دریائے سندھ کا پانی شور مچا رہا تھا اور چٹانوں سے گزرتے ہوئے جیسے کرتب دکھا رہا تھا۔ فرصت ہی کہاں تھی کہ ایسے منظروں پر کچھ وقت گزارا جائے۔ یہ تو بس چند لمحے تھے جو ہنگاموں‘ جنگوں‘ انتظامی سر دردی اور ہزار قسم کے معاملات سے چُرا لیے گئے تھے۔ اکبر کابل سے واپس آ رہا تھا۔ اٹک کے مقام پر رُکا اور بس تھوڑی دیر فراغت سے لطف اندوز ہونے کے لیے دریا کے کنارے بیٹھ گیا۔ خانخاناں ہمراہ تھا۔ بادشاہ نے پوچھا وہ کون سا کھانا (ڈِش) ہے جو ایک ہی لقمے میں مکمل کھا لیا جاتا ہے۔ خانخاناں نے جواب دیا انڈا۔ بس فراغت کا وقت اسی قدر تھا۔ کوچ کا بگل بج رہا تھا۔ شاہی قافلہ مشرق کو روانہ ہو گیا۔ لاہور اور پھر آگرے کی طرف پھر وہی ہنگامے‘ جنگیں‘ انتظامی جھگڑے‘ راجپوتوں‘ افغانوں اور ترکوں کی نظر آنے والی اور چھپی ہوئی دشمنیاں‘ بغاوتیں‘ علمی مباحثے‘ ایک عرصہ بعد تفریح کا لمحہ میسر آیا۔ وہی اٹک کا مقام‘ دریائے سندھ کا وہی کنارا‘ خانخاناں اب بھی ساتھ تھا۔ بادشاہ نے دفعتاً پوچھا‘ کس طرح؟ خانخاناں نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر جواب دیا‘ اُبلا ہوا‘ جہاں پناہ! نہیں معلوم یہ واقعہ کتنا درست ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ زندگی کے ہنگاموں سے فراغت کے لمحے نچوڑنا آسان نہیں اور اب تو دہشت گردی اور سیاست دانوں کی کرپشن بھی زندگی کے ہنگاموں میں شامل ہو گئی ہے۔ گرانی اس کے علاوہ ہے : سلوٹیں ہیں مرے چہرے پہ تو حیرت کیسی زندگی نے مجھے کچھ تم سے زیادہ پہنا ایک اوسط پاکستانی چکی کے پاٹوں میں پِس رہا ہے۔ المیے کی انتہا یہ ہے کہ چکی کے پاٹ دو سے کہیں زیادہ ہیں! ان حالات میں ادب کے لیے وقت کون نکالے گا اور کہاں سے نکلے گا۔ لیکن آصف فرخی کا کمال یہ ہے کہ مہمات سے بھرے ہوئے تیز رفتار وقت میں کہیں نہ کہیں دریا کا کنارہ ڈھونڈ لیتا ہے اور ادب کا خیمہ نصب کر کے دوستوں کو ساتھ بٹھا لیتا ہے۔ ادیبوں کی اکثریت کا ادب سے رشتہ محض دو طرفہ ہوتا ہے۔ وہ خود اور ادب… آصف فرخی نے یہ نہیں کیا۔ ادیب تو وہ ہے ہی کہ کہانیاں لکھتا ہے۔ نظمیں کہتا ہے۔ انگریزی زبان میں اسی سہولت اور سپردگی کے ساتھ لکھتا ہے۔ تراجم کیے ہیں اور معرکے کے کیے ہیں۔ لیکن یہ دوطرفہ معاملات تھے۔ اس کا اصل کارنامہ ادب کے خیمے میں دوستوں کو بٹھانا ہے۔ اس نے ادبی پرچہ ’’دنیا زاد‘‘ نکالا پھر ڈھونڈ ڈھونڈ کر لکھنے والے اس میں شامل کیے۔ چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو دریافت کیا۔ شاعری‘ فکشن‘ عالمی ادب سے تراجم‘ سہ ماہی پرچہ‘ ’’دنیا زاد‘‘ ان سب حوالوں سے ممتاز ہے۔ پھر مکتبہ قائم کیا۔ کمرشل پبلشر‘ جو چھاپنے سے پہلے مسودے کا وزن‘ دوسرے پلڑے میں کرنسی نوٹ رکھ کر کرتے ہیں‘ جینوئن ادیبوں کو کہاں گھاس ڈالتے ہیں! آصف فرخی کے اشاعت گھر نے یہ برف بھی پگھلائی۔ ادیبوں اور شاعروں کی کتابیں میرٹ کی بنیاد پر شائع کیں اور یوں کہ یہ کام کرتے ہوئے ان کے خرام اور عزتِ نفس پر شکن نہ پڑنے دی۔ پھر اس نے ایک اور کام کیا جو پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ اس نے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے اشتراک سے ادبی میلوں کا انعقاد کیا۔ پہلے کراچی‘ پھر لاہور اور اب اسلام آباد میں! ان ادبی میلوں (Literary Festivals) میں جو جدت اس نے پیدا کی وہ انگریزی اور اردو ادب کا امتزاج تھا۔ اتفاق کہیے یا حالات کی ستم ظریفی کہ اردو ادیبوں کی اکثریت ہم عصر انگریزی ادب سے بے نیاز ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے‘ یہ اکثریت انگریزی پر اتنا عبور ہی نہیں رکھتی کہ دقت کے بغیر انگریزی زبان میں لکھے گئے ادب سے استفادہ کر سکے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تحریک پیدا کرنے کے مواقع نایاب ہیں۔ کوئی ایسا فورم ہی نہ تھا کہ اردو ادب کے شائقین اور انگریزی ادب کے دلدادگان ایک چھت تلے جمع ہوں۔ آصف فرخی کے منعقد کردہ ادبی میلوں کا یہی کمال ہے کہ اس نے سب کو ایک جگہ جمع کیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ انگریزی میں لکھے گئے ادب سے مراد وہ کتابیں نہیں جو سفید فام ادیب لکھ رہے ہیں۔ پاکستانی ادیبوں کی اچھی خاصی تعداد انگریزی میں لکھ رہی ہے۔ یہ کتابیں لندن‘ نیویارک اور سڈنی سے شائع ہو رہی ہیں اور قبولیتِ عامہ حاصل کر رہی ہیں۔ اسلام آباد ادبی میلے میں جہاں انتظار حسین تھے وہاں کاملہ شمسی بھی تھی جسے برطانیہ کا ممتاز ادبی اعزاز ملا ہے۔ مستنصر حسین تارڑ تھے تو منیزہ شمسی بھی تھیں۔ عبداللہ حسین بھی گھوم رہے تھے اور احمد رشید اور حارث خلیق بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ایک سیشن ’’کلام شاعر بزبان شاعر‘‘ کے حوالے سے تھا جس میں امجد اسلام امجد اور اس فقیر سے شاعری سنی گئی‘ سننے والوں نے سوالات کیے اور ہم نے جواب دیے۔ یہ بھی نئی ریت تھی۔ لکھنے والوں اور پڑھنے والوں کے درمیان مکالمہ ادب کا اہم حصّہ ہے لیکن ہمارے ہاں اس کا رواج کم ہی ہے۔ مشاعرہ بھی ہوا اور مشاعرے کی خاص بات یہ تھی کہ مشاعرہ ان شعرا سے بچا کر کیا گیا تھا جنہیں الیکٹرانک میڈیا کے ادبی لال بجھکڑوں نے مسلط کر رکھا ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ مشاعرہ جو ہماری تہذیب کا شائستہ نشان تھا‘ غیر معیاری مزاحیہ شاعری کی نذر ہو گیا اور عامیانہ انٹرٹینمنٹ کا حصہ بن گیا۔ ادبی میلے میں حصہ لینے والے شعرا وہ تھے جو شاعری کمال کی کر رہے ہیں لیکن پبلسٹی سے بے نیاز‘ گوشہ گیر ہو کر اپنا کام کیے جا رہے ہیں۔ سننے والے بھی عام مشاعروں کے سامعین سے مختلف تھے۔ سب سنجیدہ ادب کے قاری اور سامع تھے۔ ہال بھرا ہوا تھا۔ ہنگامہ تھا نہ ہوٹنگ۔ یوں لگتا تھا نظمیں اور غزلیں سٹیج سے اتر کر سننے والوں سے ہم آغوش ہو رہی ہیں۔ غضنفر ہاشمی نے نظامت مختلف پیرائے میں کی اور خوب کی! میلے میں علاقائی زبانوں کی بھی پذیرائی تھی۔ پشتو شاعری پر الگ سیشن رکھا گیا۔ پاکستانی ادب صرف وہی نہیں جو اردو اور علاقائی زبانوں میں لکھا جا رہا ہے۔ وہ بھی پاکستانی ادب ہی ہے جو پاکستانی ادیب انگریزی میں لکھ رہے ہیں۔ جذباتی نعروں کی بات الگ ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ انگریزی زبان اب صرف انگریزوں کی زبان نہیں رہی۔ انگریزی کی تمام بڑی لغات میں برصغیر کی انگریزی الگ سے نشان زد ہو رہی ہے۔ آصف فرخی نے دو دنیائوں کو باہم ملانے کا جو کام شروع کیا ہے وہ ہمارے ادب کے لیے نیک فال ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved