تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-06-2019

’’نفسیاتی‘‘

چند عشروں کے دوران متعدد الفاظ ہماری روزمرہ گفتگو کا حصہ بن چکے ہیں۔ دہشت گردی‘ انسدادِ دہشت گردی‘ بنیاد پرستی‘ رجعت پسندی‘ انتہا پسندی‘ ماورائے عدالت قتل اور ایسی ہی دوسری بہت سی اصطلاحات ہماری ذہنی ساخت کا جُز بن چکی ہیں اور اس کے نتیجے میں یہ تمام اصطلاحات ہماری روزمرہ گفتگو میں بھی جھلکتی ہیں۔ ذہن پر مرتب ہونے والے دباؤ کے لیے انگریزی میں عمومی اصطلاح stress استعمال کی جاتی ہے۔ یہی کیفیت جب بگڑ کر‘ پختہ ہوکر دل و دماغ پر غیر معمولی اثرات مرتب کرنے لگتی ہے‘ تب depression کہلاتی ہے۔ ''بیانیہ‘‘ اور ''پیج‘‘ کی اصطلاحات بھی تیزی سے قبولِ عام کی سند پاگئی ہیں۔ ''نفسیاتی‘‘ بھی ایک ایسی ہی عوامی اصطلاح ہے۔ 
فی زمانہ ہر اُس شخص کو نفسیاتی کہہ دیا جاتا ہے‘ جو ذرا بھی الجھا ہوا ہو۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ صورتِ حال کی مناسبت سے بالکل درست رویہ اختیار کرنے والے شخصیت کو بھی صرف اس لیے نفسیاتی کہہ دیا جاتا ہے کہ دوسروں کو اپنے رویے کے غلط ہونے کا اندازہ ہو جاتا ہے! جو دوسروں کے لیے الجھن پیدا کرے وہ نفسیاتی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ الجھن غلط رویے سے پیدا ہوتی ہے یا درست رویے سے! جہاں سب کچھ غلط ہو وہاں درست طرزِ فکر و عمل اپنانے والا بھی دوسروں کے لیے الجھن پیدا کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ 
پاکستانی معاشرہ مجموعی طور پر انتہائی پیچیدہ ہے۔ عمومی طرزِ فکر و عمل میں پائی جانے والی پیچیدگیاں اور الجھنیں اتنی زیادہ ہیں کہ گننے بیٹھیے تو حساب بھول جائیے۔ سوال صرف غیر معمولی معاملات کا نہیں‘ معمولات کا بھی ہے۔ لوگ یومیہ بنیاد پر بھی الجھے ہوئے ہیں۔ انتہائی عمومی نوعیت کے معاملات پر بھی متوجہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ جو کچھ روز ہو رہا ہو‘ اُس کا تو انسان اچھی طرح عادی ہو جاتا ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ بالکل سامنے کی بات کو بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی اور سمجھ میں آ بھی جائے ‘تو اُس کے مطابق اپنی طرزِ فکر و عمل کو تبدیل کرنے کا نہیں سوچا جاتا۔ 
عام پاکستانی فکر اور رویے کی سطح پر بے حد الجھا ہوا ہے۔ معاشی اور معاشرتی الجھنوں نے زندگی کے ہر معاملے کو خطرناک حد تک مسخ کردیا ہے۔ جہاں فکری ساخت مسخ ہوچکی ہو ‘وہاں کسی بھی بہتری کی توقع رکھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوا کرتی ہے۔ پاکستان میں بھی بہتری کی امید رکھنے والوں کی تعداد تیزی سے گھٹتی جارہی ہے۔ یہ امر افسوس ناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز نہیں‘ کیونکہ ہر رُو بہ زوال معاشرے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
عام پاکستانی اپنے بیشتر معاملات میں خطرناک‘ بلکہ ہلاکت خیز حد تک الجھا ہوا ہے۔ معمولات تک میں توازن نہیں۔ فکر و عمل کا تضاد اس قدر نمایاں ہے کہ اُسے دور کرنے کا نہ سوچے جانے پر حیرت ہوتی ہے اور ایسے میں اگر کسی کو بہت زیادہ الجھا ہوا پاکر نفسیاتی کہیے تو وہ ہتھے سے اکھڑ جاتا ہے۔ یہ لفظ اب بہت حد تک گالی کے مترادف سمجھا جانے لگا ہے۔ اگر کسی سے کہیے کہ اُس کے فکر و عمل میں واضح تضاد اور خامی پائی جاتی ہے اور یہ کہ اُسے نفسی امور کے کسی ماہر سے رابطہ کرکے اپنی فکری ساخت کو متوازن بنانے پر توجہ دینی چاہیے تو وہ ایسا محسوس کرتا ہے‘ جیسے کسی نے گالی دے دی ہو! جسم میں پائی جانے والی کسی خرابی کی نشاندہی کیجیے تو لوگ سُن بھی لیتے ہیں اور مشورے پر عمل کرنے کا بھی سوچتے ہیں‘ مگر یہ بات کسی سے برداشت نہیں ہو پاتی کہ کوئی اُس کی ذہنی ساخت کو کمزور یا بگڑی ہوئی قرار دے اور معاملات درست کرنے کی طرف متوجہ کرے۔ کسی بھی سطح پر انسان یہ پسند نہیں کرتا کہ اُس کے ذہن کو پیچیدہ یا الجھا ہوا سمجھا جائے۔ فکر میں پائی جانے والی کجی اور عمل کے حوالے سے رہ جانے والی کسر کی طرف توجہ دلائیے تو صبر و تحمل کا پیالا پلک جھپکتے میں لب ریز ہو جاتا ہے اور جذبات کی شدت پر قابو پانے میں برائے نام کامیابی ممکن بنانا بھی جُوئے شیر لانے کے مترادف ہو جاتا ہے۔ 
اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ذہن کا الجھ جانا فی زمانہ فطری امر ہے ‘اس لیے اگر کوئی اپنے ذہن کو الجھا ہوا محسوس کرنے پر متعلقہ امور کے کسی ماہر سے ملاقات اور مشاورت کی ضرورت محسوس کرے تو اس پر ہرگز شرمندہ نہ ہو؛ اگر کوئی ذہنی پیچیدگی کی یا فکری ساخت میں پائی جانے والی خرابیوں کی نشاندہی کرے تو اِس پر بھی سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم ذہن میں پیدا ہونے اور پنپنے والی الجھنوں کے دور میں جی رہے ہیں۔ ہر قدم پر کچھ نہ کچھ ایسا ہو رہا ہے‘ جو ذہن کو مزید الجھاتا ہے۔ دیکھنے‘ سننے‘ کہنے‘ لکھنے اور پڑھنے کی سطح پر اِتنا کچھ ہو رہا ہے کہ ذہن کا زد میں نہ آنا ممکن نہیں۔ ہاں‘ ذہن کو منفی اثرات سے بچانا ایک مستقل نوعیت کا فریضہ ہے ‘جو پوری تندہی سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس معاملے میں تساہل کی گنجائش ہے ‘نہ تغافل کی۔ ذہن کو ہر دم بیدار‘ توانا اور رُو بہ عمل رکھنا ہے تو لازم ہے کہ ماحول میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے منفی یا ڈھکے چُھپے اثرات سے بچنے کی کوشش کی جائے۔ ماحول میں بہت کچھ ایسا ہے ‘جو ہمارا نہیں‘ ہمارے کسی کام کا نہیں‘ جن معاملات سے ہمارا کوئی تعلق نہ بنتا ہو‘ اُن سے بچ رہنا ہی ہمارے مفاد میں ہے‘ جو کچھ ہماری دلچسپی یا مفاد کے مطابق ہے ‘وہی ہمارا ہے۔ اس سے ہٹ کر جو کچھ بھی ہے؛ اگر ہمارے لیے اُس کی اہمیت ہے ‘تو محض برائے نام ‘یعنی ایک خاص حد تک۔ 
عام پاکستانی کا ذہن بہت زیادہ الجھا ہوا ہے‘ تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اُس نے بہت سے معاملات کو خواہ مخواہ ذہنی ساخت کا حصہ بنا رکھا ہے۔ اپنے وجود اور اُس کے تقاضوں کو نظر انداز کرکے وہ دوسروں کے معاملات میں خواہ مخواہ دلچسپی لے رہا ہے‘ الجھ رہا ہے۔ جب ایسا ہوگا تو فکری ساخت بھی متاثر ہوگی اور اس کے نتیجے میں عمل کی تحریک گھٹ جائے گی۔ 
غیر معمولی ذہنی الجھنوں سے دوچار کسی شخص کو یہ حقیقت تسلیم کرنے اور علاج کے لیے آمادہ کرنا ہر دور کے مشکل ترین کاموں میں سے ہے۔ آج کا انسان بھی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ماحول نے اُس کی فکری ساخت کو خطرناک حد تک متاثر کر رکھا ہے اور متعلقہ امور کے ماہرین سے مشاورت ناگزیر ہوچکی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں چند ہی افراد ہیں‘ جو تھوڑی کوشش سے یہ تسلیم کرنے پر رضامند ہوتے ہیں کہ اُن کا ذہن الجھا ہوا ہے اور اُسے سلجھانے کے لیے ماہرین سے ملنا‘ مشاورت کرنا اور اُن کی ہدایات پر عمل کرنا لازم ہے۔ ''نفسیاتی الجھن‘‘ کا سُنتے ہی لوگ بدک جاتے ہیں۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خود کو ذہنی مریض تسلیم کرلے اور علاج پر آمادہ ہوجائے تو لوگ عجیب نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ لوگ ذہنی طور پر بہت الجھے ہوئے ہونے کی صورت میں بھی ''نفسیاتی‘‘ کی ٹیگ لگنے سے ڈرتے ہیں۔ 
معاشرے کی اصلاح کے لیے متحرّک مصنفین کا فرض ہے کہ عوام کو ذہنی الجھنوں کے تسلیم کرنے اور اُن کے دور کرنے کی کوشش کی طرف مائل کریں۔ مستقل بنیاد پر لکھ کر عوام کو یقین دلایا جائے کہ ذہن کا الجھنا عام سی بات ہے‘ کوئی بہت بڑا اور شرمناک مرض نہیں اور یہ کہ ذہنی ساخت کو درست کرنے کے حوالے سے سنجیدہ ہونے میں کوئی قباحت نہیں‘ بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved