بابر اعوان نہیں ‘تو پھر کون بری ہوگا: آصف علی زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''بابر اعوان نہیں تو پھر کون بری ہوگا‘‘ کیونکہ وہ بہت ہوشیار آدمی ہے اور اس کے دستخط ہی کسی دستاویز پر موجود نہیں ہیں؛ حالانکہ میں نے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی تھی اور کہا تھا کہ دستخط کر دو۔ اس ملک میں کبھی کسی کی پوچھ گچھ نہیں ہوئی‘ لیکن اس نے بزدلی کا مظاہرہ کیا اور دستخط نہیں کیے اور اب اس نے دوبارہ سرگرم ہونا شروع کر دیا ہے‘ جبکہ ہم بھولے بھالے آدمی‘ دستخط کرنے سے پہلے سوچتے ہی نہیں کہ دستخط کرنے چاہئیں یا نہیں اور خواہ مخواہ پھنس جانتے ہیں؛ حالانکہ اس ملک میں یہ رواج ہی نہیں تھا کہ معززین کو اس طرح تنگ اور پریشان کیا جائے۔ اس لیے میں نے بلاول سے بھی کہا تھا کہ جعلی اکائونٹس میں چیئر مین بن جائو‘ مرشد بھلی کرے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
انتخابات کا مطالبہ کر سکتے ہیں: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''نئے انتخابات کا مطالبہ کر سکتے ہیں‘‘ اگرچہ حکومت نہیں مانے گی ‘کیونکہ وہ؛ اگر میرے معمولی سے مطالبات نہیں مان سکی تو یہ کیسے مانے گی اور اگر نئے انتخابات ہو بھی جائیں تو میرے منتخب ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اُلٹا مجھے اے پی سی کے چکر میں ڈال دیا گیا ہے‘ جس میں میاں شہباز شریف‘ اختر مینگل‘ جماعت اسلامی اور بلاول ویسے ہی شامل نہیں ہو رہے ؛حالانکہ اس بے سُود مشق کی بجائے‘ اگر شرکاء مل جل کر میرا مسئلہ ہی کسی حد تک حل کر دیں تو پھر بھی کوئی بات تھی کہ اے پی سی کی اس پھوکی صدارت سے مجھے کیا حاصل ہوگا اور یہ لوگ وہاں کھُجانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ جہاں کھُجلی ہو ہی نہیں رہی‘ تاہم امید ہے کہ قراردادوں کی منظوری کے ساتھ ساتھ میری حالت زار کے بارے میں بھی کوئی متفقہ فیصلہ کر لیا جائے کہ اصل معاملہ تو خاکسار کا ہے۔ آپ اگلے روز دنیا نیوز کے پروگرام نقطۂ نظر میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
ملک نہیں چل رہا‘ کاروبار رُکے ہوئے ہیں: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ملک نہیں چل رہا‘ کاروبار رُکے ہوئے ہیں‘‘ جبکہ میں نے خود باہر نکل کے دیکھا ہے کہ ملک بالکل نہیں چل رہا ‘لہٰذا اسے چلانے کا بیڑہ میں نے اُٹھا لیا ہے اور اسے چلا کے چھوڑوں گی ‘جس طرح میں نے والد صاحب کو چلایا ہے اور وہ کبھی جیل میں ہوتے ہیں اور کبھی ہسپتال میں‘ بلکہ وہ تو ملک چھوڑ کر مستقل طور پر چلنا چاہتے تھے‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہیں کوئی خفیہ بریکیں لگی ہوئی ہیں ‘جو وہ چلتے چلتے رک گئے ہیں اور میں تو چچا جان کو بھی چلانا چاہتی تھی‘ لیکن وہ بہت چالاک واقع ہوئے ہیں اور زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد کی طرح گل بنے بیٹھے ہیں اور اپنی جگہ سے ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہے ؛حالانکہ والد صاحب کی روشن مثال ان کے سامنے ہے ‘لیکن اس سے بھی اُن کی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی اور کہتے ہیں کہ جتنا مجھے حکومت نے چلا رکھا ہے‘ وہی کافی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد جاتے ہوئے موٹر وے پر ایک ویڈیو پیغام جاری کر رہی تھیں۔
حکومت بے ہوش اور زمین نیچے سے کھسک رہی ہے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''حکومت بے ہوش اور زمین نیچے سے کھسک رہی ہے‘‘ اور میں نے آج اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ ایک حکومتی رکن جا رہا تھا اور زمین اس کے نیچے سے کھسک رہی تھی‘ جسے میں نے آگے بڑھ کر روکا کہ آخر انسانی ہمدردی بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور اس کے برعکس زمین نے ہمارے پائوں بُری طرح جکڑ رکھے ہیں اور ہلنے جُلنے ہی سے معذور ہیں اور یہ سب اس منحوس احتساب کا کیا دھرا ہے اور ہر تیسرے دن ایک نیا مقدمہ ظہور پذیر ہو جاتا ہے‘ جبکہ حکومت کو چاہیے کہ اس طرح ہمارا خون خشک کرنے کی بجائے ایک بار ہی سارے سانپ نکال لے‘ اُدھر مریم آپا نے ناک میں دم کر رکھا ہے اور والد صاحب کو ایسی چُپ لگی ہے کہ مجھے فکر پڑ گئی ہے کہ وہ کہیں گونگے تو نہیں ہو گئے‘ تاہم اشاروں سے بات کر لیتے ہیں‘ جس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مصلحتاً خاموش ہیں اور موصوفہ سے اچھی طرح نپٹ لیں گے۔ آپ اگلے روز پنجاب اسمبلی میں دنیا نیوز سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب فیصلؔ ہاشمی کے مجموعے ''ماخذ‘‘ میں سے ایک نظم:
میں جو موجود تھا
رات کی بے اِماں وسعتوں میں
کہیں کھو گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔آسمان
جس کو دیکھا گیا تھا کبھی
اب زمیںدوز ہے
اور زمیں‘ نامرادوں کی اک پھیلتی
بے نشاںقبر ہے
رینگتے آنکھ کے منظروں میں
کئی اجنبی شہر ہیں
آج تک جن سے کوئی بھی گزرا نہیں
کیوں کسی کو کسی پر بھروسا نہیں
دُور جاتے ہوئے کارواں کو بُلاتا ہوں میں
ریت پر نقشِ پاکی طرح
مٹتا جاتا ہوں میں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں جو موجود تھا
اب کہیں بھی نہیں
جسم و جاں میرے بس میں نہیں
میں کسی کے تو کیا
اپنی بھی دسترس میں نہیں!
آج کا مطلع
رونق لگی تھی چشم ِ تماشا کے دائیں بائیں
دریا بھی تھے وہاں کئی صحرا کے دائیں بائیں