تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     28-06-2019

موروثی سیاست ایک حقیقت… مگر

گزشتہ صدی اور موجودہ دور میں شخصی حکومتوں، آمریت اورجمہوریت سے متصادم سیاسی نظاموں کو بھی جمہوری رنگ اپنانا پڑا، تاکہ حکومت کا جواز پیش کرسکیں۔ مغربی جمہوریت، جن کی بنیاد عوام کے اقتدارِاعلیٰ اور نمائندہ حکومت کے تصورات ہیں، کو سرمایہ دارانہ نظام قرار دیا گیا۔ کہیں اشتراکیت اور فسطائیت کے نرم تصورات پیش کیے گئے۔ اشتراکیت میں عوامی جمہوریت کا نظریہ غالب رہا۔ اس کی ترویج اور نگہداشت مزدوروں اور کسانوں کی نمائندہ جماعت کے پاس تھی۔ فسطائیت میں قائد کا تصور غالب تھا۔ کہا گیا کہ لوگ صلاحیت کے اعتبار سے برابر نہیں۔ اس نظریے کے مطابق اُن چیدہ اور نابغہ ٔ روزگار رہنمائوں کی قیادت اور غلبے کی ضرورت ہے جو اپنی صلاحیتوں کی بنا پر اس بات کا ادراک رکھتے ہوں کہ اقتصادی اورعسکری قوت کیسے حاصل کرتے ہیں اور عوام اور قوم کو مضبوط اور متحد کیسے رکھتے ہیں۔ عوام اور سیاسی تحریک سے وابستہ افراد کو صرف قائد کی طرف دیکھنا چاہیے ۔ اُن کی بات سنیں، اور من و عن عمل کریں۔ نہ شک کی گنجائش، نہ بحث کی ضرورت۔ ریاست کے لیے لائحہ عمل، اس کی ترجیحات، سب کچھ تحریک اور سیاسی قائد پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عوام اندھی تقلید کرتے ہیں۔
فسطائیت میں شخصی حکومتوں، اور موروثی خاندانی جماعتوں پر قابض سیاسی رہنمائوں کی شخصیت کی کرشماتی تشہیر کی جاتی ہے۔ عوام اور معاشرے جب بحرانوں کا شکار ہوں تو ایسے قائدین کو مسیحا بن کر سیاسی افق پر ابھرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جرمنی، اٹلی اور مشرق ِوسطیٰ و یورپ کے کچھ ممالک میں بہت سے نام نہاد نجات دہندہ پیدا ہوئے۔ وہ فوجی انقلابوں کے بعد نیم پختہ جمہوری حربوں سے جب اقتدار میں آئے تو ریاستی وسائل اور ابلاغ عامہ کے جدید ذرائع قائدکی مرکزی حیثیت کی تعمیر میں استعمال ہوئے۔ مصلح، مخلص، عوام دوست، محبِ وطن، الغرض تاریخی مشاہیر کی تمام خوبیاں قائد کی ذات میں تلاش کی گئیں، اور عوام کو اُنہیں تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اصول، عقل ودانش، ادارے، سب ایک طرف۔ صرف مرکزی قائد کی شخصیت، اندھی تقلید، بلا چون و چرا اطاعت کو سیاسی نظریے کا نام دیا گیا۔
تاریخ دعوتِ فکر دیتی ہے۔ ایسی شخصیت پرستی نے ریاستوں اور قوموں کو کس طرح تباہ کیا۔ بہتر سوچ، عقل اور قوموں کے لیے کامیاب راستہ ایک ہی ہے۔ باہمی مشاورت، نمائندہ حکومت، جمہوری اصول اور روایات، شراکتِ اقتدار اور ادارے۔ فسطائیت کی جوہری اساس اس نظریے پر تھی کہ عوام بے وقوف، کج فہم اور کم عقل ہونے کی وجہ سے عدم تحفظ اور فکرمندی کا شکار رہتے ہیں۔ اُن میں اتنی صلاحیت نہیں کہ اُن سے مشاورت کی جائے یا اُن کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ 
یہ چند معروضات آپ کے سامنے رکھے ہیں کہ ماضی میں دنیا کے دیگر ممالک، خصوصاً اسلامی ممالک، بشمول وطن عزیز میں فسطائیت کو جمہوریت کا لبادہ پہنا کر پیش کیا گیا۔ کمزور معاشروں میں، جہاں عوام کو تعلیم کے زیور سے محروم رکھا جاتا ہے، سیاسی دھوکہ دہی ایک ہنر اختیار کرجاتی ہے۔ ہماری تاریخ بہت کچھ کہتی ہے۔ سب کردار آپ کے سامنے ہیں۔ ذرا انصاف سے کام لیتے ہوئے سوچیں تو اس سوال کا جواب مل جائے گا کہ کیا جمہوریت موروثی بھی ہوسکتی ہے؟ یہ سادہ سا سوال ہمارے پیچیدہ مسائل کی پرکھ کی کسوٹی ہے۔ یہ سوال بہت سے ذہنوں میں ہے، لیکن کون گستاخ اسے اٹھائے۔ لیکن چلیں یہ گستاخی ہم کر لیتے ہیں۔ 
ہم نے شخصیات، مسائل اور حالات کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنا سیکھا ہے۔ سیاسی حقیقتیں تخلیق کی جاتی ہیں، چاہے اُن کا معروضی وجود ہو یا نہ ہو۔ رہنمائوں کے کردار کی ملمع کاری کی جاتی ہے۔ اُن سے پر کشش صفات منسوب کی جاتی ہے۔ اس پر کروڑوں کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں ایسا ہی ہے۔ مغربی دنیا میں تو پیشہ ور کردار سازوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ پر درست ، لیکن موروثیت کہیں نہیں۔ نصف صدی سے سیاسیات کی تعلیم سے وابستگی ہے۔ حتمی علم کا دعویٰ نہیں، اور نہ ہی ممکن ہے لیکن کچھ باتوں سے آگاہی ضرورہے۔ ایک جملے میں کل سیاسی دانائی کا نچوڑ پیش کرنا چاہوں تو ایک بار پھر دہرا دیتا ہوں... جمہوریت موروثی نہیں ہوسکتی۔ یہ بات ہم پاکستانیوں کو جتنا جلد سمجھ میں آ جاتی اتنا ہی اچھا ہوتا۔ لیکن چلیں دیر آید، درست آید۔ 
جمہوریت عوامی تائید، نہ کہ اطاعت، کی محتاج ہے۔ کسی جماعت میں کون کیا کردار ادا کرے گا، اس کا فیصلہ جمہوری انداز میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت کسی حد تک ضرور ہے، اور جیسی بھی ہے، موجود رہنی چاہیے۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ بے اصولی اور روح سے خالی جمہوریت صرف شخصی حکومتوں کو ہی جنم دیتی ہے۔ قائد عام طور پر بانی خاندان کی شخصیت ہوتی ہے، اور اُسے تاحیات رہنما مان لیا جاتا ہے۔ سب جانتے ہیںکہ مسلم لیگ نون کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نواز شریف جب تک زندہ ہیں (اللہ اُن کی عمر دراز کرے اور بیماریوں سے شفا دے) وہ لیگ کے قائد رہیں گے۔ اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ وہ بدعنوانی کی پاداش میں جیل میں ہیں۔ دیگر لیگی رہنما اس سزا کو 'انتقامی سیاست‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ 
میاں صاحب کا سیاسی وارث کون ہوگا ( یا ہوں گے)؟ لیگ نے فی الحال شہباز شریف کو صدر، اور دیگر سولہ رہنمائوں کو نائب صدر بنا دیا۔ نائب صدور کی اتنی بڑی تعداد نہ کسی نے دیکھی تھی نہ سنی۔ اس کا مقصد ایک ہی تھا۔ مریم نواز صاحبہ کو نائب صدر بنایا جائے۔
آگے چلتے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے میثاقِ معیشت کی بات کرکے تحریک ِانصاف کے ساتھ مذاکرات اور افہام و تفہیم کا راستہ کھولنا چاہا ۔ اصولی طور پر اُن کا موقف درست ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل جل کر گمبھیر اقتصادی مشکلات کا حل تلاش کریں‘ لیکن چند دن بعد مریم نواز نے پریس کانفرنس کر ڈالی۔ محتاط الفاظ مگر حسبِ معمول تیکھے انداز میں کہا کہ مسلم لیگ کے موقف کا تعین نواز شریف ہی کرتے ہیں، اور وہی کریں گے۔ باقی جو ہم کہتے ہیں وہ ذاتی رائے ہے۔ بہت خوب! کیا جمہوری انداز ہے!
پاکستان کی جمہوریت کمزور ہے، یا اس میں بہت سی خامیاں ہیں، تو اس کی بنیادی وجہ قائدین کا جماعتوں پر غلبہ ہے۔ اگر مسلم لیگ میں فیصلے مشاورت سے ہوتے تو یہ تین مرتبہ اقتدار سے محروم نہ ہوتی۔ اکثریت کی رائے سے بہتر فیصلے تک پہنچا جاسکتا ہے۔ سیاست میں نمبرداری نہیں ہوتی۔ یہاں عملیت پسندی، دانش اور حکمت کا راستہ باہمی تدبر اور مشاورت سے نکلتا ہے۔ لیکن درباری ذہنیت مشاورت کی اہل نہیں ہوتی۔ مشورے ہوتے ہیں، لیکن ایک مخصوص اور انتہائی محدود حلقے سے۔ زیادہ باصلاحیت سیاسی کارکنوں کا تعلق متوسط اورتعلیم یافتہ خاندانوں سے ہوتا ہے۔ اُنہیں تو قائدین قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے۔ 
بھٹو اور شریف خاندانوں کی نوجوان نسل، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز اپنی اپنی سیاسی وراثت سنبھال چکے۔ بلاول صاحب بلا مقابلہ... شہید محترمہ کی کسی ''وصیت‘‘ کے مطابق۔ اب کوئی کچھ بھی کہے، تمام ذمہ داری اُنہی کے کندھوں پر ہے۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج بتاتے ہیں کہ اُن کی جماعت قومی حمایت اور عوامی اعتماد کھو چکی ہے۔ بدلتے ہوئے پاکستان میں گدی نشینی کافی نہیں۔ نوجوان قیادت کے کندھوں پر ماضی کا بوجھ ہے۔ وہ اس بوجھ کو ''یہ سب انتقامی کارروائیاں ہیں‘‘ کہہ کر نہیں اتار سکتے۔ 
موروثی سیاست کی گرتی ہوئی دیواریں اگر کچھ دیر سنبھل جائیں تو بھی دیرپا نہیں ہوں گی۔ شریف خاندان کو ابھی سیاسی وارث کا فیصلہ کرنا ہے۔ کیا لیگ دو یا زیادہ شاخوں میں تقسیم ہو جائے گی؟ پریس کانفرنس، اور اس سے پہلے جو اشارے ملے ہیں، ان سے پتہ چلتا ہے کہ نواز شریف نے اپنی صاحبزادی کو ہی اپنا جانشین بنایا ہے۔ شہباز شریف اُسی تنخواہ پر کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اپنی عملیت پسندی اور کارکردگی کے دعووں کے باوجود اُن کا قد کاٹھ ایک خاص حلقے تک محدود ہے۔ نئی پیش رفت کے طور پر نئے سیاسی جانشین موجودہ حکومت کے خلاف جارحانہ انداز اپنا کر جب میدان میں اتریں گے تو اُنہیں احسا س ہو گا کہ اس کے لیے وسیع تر سیاسی اتحاد کی ضرورت ہے۔ اُنہیں یہ بھی پتہ چلے گا کہ اسی مرحلے پر سیاسی جماعتوں میں شکست و ریخت کا عمل شروع ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved