قارئین ادھر یہ کالم آپ کے پیش نظر ہو گا‘ ادھر میں عوامی جمہوریہ چین کے پانچ روزہ دورے پر بیجنگ لینڈ کر چکا ہوں گا (انشااللہ)۔ قونصلیٹ جنرل آف عوامی جمہوریہ چین اور "Understanding China Forum" کے زیر اہتمام برادرم ظفر محمود کی قیادت میں ایک وفد پاکستان سے چین آیا ہے‘ جس کا مقصد پاکستان‘ بالخصوص پنجاب اور چین کے درمیان باہمی دلچسپی سے متعلق روابط کو فروغ دینا ہے۔ اکنامک ریفارمز کے حوالے سے چین کی اوپن ڈور پالیسی پر سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر بات چیت اور کئی اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی شیڈول کا حصہ ہیں۔ اس دورے کے مشاہدات، تاثرات اور تجربات واپسی پر یقینا آپ سے شیئر کروں گا۔ جاتے جاتے وطن عزیز کے حالاتِ حاضرہ پر بات ہو جائے۔
شہباز شریف کی طرف سے میثاق معیشت کی پیشکش پر ان کے اپنے ہی گھر اور پارٹی سے شدید رد عمل سامنے آ چکا ہے۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے میثاقِ معیشت کو مذاقِ معیشت قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو سہارا یا کندھا دینے والا عوام کا مجرم ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معیشت کو برباد کرنے والوں کو میثاقِ معیشت کے ذریعے سہارا دینا موجودہ حالات اور معیشت کی بربادی کے ذمہ داران کو این آر او دینے کے مترادف ہے۔
ادھر اسد عمر نے بجٹ سیشن کے دوران تقریر کرتے ہوئے مطالبہ کر ڈالا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے پر تحقیقات کروائی جائیں۔ واقفان حال بخوبی جانتے ہیں کہ ان کا اشارہ کس طرف ہے اور چینی کی قیمتوں کا بینیفشری کون ہے۔ ان کی اپنی پارٹی کے اندر بینیفشری کون ہے اور پارٹی سے باہر کون۔ سبھی کو سب ہی جانتے ہیں۔ معیشت کا بحران تو حکومت کو لیے جا ہی رہا تھا‘ تحریک انصاف کے اندرونی انتشار اور دھڑے بندیوں نے صورتحال کو مزید گمبھیر کر ڈالا ہے۔ حال ہی میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایک شخصیت کو حکومتی معاملات میں مداخلت پر آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ آج اسد عمر بھی غالباً انہی کو ہدفِ تنقید بناتے نظر آتے ہیں۔ اسد عمر نے تو خیر ڈھکے چھپے الفاظ میں چینی کے بحران اور قیمت میں اضافے کے ذمہ دار اور بینیفشری کی طرف اشارہ کیا ہے‘ شاہ محمود قریشی تو سیدھے ہی ہو گئے تھے۔ انہوں نے کابینہ کے اجلاسوں اور دیگر سرکاری میٹنگز اور معاملات میں ان صاحب کی موجودگی اور مداخلت پر برملا ہی کہہ ڈالا تھا کہ ہم یہاں کوئی ''آلو چھولے بیچنے نہیں آئے‘‘۔ خیر ان صاحب کی اہمیت اور افادیت تو عمران خان صاحب ہی بہتر جانتے اور مانتے ہیں کیونکہ ہیرے کی قدر تو بس جوہری ہی جانتا ہے۔ دوسرے کیا جانیں کہ یہ صاحب کیوں ناگزیر ترین ہیں۔
تحریک انصاف نے عوام کے مینڈیٹ کے جواب میں جو غیر مقبول اور نا معقول اقدامات اب تک کیے تھے‘ اس کی قیمت کڑے فیصلوں کی صورت میں ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔ عوامی مینڈیٹ کا حشر نشر جو ہوا سو ہوا‘ زمینی حقائق کے برعکس فیصلوں اور ان پر اصرار اور ضد عوامی حلقوں میں بے چینی، بد دلی اور بد اعتمادی کو مزید ہوا دے رہی ہے۔ کسی حکمران میں اگر ہزار خوبیاں ہوں‘ لیکن مردم شناسی کا وصف نہ ہو تو ساری خوبیاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ کسی بھی لیڈر کا یا حکمران کا اصل کام اہداف کے حصول کے لیے موزوں ترین شخص کا انتخاب ہوتا ہے‘ یعنی Right Man for Righ Job۔ کوئی حکمران یا لیڈر سارے کام خود نہیں کر سکتا۔ ہر کام میں اس کی مہارت ممکن ہی نہیں۔ اس کی اصل کامیابی اس ٹیم کی تشکیل ہے جو اپنے لیڈر کے ویژن اور ایجنڈے کی عملی تصویر بن سکے۔
بدقسمتی سے وطن عزیز میں جو بھی برسر اقتدار آیا‘ ایک سے بڑھ کر ایک ہی آیا۔ ملک کے طول و عرض میں کوئی صاحب اقتدار و اختیار ایسا نہیں‘ جو مردم شناسی کے ہنر سے آشنا ہو۔ نواز شریف سے بے نظیر تک... جنرل پرویز مشرف سے آصف علی زرداری تک... اور اب عمران خان سے ان کے قریبی رفقا اور مصاحبین تک‘ اقربا پروری اور بندر بانٹ کا ایسا ایسا منظر، ایسا ایسا واقعہ‘ ایسا اندھیر کہ بند آنکھ سے بھی سب کچھ صاف صاف دکھائی دیتا ہے۔ بس دکھائی نہیں دیتا تو ان حکمرانوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ جیسے اپنی کمر کا تل کسی کو نظر نہیں آتا‘ اسی طرح یہ حکمران بھی اپنے قریبی رفقا اور مصاحبین کسی واردات اور کسی بھی کارستانی کو دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
عثمان بزدار صاحب سے لے کر کئی وفاقی اور صوبائی وزرا تک‘ نعیم الحق سے لے کر زلفی بخاری اور ارشد خان سے لے کر احسان مانی تک‘ ہر طرف من مانی کا ہی دور دورہ ہے۔ ان سبھی کو موافق اور مفید ثابت کرنے کے لیے بے شمار توجیہات اور وضاحتیں دی جا چکی ہیں‘ لیکن ان حکومتی چیمپئنز کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا دکھائی نہیں دیتا۔ان سب کو موافق ثابت کرتے کرتے کہیں حکومت عوام کے لیے غیر موافق نہ بن جائے۔شوق اقتدار سے مجبور دیگر پارٹیوں سے تحریک انصاف میں شامل ہو کر الیکشن لڑنے والے بھی عجیب الجھن اور کشمکش سے دوچار نظر آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں آنے والے راجہ ریاض بھی نا امیدی کے ہاتھوں واپسی پر مجبور نظر آتے ہیں۔ راجہ ریاض اپنی پارٹی کی اگلی صفوں سے اٹھ کر تحریک انصاف کی پچھلی نشستوں پر کب تک بیٹھ سکتے تھے۔ ایک راجہ ریاض ہی نہیں کئی راجے‘ مہا راجے اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر شوقِ اقتدار سے مجبور تحریک انصاف میں آکر بے مقصد پھرنے پر مجبور ہیں۔
برسر اقتدار آتے ہی کرپشن پر سزائے موت کا قانون بنانے کی باتیں کرنے والی تحریک انصاف نہ جانے کہاں رہ گئی۔ کرپشن پر سزائے موت تو درکنار‘ سب کچھ ویسا ہی اور اسی طرح چل رہا ہے‘ جیسا ہمیشہ سے چلتا آ رہا ہے۔ جس معاشرے میں سب چلتا ہے‘ وہاں یہ سب کچھ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔ کرپشن پر موت تو دور کی بات یہاں تو میثاق سیریز شروع ہو چکی ہے۔ کرپشن کو موت دینے کے لیے پارلیمنٹ میں ہونے والی پیش رفت کہیں بھٹک چکی ہے اور معاملہ اب مفاہمت اور میثاق کے گرد گھومتا نظر آ رہا ہے۔ اگر سیاسی مفاہمت کا مطلب ایک دوسرے کو تحفظ دینا ہے تو یہ مفاہمتی پالیسی ملک و قوم کی پستی، گراوٹ اور بدحالی سے ہو کر جگ ہنسائی تک پہنچ سکتی ہے۔
چین اور کوریا جیسے ممالک اپنے ابتدائی حالات میں ہم سے کب بہتر اور مستحکم تھے۔ انہوں نے بھی کرپشن کو ''موت‘‘ دے کر ہی اپنے ملک اور قوم کو باوقار اور خوشحال زندگی دی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کرپشن کے دفاع کی خاطر مصلحت اور مفاہمت کی اس انتہا پر چلے جاتے ہیں کہ ان کی بلا سے ملک کے پلے کچھ رہے نہ رہے۔ ان کی گردن اور کھال محفوظ رہنی چاہیے۔ سیاست میں مفاہمت کے بادشاہ کسی صورت ''ڈیڈ لاک‘‘ کے قائل نہیں۔ بس سسٹم اور کام چلنا چاہیے۔ پروڈکشن آرڈر پر پارلیمنٹ آ کر بجٹ سیشن سے تقریر کے دوران کس قدر سادگی سے انھوں نے کہہ ہی ڈالا کہ یہ پکڑ دھکڑ چھوڑیں اور آگے چلیں‘ ہم ساتھ مل کر چلنے کو تیار ہیں۔جب معاشرے میں لوٹ مار اور مار دھاڑ استحقاق تصور کی جانے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ بڑے آپریشن کا وقت آن پہنچا ہے۔ یہ آپریشن الحمدللہ شروع ہو چکا ہے۔ نواز شریف خاندان اور دیگر اہم سیاستدانوں سے لے کر اعلیٰ سرکاری افسران تک احتسابی شکنجے میں آچکے ہیں‘ اور قانونِ فطرت بھی حرکت میں آ چکا ہے اور قوم قانونِ فطرت کی حرکت اور گرفت کا عملی مظاہرہ دیکھ رہی ہے۔ عبرت صرف سمجھنے والوں کیلئے ہے۔
یوں تو وطنِ عزیز کے حکمرانوں، اشرافیہ اور حکام کی بداعمالیوں اور لوٹ مار کی چونکا دینے والے اَن گنت داستانیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ لوٹ مار اور نفسانفسی کے اس گھمسان میں نہ کسی حکمران نے کوئی لحاظ کیا اور نہ کسی منصب دار نے کوئی شرم کی۔ ایسا اندھیر مچائے رکھا کہ بند آنکھ سے بھی سب صاف صاف نظر آرہا ہے۔ سربراہِ حکومت سے لے کر پٹواری تک کسی پر کوئی الزام لگا دیجئے کلک کرکے فٹ بیٹھ جائے گا۔ آخر میں تحریک انصاف کے طرزِ حکمرانی اور تبدیلی سرکار پر واویلا کرنے والے عوام کی ریکارڈ کی درستی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ دھرنوں اور انتخابات میں تبدیلی کا وعدہ ضرور کیا تھا لیکن تبدیلی بہتری کی صورت میں ہی ہو‘ یہ ضروری نہیں۔ تبدیلی کا مطلب بد ترین بھی ہو سکتا ہے۔ جو عوام کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اصل مقصد حالات تبدیل کرنا تھا‘ جو تحریک انصاف نے کر ڈالے۔ وہ بہترین ہوں یا بدترین‘ یہ عوام کا نصیب ہے‘ جو عوام نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے لکھ ڈالا ہے۔ تبدیلی سرکار نے تبدیلی کا وعدہ کیا تھا‘ بہتری کا نہیں!