شش جہات کی یہ کہانی گو بہت طویل ہے مگر اس کا خلاصہ چار الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ ’’آ بیل مجھے مار‘‘۔ یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو اس سوال پر کبھی تو ایک مکمل بحث ہو کہ 52 سال میں چار بار مارشل لاء کا ذمہ دار کون تھا؟ کیا ہمیشہ عسکری قیادت قصوروار ہوتی ہے یا کوئی اور بھی؟ سستی شہرت کے لیے ٹی وی پر قطعاً نہیں بلکہ کسی اور فورم پر۔ ٹھنڈے دل سے تاکہ بات سنی جائے اور تعصبات کی دلدل میں مفہوم و معانی گم ہو کر نہ رہ جائیں۔ دور دراز کسی کو قاضی بنا کر بھیجا گیا تو سرکارؐ نے اصول یہ بیان کیا تھا: پوری طرح ہر فریق کا مؤقف سن کر ہی سچا فیصلہ ممکن ہے۔ پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی نے فرمایا یہ ہے: لبرل پارٹیاں دہشت گردی کا ہدف ہیں اور یہ کہ ریاستی ادارے دائیں بازو کی مدد گار ہیں۔ کیا یہ وہی جماعتیں نہیں‘ جنہیں سپریم کورٹ بھتہ خوری کا مجرم قرار دے چکی؟ بھتہ خوری کیا دہشت گردی نہیں؟ پھر یہ کہ لبرل اور سیکولر وہ کیسے ہو گئیں؟ جاگیردار کس جماعت کا حصہ ہیں؟ پیپلز امن کمیٹی کس کی تخلیق ہے؟ ایم کیو ایم کے رہنما اعتراف کرتے ہیں کہ بسااوقات وہ بھی تشدد کے مرتکب ہوئے… اور اے این پی کے جانباز؟ تیرہ عدد پیغام میرے ٹیلی فون پر محفوظ ہیں۔ ایسے غلیظ کہ نقل تو کجا‘ بے تکلف دوستوں کو بھی سنائے نہیں جا سکتے۔ عرض کیا تھا کہ عمران خان صوبہ سرحد میں اسفند یار کا متبادل بن کر ابھر آئے۔ قاتلوں کی یلغار پر ان کا احتجاج برحق کیا کبھی ان لوگوں نے بھتہ خوری سے نمٹنے کی تدبیر کی۔ ایک ذرا سی تدبیر بھی؟ کیا کبھی اپنے گریبان میں جھانکا؟ ریکارڈ موجود ہے۔ ایک دوسرے کو بار بار دہشت گردی کا انہوں نے ذمہ دار ٹھہرایا۔ کراچی کے ہوائی اڈے پر کس نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو یرغمال بنایا تھا؟ شہر میں دن بھر کون گولیوں کی بارش فرماتا رہا تھا؟ پچھلے پانچ برس میں کراچی کے 9000 شہری مارے گئے۔ کون اس کے لیے ذمہ دار ہے؟ حکومت کس کی تھی؟ کراچی پولیس میں کس کس نے اپنے کارندے بھرتی کرائے؟ کراچی کے پولیس افسر چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ سیاسی دبائو ہے‘ سیاسی دبائو۔ رانا ثناء اللہ کا رابطہ کس سے رہتا ہے اور کس لیے؟ کیا یہ سب کچھ فوجی قیادت کا کیا دھرا ہے‘ سب کچھ؟ روشنیوں کے شہر میں کس کس نے اندھیرے بوئے ہیں؟ کس کس نے ’’نوگوایریاز‘‘ بنا رکھے ہیں۔ کیا یہ سیاست ہے اور کیا یہ سیاسی پارٹیاں ہیں؟ کیا جمہوریت کا حسن یہی ہوتا ہے؟ 17 سیاسی جماعتوں نے فوج کی نگرانی میں الیکشن کا مطالبہ کیا ‘ انہیں دھاندلی کا اور غنڈہ گردی کا خطرہ کس سے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور اے این پی اس مطالبے کی مخالف کیوں ہیں؟ کیا انہیں اندیشہ ہے کہ فوجی جوان‘ کسی خاص گروہ کی مدد کریں گے؟ کیا موجودہ عسکری قیادت کا ریکارڈ یہی ہے؟ سب جانتے ہیں کہ 2008ء کے الیکشن سے پہلے‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کور کمانڈروں کو دھاندلی روکنے کا حکم دیا۔ کیا یہ ان کی ذمہ داری تھی؟ برسر اقتدار قاف لیگ‘ ایم کیو ایم اور امریکی سرپرستی میں این آر او کے تحت جنرل پرویز مشرف کی حلیف ہو جانے والی پیپلز پارٹی کی نہیں تھی؟ یہ ان کا فرض تھا کہ این آر او کے تحت اپنے ملزموں کی رہائی کے علاوہ فوجی حکمران سے شفاف الیکشن کی ضمانت بھی طلب کرتے۔ انتخابات کا امن سے انعقاد انتظامیہ‘ پولیس اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی‘ جنرل کیانی اور کور کمانڈروں کی ہرگز نہیں۔ جنرل پرویز مشرف ابھی صدارت کے منصب پر براجمان تھے اور جنرل کیانی کو برطرف کرنے کا اختیار رکھتے تھے۔ انہوں نے کوشش کی اور اس لیے کوشش کی کہ آزادانہ الیکشن کے لیے ان کے کردار پہ وہ برہم تھے۔ صدر زرداری جانتے ہیں۔ کبھی کوئی ان سے پوچھ لے کہ پوری کہانی کیا ہے۔ امریکہ بہادر نے اپنے ایجنڈے پر ایمان رکھنے والے جنرل مشرف کو کمک فراہم کی تو محترم آصف علی زرداری کو اس سے بھی کہیں زیادہ۔ بعد میں مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم والے بھی ان سے جا ملے۔ انکل سام سرگرم تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو‘ جنرل پرویز مشرف اور ان کے لے پالکوں کی حکومت بنائی جائے۔ دو بار بائیکاٹ کا اعلان کر کے واپس لینے والے نوازشریف کو بھی کیا واشنگٹن اور لندن نے الیکشن میں شرکت پر آمادہ نہ کیا؟ منصوبے کے وہ مددگار بنے‘ جس کا مقصد ملک کی خودمختاری کو تارتار کرنا تھا۔ انکل سام کا تابع مہمل بنانا تھا پاکستانی عوام کے دبائو کی وجہ سے وہ واپس آئے تھے وگرنہ تو اغوا کر کے وہ جدہ پہنچا دیئے گئے تھے۔ پھر اس دھاندلی والے الیکشن میں وہ شریک ہوئے‘ جس کا ایک نشانہ وہ خود بھی تھے۔ منصوبے کے تحت ایک کٹھ پتلی حکومت تشکیل پائی‘ جس نے امریکہ سے پرویز مشرف کے خفیہ وعدوں کی اور زیادہ وفاداری اور زیادہ خوش دلی سے پیروی کی۔ حسین حقانی کو‘ اسی لیے واشنگٹن میں پاکستان کا سفیر بنایا گیا۔ پاکستان کے خلاف یہ امریکی کارندہ کبھی نوازشریف کو بہت عزیز تھا۔ ایک پیشہ ور پروپیگنڈسٹ۔ پیپلز پارٹی کے اسی عہد میں بلیک واٹر کے ہزاروں کارندے‘ ملک بھر میں پھیل گئے۔ ایک بار امریکیوں کا ایک پورا جہاز ویزوں کے بغیر اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر اترا اور شب کی تاریکی میں تحلیل ہو گیا۔ ہمارے لبرل اور ہمارے سیکولران کا وجود تسلیم کرنے ہی سے انکار کرتے رہے۔ ہزاروں ویزے جن کے لیے جاری ہوئے۔ پاسپورٹ پر جن میں سے بعض کی منزل مقصود ان الفاظ میں لکھی تھی: ’’ایوان صدر اسلام آباد‘‘۔ بلیک واٹر کا وجود تسلیم نہ کرنے والوں میں سے ایک ’’صادق‘‘ اور ’’امین‘‘ جناب ہود بھائی ہیں۔ اسلام آباد میں‘ کپتان کے ایک ذاتی دوست کے پاس‘ امریکی سفارت خانے کا ایک سرکاری خط محفوظ ہے۔ مبینہ طور پر اس میں ہود بھائی کو باقاعدہ امریکی ملازم لکھا گیا۔ کوئی تفتیش کرتا‘ کوئی تحقیق کرتا کہ سچائی سامنے آتی۔ مگر کون کرتا؟ حسین حقانی کو سفیر بنانے والے؟ رحمن ملک کو وزارت عطا کرنے والے؟ ایک شخص کا نام نجم سیٹھی ہے‘ جو پاکستانی شہریوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو معصوم اور سفارت کار قرار دیتا رہا۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے پوری خوش دلی سے‘ کامل اتفاق رائے کے ساتھ اسے پنجاب کا نگران وزیراعلیٰ بنایا کہ سرکاری رازوں تک رسائی پائے۔ کبھی کسی اخبار نویس نے تحقیق کی ہے کہ یہ شخص کہاں سے آیا ہے؟اس کا خاندان؟ اس کا ماضی؟ اس کی وفاداریاں؟ وہ کون لوگ تھے اور وہ کیا چاہتے تھے۔ حال ہی میں ایک چینل پر جنہوں نے جنرل کیانی کو گندی گالی دی؟ کس جرم میں؟ کس کے ایما پر؟ عالی ظرفی سے کام لے کر جنرل کیانی نے معاف کردیا تو اچھا کیا مگر کہیں کوئی ایک بھی نہ اٹھا کہ حرفِ تحسین کہے۔ صحرا مگر بہ تنگیِٔ چشمِ حسود تھا کیا وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ عدلیہ نے مارشل لاء کی مزاحمت کی؟ مارشل لاء کا تو کوئی منصوبہ تھا ہی نہیں، تو وہ کس چیز کی مزاحمت کرتے رہے؟ فوجی حکمرانی بدترین چیز ہے۔ بے شک‘ بے شک۔ انسانی صلاحیت صرف آزادی میں نشوونما پاتی اور معجزے برپا کرسکتی ہے۔ ایک چیز مگر ڈسپلن بھی ہوتی ہے‘ احساس ذمہ داری بھی۔ ایک چیز کا نام اخلاق اور سچائی بھی ہے۔ کیا ہمارے لیڈروں کو ادراک ہے؟ کیا کبھی انہوں نے غور فرمانے کی زحمت کی؟ ’’سیفما‘‘ کے اجلاس سے اٹھ کر نواز شریف مظفرآباد گئے اور اعلان فرمایا: کشمیریوں کے لیے پاکستانی فوج بھارتیوں سے بدتر ہے۔ واقعی بدتر ہے؟ سینیٹر پرویز رشید کا پڑھایا ہوا سبق! لیگی لیڈر‘ 44 سال میں ایک بار بھی جسے قائداعظم کو خراج تحسین پیش کرنے کی توفیق نہ ہوسکی۔ سب جانتے ہیں کہ فوج اسی معاشرے کا حصہ ہے۔ خامیاں اس میں بھی بہت ہیں مگر حضور! کردار کسی گروہ یا ادارے کا نہیں‘ فرد کا ہوتا ہے۔ ایک خاندان میں سات بھائی‘ ساتوں الگ۔ ہر آرمی چیف دوسرے سے مختلف تھا۔ جنرل کاکڑ بھی اسی سپاہ کے فرزند تھے۔ پرویز مشرف کا احتساب لازم ہے مگر ان سیاستدانوں اوردانشوروں کا کیوں نہیں، جو شریک جرم تھے۔ ستر فیصد پاکستانیوں نے 12 اکتوبر 1999ء کے مارشل لاء کا خیر مقدم کیا تھا۔ خدانخواستہ آج اگر فوج اقدام کرے تو اس سے زیادہ کریں گے۔ قوم کو اعتماد کس پر ہے؟ فوج یا سیاستدانوں پر؟ سروے کرا لیجیے۔ اس وقت جب الیکشن کیلئے فوج عدلیہ اور الیکشن کی مدد کر رہی ہے اس پر کیچڑ کیوں اچھالا جا رہا ہے؟ مقصد کیا ہے؟ اس سے بڑا احمق کون ہے جو دوست کو دشمن اوردشمن کو دوست سمجھے۔ شش جہات کی یہ کہانی گو طویل بہت ہے۔ خلاصہ مگر چار الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے۔ ’’آ بیل مجھے مار‘‘۔ یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved