میرے بیان کو سیاق وسباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا:مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''میرے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا‘‘ اور وہ جو میں نے میثاق ِجمہوریت کو مذاق ِجمہوریت کہا تھا‘ تو وہ محض مذاق میں کہا تھا‘ کیونکہ میںطبیعتاً مخولیہ واقع ہوئی ہوں‘ جبکہ میثاق اور مذاق کا قافیہ ملانا بھی میری شاعرانہ طبیعت کا خاصہ ہے‘ کیونکہ میں سیاست کے علاوہ شاعری بھی کرتی ہوں اور بہت جلد مشاعروں میں شرکت کرنا شروع کر دوں گی‘ جبکہ اپنا دیوان بھی ترتیب دے رہی ہوں‘ جو چچا جان کے دیباچے کے ساتھ بہت جلد شائع ہوگا‘ جس کے فلیپ پر برادرِ عزیز حمزہ شہباز کی قیمتی رائے درج ہوگی اور اگر میں اس شعبہ میںکامیاب ہوگئی تو سیاست چھوڑ کر شاعری کو ہی اپنا مستقل پیشہ کے طور پر اپنا لوں گی ۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
چند عاقبت نااندیش عناصر تبدیلی سے خوفزدہ ہیں:عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''چند عابقت
نااندیش عناصر تبدیلی سے خوفزدہ ہیں‘‘؛ حالانکہ تبدیلی کا دور دور تک کہیں نام و نشان تک نہیں ہے‘ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ تبدیلی ‘ اگر آئی تو اپنے آپ ہی آئے گی‘ جس طرح ملک میں سارے کام اپنے آپ ہی ہو رہے ہیں ‘بلکہ ہم خود بھی خوفزدہ ہیں کہ اگر واقعی تبدیلی آ گئی تو ہمارا کیا بنے گا؟ اگرچہ میری اپنی تبدیلی کی افواہیں کافی حد تک دم توڑ چکی ہیں‘ تاہم کچھ لالچی حضرات اب بھی سازشوں میںمصروف ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میری تبدیلی ہی اصلی تبدیلی ہوگی ؛حالانکہ میں غریب کسی کاکیا لیتا ہوں اور اتنا بے ضرر ہوں کہ ماتحت افسر بھی میری بات نہیں مانتے اور وہ میری تبدیلی نہیں چاہتے ‘کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ میرے بعد کوئی دبنگ قسم کا وزیراعلیٰ نہ آجائے اور ان کی موجیں ‘اسی طرح سے لگی رہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
حکومت گرانے کا فیصلہ اپوزیشن کی اے پی سی میں ہوگا:زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت گرانے کا فیصلہ اپوزیشن کی اے پی سی میں ہوگا‘‘ کیونکہ ہم دونوں پارٹیاں جس وقت کا انتظار کررہی ہیں‘ وہ کسی وقت بھی آ سکتا ہے‘ کیونکہ دنیا امید پر قائم ہے‘ جبکہ ہم کچھ زیادہ ہی امید پر قائم واقع ہوئے ہیں‘ جبکہ ہمارے اشارے کی امید نسبتاً زیادہ ہے‘ کیونکہ ہم پیسے کا لالچ نہیں کرتے کہ ہاتھ کا میل ہے اور ہمارے ہاتھ بار بار دھونے کے بعد بھی میلے ہی رہتے ہیں اور ان کا جتنے پیسے کا مطالبہ ہو سکتا ہے‘ وہ پورا کر کے بھی پیسوں کا انبار لگا رہے گا‘ کیونکہ جب پیسہ بنایا جاتا ہے تو سارے امکانات کو سامنے رکھ کر ہی بنایا جاتا ہے ‘جبکہ ہم عاقبت اندیش بھی کچھ ضرورت سے زیادہ ہی واقع ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیاکے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
ہمارے‘ بلکہ پورے ملک کے مہربان‘ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے آج اپنے کالم ''سحر ہونے تک‘‘ میں اپنے تخلیق کردہ دو شعر درج کیے ہیں ‘جو انہوں نے محمد مرسی کی اندوہناک رحلت پر نوحہ کی شکل میں کہے ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
ماتم گزار بزم نوحہ تو ہے بدنصیب
تیری جبیں کا گوہر نایاب بھی گیا
رنج شمائل‘ مختار و بھٹو تو کم نہ تھا
انجمن سے محمد مرسی بھی گیا
اس کلام بلاغت نظام کا پہلا‘ تیسرا اور چوتھا مصرعہ مکمل طور پر بے وزن ہیں؛ حتیٰ کہ ان کی صرف نشاندہی کی جا سکتی تھی‘ درستی نہیں۔ دوسرے مصرعے کے موزوں ہونے پر وہ داد کے مستحق ہیں؛ اگرچہ ''جبیں کا گوہر‘‘ محل ِنظر ہے۔
اور اب آخر میں عامرؔ سہیل کی یہ تازہ غزل:
تیرے بدن پہ خاک نژادوں کے دستخط
یادوں کے دستخط ہیں یہ وعدوں کے دستخط
اور حور جو بتوں کی جوانی سے بسکٹی
اور ہجرتوں کے اور فسادوں کے دستخط
ہم نام نام تیری طرف دوڑتے ہوئے
یہ شام شام تن یہ لبادوں کے دستخط
سب یار میرے کون طرف یار رہ گئے
اس آخری غزل پہ ہیں آدھوں کے دستخط
شہزادیوں کے ساتھ ہو ‘مہ زادیوں کے ساتھ
تجھ حسن پر نہیں ہیں پیادوں کے دستخط
مٹی کی کائنات بکھرنے پہ آ گئی
غیظ و غضب کے اور عنادوں کے دستخط
سرخ و سفید بیل جو کاندھے سے جھڑ گئی
ہاتھوں سے جھڑ گئے ہیں ارادوں کے دستخط
جلنے لگا ہے جسم‘ پھسلنے لگا ہے جسم
کمرہ بھرا ہوا ہے برادوں کے دستخط
کس درد کی دراز میں‘ کس رین کوٹ میں
ہم نے کہاں سنبھالے تھے یادوں کے دستخط
جگنو نہیں بتاتے‘ بتاتی نہیں شبیں
کس آگ میں جلے ہیں یہ بھادوںکے دستخط
آج کا مقطع
سفینہ ٹھہرا ہوا اور منتظر ہے‘ ظفرؔ
ہوا کا زور مگر بادباں سے آگے ہے