تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     24-06-2019

مریم نواز کا بیانیہ

مریم نواز کی آواز کیا سیاست کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر سکتی ہے؟ اگر کوئی کشتیاں جلانے کا فیصلہ کر لے تو کیا انسانی تدبیر اُس کی منزل کھوٹی کر سکتی ہے؟
مارکس نے کہا تھا: دنیا بھر کے مزدور ایک ہو جاؤ! تمہارے پاس کھونے کو ہے کیا... صرف زنجیریں؟‘ کیا مریم نواز کے پاس بھی صرف زنجیریں باقی ہیں؟ لوحِ وقت پر یہ سوالات لکھے ہیں۔ سیاست کا کوئی فریق ان سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ بطورِ خاص مسلم لیگ۔ مفاہمت کی سیاست شریف خاندان کی ساکھ کو بچا سکی نہ سیاست کو۔ ن لیگ کو اب سوچنا ہے کہ یہ گناہِ بے لذت آخر کب تک؟ 
مریم نواز کا امتیاز یہ نہیں ہے کہ وہ نواز شریف کی بیٹی ہیں۔ یہ بات اب ثانوی ہو چکی۔ مریم کی اصل پہچان یہ ہے کہ وہ اس بیانیہ کی تنہا نمائندہ ہیں جس سے ملک کی قسمت جڑی ہوئی ہے۔ تاریخ اب اسے 'نواز شریف کا بیانیہ‘ قرار دے چکی۔ سیاسیات کے ابجد سے بھی نا واقف لوگوں کا معاملہ مگر دوسرا ہے۔ وہ بے نظیر بھٹو کا امتیاز بھی یہی سمجھتے رہے کہ وہ بھٹو کی بیٹی ہیں۔ وقت نے ثابت کیا کہ وہ پہلے بے نظیر ہیں، پھر بھٹو کی بیٹی، ورنہ بھٹو کی اولاد میں کوئی صنم بھی تھیں اور کوئی شاہنواز بھی تھے۔ ملک کی سیاسی تاریخ مگر بے نظیر کو جانتی ہے یا ایک المیے کے طور پر مرتضیٰ کو۔ یہ غلط فہمی لوگوں کو بلاول کے بارے میں بھی لاحق ہے۔
مریم نواز نے ایک مشکل مرحلے پر جس طرح جرأت کا مظاہرہ کیا، جس طرح اپنے اعصاب کو قابو میں رکھا، اور جس طرح انہوں نے نون لیگ کے اندر نواز شریف کے بیانیے کو طاقت ور بنائے رکھا، اس نے ان کی انفرادی پہچان کو امرِ واقعہ بنا دیا۔ سنیچر کو ان کی پریس کانفرنس نے ایک بار پھر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے کہ آئندہ وہی نون لیگ کی لیڈر ہیں۔
سیاست اگر محض موروثی بنیادوں پر چل سکتی تو شہباز شریف صاحب کو کوئی چیلنج در پیش نہ ہوتا۔ نوازشریف کی چھتری، ایک اچھے منتظم کی شہرت اور طویل اقتدار اس کے لیے کفایت کرتے۔ معلوم ہوا کہ سیاسی قیادت کے مطالبات اس کے سوا بھی ہیں۔ شہباز شریف صاحب نے وہ مطالبات پورے نہیں کیے۔ ان مطالبات کو مریم نے پورا کیا۔ شہباز شریف صاحب نے انتخابات کے بعد بے سمت سیاست کی۔ وہ قوم کو کوئی بیانیہ دے سکے نہ نواز شریف صاحب کے بیانیے ہی سے کسی وابستگی کا ثبوت دے سکے۔
نون لیگ کے بعض راہنما اب یہ ثابت کرنے کی لا حاصل کوشش کر رہے ہیں کہ نواز شریف اور شہباز شریف کا بیانیہ ایک ہے اور دونوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ نواز شریف کا بیانیہ وہی ہے‘ جس کی ترجمانی مریم کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتا دیا کہ نون لیگ کا بیانیہ بھی وہی ہے جو نواز شریف کا ہے‘ اور شہباز شریف حقیقت پسندانہ سیاست کی شہرت رکھتے ہیں؛ تاہم اس کا مفہوم، ان کے خیال میں یہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے باہم دست و گریباں ہونے جا رہے ہیں۔
شہباز شریف کی سیاست، اب مفاہمت کی سیاست بھی نہیں ہے۔ ایسا ہوتا تو کم از کم ان کے خاندان ہی کو بخش دیا جاتا۔ میرا احساس ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز نے اپنے حصے کا احتساب بھگت لیا۔ شہباز شریف اُن کو نہیں بچا سکے تو کم از کم اپنے خاندان کو ہی بچا لیتے۔ وہ ایسا بھی نہ کر سکے۔ مریم نواز کی یہ بات درست ہے کہ میثاقِ معیشت کے نتیجے میں اگر کسی کو فائدہ ہو گا تو وہ حکومت ہے۔ پھر یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ شہباز شریف صاحب نے اس معاملے میں پارٹی کی سطح پر کوئی مشاورت کی‘ نہ خاندان کی سطح پر۔ یہ بھی فکری پراگندگی کا ایک مظہر ہے۔ گویا شہبازشریف نے اپنے طرزِ عمل سے بتا دیا کہ کیسے وہ بطور قائدِ حزبِ اختلاف اپنی جگہ کھوتے جا رہے ہیں‘ اور بلاول حکمت کے ساتھ ان کی جگہ لے رہے ہیں۔
اس مرحلے پر مریم نے پورے وقار کے ساتھ وہ بیانیہ زندہ کر دیا جس کے ساتھ، میرے نزدیک اس ملک کی سلامتی جڑی ہوئی ہے۔ ماضی میں یہ بیانیہ پیپلز پارٹی کا تھا۔ مفاہمت کی مسلسل سیاست سے، جس کا نقطۂ عروج چیئرمین سینیٹ کا انتخاب تھا، پیپلز پارٹی نے دھیرے دھیرے اس بیانیے سے اپنا فاصلہ بڑھانا شروع کر دیا۔ یہ تو عمران خان نے ہاتھ جھٹک دیا‘ ورنہ شاید وہ اب بھی اسی راستے کے مسافر ہوتے۔ بلاول بھٹو سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ ان کی آزمائش کا اب آغاز ہوا ہے۔
مریم نواز آزمائش کے پہلے مرحلے میں سرخرو ہوئیں۔ انہوں نے نواز شریف کے بیانیے کو اپنی سیاست کا مرکز بنایا‘ اور اسے پس منظر میں نہیں جانے دیا۔ ان کی پریس کانفرنس بھی اسی کے گرد گھومتی رہی۔ انہوں نے کسی ابہام کے بغیر واضح کر دیا کہ ان کا اندازِ نظر شہباز شریف صاحب سے مختلف ہے۔ نواز شریف صاحب کے بیانیے کی جو شرح انہوں نے کی، اس کے چار نکات ہیں:
٭ پاکستان میں آئین کو مقدس دستاویز مان کر معاملات کو چلایا جائے۔ ہر ادارہ اس کی روشنی میں اپنا کردار ادا کرے۔
٭ اداروں کو داخلی سیاست سے دور رکھا جائے۔ سیاسی معاملات میں ان کو شامل کرنے کا نتیجہ ان کو قوم میں متنازعہ بنانا ہے جو کسی طرح ملک کے مفاد میں نہیں۔
٭ موجودہ حکومت غیر شفاف انتخابی عمل کے نتیجے میں قائم ہوئی، اس لیے اس سے تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ دس ماہ کی حکومتی کارکردگی اس مقدمے کو تقویت پہنچا رہی ہے۔
٭ مریم کا خیال ہے کہ نواز شریف ایک سیاسی قیدی ہیں‘ اور ان کا اصل جرم ان کا بیانیہ ہے جس میں وہ ووٹ کو عزت دینے کی بات کرتے ہیں۔ وہ مقبول عوامی راہنما ہیں۔ ان کی صحت بہت خراب ہے۔ ان کا مزید جیل میں رہنا خدانخواستہ کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔ ملک کے مفاد میں یہی ہے کہ کوئی عوامی راہنما، مصر کے معزول منتخب صدر مرسی کے انجام سے دوچار نہ ہو۔ یہ ایک بڑے بحران کو جنم دے سکتا ہے۔
ان کی پریس کانفرنس سے یہ بھی واضح تھا کہ ان کا اصل مخاطب کون ہے۔ وہ اس باب میں کسی ابہام کا شکار نہیں کہ این آر او دینے کے معاملے میں عمران خان کا دعویٰ قابل قبول نہیں۔ انہوں نے تحقیقاتی کمیشن کے دائرہ کار اور دورانیہ کو بڑھانے کی بات بھی کی۔ اس میں بھی سوچنے والوں کے لیے غور کا بہت سا سامان ہے۔
مریم نواز نے جن چار نکات کی بات کی ہے، سیاسی حرکیات پر نظر رکھنے والا کوئی آدمی بمشکل ہی اُن سے اختلاف کر سکتا ہے۔ کوئی مریم یا نون لیگ کی سیاست سے اختلاف کر سکتا ہے۔ اس بیانیے کے ساتھ ان کی وابستگی کو تشکیک کی نظر سے دیکھ سکتا ہے لیکن ان بیانیے سے اختلاف آسان نہیں۔ میرے نزدیک ان نکات کا ادراک کئے بغیر پاکستان استحکام کے راستے پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اگر ملک میں سیاسی استحکام نہ آیا تو پھر کسی معاشی استحکام کا بھی امکان نہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ مریم نواز کیا اس بیانیے سے اپنی وابستگی کا عملی مظاہرہ کر پائیں گی؟کیا یہ صرف نوازشریف صاحب کی جان بچانے کی ایک کوشش ہے؟ اگر کل انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت مل جائے تو بیانیہ، عوام، ووٹ کا تقدس، یہ سب الفاظ، کیا ان کے لیے بے معنی ہو جائیں گے؟ اس کا جواب تو عالم الغیب ہی دے سکتا ہے۔ مریم نواز کو اس آزمائش میں ابھی سرخرو ہونا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے ایک مشکل راستے کا انتخاب کیا ہے۔ یہ دراصل دورِ حاضر کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اس جنگ میں وہی قدم رکھے جو کشتیاں جلانے کا ارادہ رکھتا ہو۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ کیا آج اقتدار کے مراکز میں بھی زیرِ بحث ہے؟ کیا مصر اور ایتھوپیا کے حالات کا یہاں بھی جائزہ لیا جا رہا ہے؟ وقت ریت کی طرح ہاتھوں سے سرک رہا ہے۔ مریم اب میدان میں ہیں۔ آزمائش کا ایک نیا مرحلہ سامنے ہے۔ یہ آزمائش صرف مریم نواز کی نہیں، ان سب کی ہے جو اقتدار کے مراکز میں موجود ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved