دونوں بیٹے خود ساختہ جلا وطنی میں۔ شہباز شریف لمبے عرصے تک نون لیگ کی Bargaining chip بنے رہے۔ ان کے بیٹے نے پنجاب میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ہتھیا کر اپنے پروڈکشن آرڈرز کے دَر کھول لیے۔ اپنے تایا کے لیے حمزہ شہباز کی واحد قُربانی یہ ہے۔ اپنی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بٹھا کر تایا جی کو کوٹ لکھپت جیل میں واپس قید کروا دیا۔ اس کے بعد وہ آج تک تایا کے لیے ایک سادہ سے ''واک آئوٹ‘‘ کے بھی روادار نہیں ہوئے۔
ایسے میں اس حقیقت سے نظریں کون چرائے کہ باپ بیٹی نا اہل ہو گئے‘ لیکن شہباز اینڈ سنز کو پارلیمنٹ کی پروٹیکشن اور نشستیں مِل گئیں۔ 2 پنجاب اسمبلی میں اور 1 نیشنل اسمبلی میں۔
بات سیدھی ہے‘ ان حالات میں نواز شریف کی صاحبزادی کے سامنے ایک ہی راستہ بچتا تھا‘ سو وہ چُن لیا گیا۔ شہباز اینڈ سنز سے راستے جدا کرنے کا راستہ۔ بزبانِ شاعر؎
اُنہی کے ہاتھ میں پتھر ہیں جن کو پیار کیا
یہ دیکھ حشر ہمارا وفا کی بات نہ کر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved