تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     25-06-2019

سیاسی بقا کی جنگ

گزشتہ چند ہفتے سیاسی اور قانونی حوالے سے انتہائی چشم کشا ثابت ہوئے ہیں ۔رمضان المبار ک کے گزرتے ہی حمزہ شہباز کا نیب کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل ختم ہوگیا‘آصف زرداری اور فریال تالپور گرفتار ہوگئے ‘سکاٹ لینڈ یارڈ نے الطاف حسین کو حراست میں لے لیا (پھر رہا بھی کر دیا )اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی ضمات کی درخواست مسترد کر دی اور نیب نے اپنے احتساب کے دائرہ کار کو ملک بھر میںدیگر سیاسی رہنمائوں تک وسیع کر دیا۔ اس ضمن میںپی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کے ایک وزیر سبطین خان کو گرفتار کر لیا گیا۔وزیر اعلیٰ سندھ کو بھی تحقیقاتی ایجنسیوں کی طرف سے تحقیقات کا سامنا ہے ‘جبکہ کراچی کے سابق میئر اور پاک سر زمین پارٹی کے صدر مصطفی کمال کے خلاف پہلے ہی ایک ریفرنس دائر کر دیا گیا ہے۔
یہ ساری پیش رفت انتہائی سنسنی خیز ہے ‘مگر ان سب باتوں کا منفرد پہلو یہ ہے کہ ان کارروائیوں کے بعد جس طرح کے عوامی ردعمل اور شور شرابے کا خدشہ تھا ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ملک بھر میںشٹر ڈائون کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔الطاف حسین کی گرفتاری پرکراچی بند نہیں ہوا ‘آصف زرداری کی گرفتاری پر سندھ میں کوئی ہلچل نہیں مچی‘نواز شریف کی قید اور حمزہ شہباز کی گرفتاری پر پنجاب میں پتا بھی نہ ہلا۔گزشتہ چند ہفتوں کے واقعات نے ان دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے کہ بعض سیاسی شخصیات پاکستان اور اس کے اداروں سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ان سب باتوں کے باوجود سیاسی محاذ آرائی کی اس عارضی لہر کو ہمارے اہم مفادات کو نقصان پہنچانے کاموقع نہیں ملنا چاہیے‘ کیونکہ یہ درحقیقت چند افراد اور ہمارے اداروں کی بقا کی جنگ ہے ۔ یہاں ایک طرف خاندانی سیاست کرنے والی سٹیٹس کو کی نمائندہ فورسز ہیں ‘جو اپنی ذاتی سیاست اور ان کی پشت پناہی کرنے والے نظام کی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں اور دوسری جانب وہ حلقے ہیں جو اندرونی خطرات سے نمٹے بغیر اپنے علاقائی اہداف حاصل نہیںکر سکتے۔ایک افریقی کہاوت ایسی صورتحال کی بہترین عکاسی کرتی ہے ''ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا نقصان ہوتا ہے ‘‘اور ہاتھیوں کی بقا کی اس جنگ میں بے چارے عوام (گھاس) بری طرح کچلے جا رہے ہیں۔
اب ہم موجودہ حالات کی طرف آتے ہیں۔ یہ کہ پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں پر مبنی ہمارا موجودہ جمہوری ڈھانچہ اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام نظر آرہا ہے۔ہم اپنی بات کو ذرا احتیاط سے ایک بار پھر یوں دہراتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں کہ جمہوریت کام نہیں کر رہی‘ بلکہ جمہوریت کی کارکردگی کیلئے پاکستان بھر میںجو نظام وضع کیا گیا ہے ‘وہ بری طرح شکست و ریخت کا شکار نظرآتاہے ۔اپنی پارلیمنٹ کی مثال ہی لے لیں ‘اس بات سے اختلاف ممکن ہی نہیں کہ ہماری موجودہ پارلیمنٹ اپنی موجودہ شکل میں عوامی خواہشات کی ترجمانی کرنے سے قاصر نظر آتی ہے۔حالیہ چند اجلاسوں (بجٹ پر ہونے والی بحث ) کے سواہماری پارلیمنٹ سیاسی تنازعات اور پروڈکشن آرڈرز کی سیاست میں الجھی رہی۔حالیہ کئی ہفتوں سے حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں نے کسی رکن اسمبلی کو سیشن میں بولنے کا موقع نہیں دیا ۔سیاسی نعرے بازی ہوتی رہی ‘واک آئوٹ اور اجتماعی بائیکاٹ ہوتے رہے ‘عوامی مسائل پر بات کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف غیر اخلاقی زبان استعمال ہوتی رہی ۔ا س عرصے میں پارلیمنٹ میںموجود کسی بھی سیاسی جماعت نے بوسیدہ قانونی فریم ورک میںاصلاحات لانے اور اسے اپڈیٹ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں صرف ایک اہم قانون سازی کی گئی ہے اور وہ ہے الیکشن ایکٹ 2017ئ۔اس قانون سازی کے پیچھے بھی کسی عوامی بھلائی کا جذبہ کارفرما نہیں تھا‘ بلکہ اس کا مقصد ایک نااہل شخص کو اپنی جماعت کا سربراہ بننے کا موقع فراہم کرنا تھا اور ساتھ ہی الیکشن کمیشن کے پاس کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے فارم سے اثاثے ڈکلیئر کرنے کی شرط کو ختم کرنا تھا ۔یہ قانون سازی صرف ارکان پارلیمنٹ کے ذاتی مفاد اور چند افراد کا سیاسی مستقبل محفوظ کرنے کے لئے کی گئی تھی۔
کیا 1973ء کے آئین کی رو سے جمہوریت کا یہی مینڈیٹ اور حقیقی روح ہے ؟ کیا ہمارا جمہوری نظام جسے اعتماد کے مقدس جذبے پر استوار کیا گیا تھا ‘اس کا مقصد صرف دومخصوص خاندانوں کی سیا سی اور مالی بقا کا تحفظ کرنا رہ گیا ہے ؟یاد کریں ہمارے ارکان اسمبلی نے ماحولیات ‘ریجنل سکیورٹی ‘بین الااقوامی تعلقات ‘ سماجی بہبود ‘آبادی پر کنٹرول اور فوجداری نظامِ عدل پر آخری مرتبہ کب بحث کی تھی؟ یاد کریں ہمارے ارکانِ پارلیمنٹ نے مقامی مفادات سے متعلق آخری بل کب ایوان میں پیش کیا تھا؟آخری دفعہ کب پارلیمانی کمیٹیوں (پبلک اکائونٹس کمیٹی)نے سرکاری اخراجات کے بارے میں ارکانِ پارلیمنٹ کی جواب طلبی کی تھی؟یا سرکاری محکموں اور ان کے سربراہوں نے وزرا کے احتساب کے لئے کب کام کیا تھا ؟اس آخری معاملے کے حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے انتہائی ایماندار سرکاری افسر حسین اصغر کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن تشکیل دیا ہے جو نہ صرف پچھلے دس برسوں میں لئے گئے قرضوں بلکہ ان کے استعمال کی شفافیت کا بھی آڈٹ کرے گا ۔اب یہ امر تو پوری طرح واضح ہوگیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت بلا امتیازتما م سیاستدانوں کے مالیاتی فیصلوںاور ان کے استعمال میں شفافیت کی ذمہ داری انہی پر ڈالنے والی ہے ۔
ان حالات میں وہ لوگ جو گزشتہ ایک عشرے یا اس سے پہلے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان رہے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی سیاسی بقا کی لڑائی ہے۔ان کے لئے یہ ایک ایسے کلچر کی بقا کی جنگ ہے جہاں اس سے پہلے سیاست دانوں کے مالیاتی احتساب کا چلن مفقود تھا ۔یہ ان طبقات کی بقا کی جنگ ہے جو خود کو ہی جمہوریت کا عملی نمونہ سمجھتے ہیں جو اس زعم میں مبتلا ہیں کہ اگر ان کی سیاسی اجارہ داری بر قرار رہے تو ہی جمہوریت کی گاڑی آگے کی سمت سفر کر سکتی ہے ‘جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نیب جیسے اداروں کی کیا مجال ہے کہ ان کی باز پرس کر سکے ‘جو یہ سمجھتے ہیں کہ ''ووٹ کو عزت دو ‘‘کا نعرہ لگانے سے وہ ہر طرح کے فوجداری مقدمات سے مستثنیٰ ہو جاتے ہیں ‘جن سے ان کی ذاتی دولت کے بارے میں سوال کیا جائے تو وہ صوبائی اور نسلی کارڈ کھیلنے کی دھمکی دیتے ہیں ‘جو اپنی سٹریٹ پاور کے گھمنڈ میںپاکستان مخالف نعرے لگاتے ہیں او رجو اپنے اس طرح کے نجی اثرو رسوخ اور اجارہ داری کو برقرار رکھنے کی حمایت کرتے ہیں۔دوسری جانب یہ بعینہ ان اداروں کی بقا کی بھی جنگ ہے ‘جنہوں نے طاقتور سیاسی بزرجمہروں سے تفتیش کرنے کی آغاز کیا ہے ‘یہ نیب کے مستقبل کی بھی جنگ ہے جو اس وقت چوہدری قمر الزمان جیسے کمزور چیئرمین کی طرح سر نگوں ہونے کے لئے تیار نہیں ‘یہ SECPکی بھی بقا کی جنگ ہے ‘جس کی سربراہی اب ظفر حجازی جیسے شخص کے پاس نہیں اور نیشنل بینک آف پاکستان کے مستقبل کی بھی لڑائی ہے جو اب اسحٰق ڈار کی ہدایات پر نہیںچل رہا؛اگر زیادہ نہیں تو یہ اتنی ہی پاکستان کے مقتدر حلقوں کی بقا کی جنگ بھی ہے ۔یہ ان سویلین اور عسکری اداروں کی ساکھ اور عزت کامسئلہ بھی ہے ‘جنہوں نے پانامہ اور جعلی اکائونٹس کی جے آئی ٹی تحقیقات میں حصہ لیا تھا ‘یہ ان افراد کی آزادی کی جنگ بھی ہے‘ جنہیں وزیر اعظم نے اپنے نئے تشکیل کردہ کمیشن میں شامل کیا ہے اور ان تمام لوگوں کی بقا کی لڑائی ہے‘ جو اس سارے عمل کی حمایت میں کھڑے ہیں۔
ذاتی بقا کی یہ جنگ اگلے چند دنوں اور ہفتوں میں کھل کر سامنے آجائے گی۔یہ جنگ میڈیا پر بھی پورے زور شور سے لڑی جائے گی اور پارلیمنٹ کے اندر بھی دھینگا مشتی کا پورا امکان ہے ۔اس بات سے قطع نظر کہ اس کشمکش میں جیت کس کی ہوتی ہے‘ اہم بات یہ ہے کہ اس عمل کواپنے منطقی انجام کوپہنچنے تک جاری رہنا چاہئے۔ کوئی اور وجہ نہ بھی سہی ‘ہمیں اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم اپنے ملک کو کس سمت میں لے جانا چاہتے ہیں اور اس سمت میں ہماری رہنمائی کون کرے گا ۔اس جنگ کے خاتمے کے بعد بھی گورننس کی اخلاقیات کے تابع جمہوریت کا یہ سلسلہ توجاری رہے گا ‘مگر یہ ضروری نہیں کہ اس کشمکش کے بعد ہمارا موجودہ حکومتی نظام بھی خود کو بچا پاتا ہے یانہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved