زندگی تجربات کا تسلسل ہے۔ اچھے اور کم اچھے وقت‘ سانپ اور سیڑھی کا کھیل جاری رکھتے ہیں۔
بقولِ شاعِر
زندگی کا سفر ہے یہ کیسا سفر
کوئی سمجھا نہیں کوئی جانا نہیں
ہے یہ کیسی ڈگر چلتے ہیں سب مگر
کوئی سمجھا نہیں کوئی جانا نہیں
اسی لیے سیانے کہتے ہیں، آرزوئیں جمع کرو حسرتیں نہیں۔
وفاقی وزارت سے دوسری بار استعفیٰ دینے کا تجربہ حیرتوں کا جہان ثابت ہوا۔ ہر نئے سورج کے ساتھ طلوع ہونے والے دن کی طرح ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی ذات کے ''علیٰ کُلِّ شئیِِ قدیر‘‘ ہونے پر ایمان اور ایقان‘ دونوں پختہ ہوتے رہے۔ ایسے تجربات کم از کم میرے لیے سمجھنے اور سیکھنے کے نئے در کھولتے ہیں۔
مثلاً میں کیا کیا غلطیاں کرتا ہوں، حسنِ سلوک اور خیر خواہی میں کہاں کمی رہ گئی۔ منگتے غلام نے سب سے بڑے دربار سے کم کیوں مانگا۔ دعائیں کیسے قبول ہوتی ہیں۔
نا معلوم افراد کی صورت میں نئے دوست بھی‘ اور دوسری کیٹگری میں بظاہر دوست۔ اس پہ شعر سنانے سے پہلے اپنا نظریۂ دوستی پبلک کرنے میں حرج نہیں سمجھتا۔ اور وہ یہ کہ زندگی کی مثال میراتھن دوڑ سے لی جا سکتی ہے۔ جس میں شہر بھر کے ہزاروں لوگ شریک ہو جاتے ہیں۔ کوئی 10 قدم تک دوڑ سکتا ہے ۔ کوئی فرلانگ کوئی میلوں اور تھوڑ ے سے آخری ہدف یعنی Finish line تک دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ سارے لوگ شریکِ سفر ہی تو تھے۔ میرے ساتھ جو ایک قدم بھی چل گیا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سر کا صاحب ٹھہرا۔
اس کا ایک پہلو اور بھی ہے! صاحبِ نظر ہونے کا۔ بصیرت والی بصارت استعمال کرنے کے کئی فائدے ہیں۔ آج صبح واٹس ایپ پر ملنے والا ایک پیغام سب سے مختلف اور بصیر ت سے پُر ملا۔ یہ واٹس ایپ میسج میرے پُرانے ساتھی وکیل اور لاہور ہائی کورٹ سے تازہ تازہ ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس انوارالحق صاحب کی طرف سے تھا۔ مبارک باد کی شکل میں۔ اس کا ایک حصہ انہی کے لفظوں میں پڑھ لیجئے ''میں اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں کہ اس بیمار نظام میں بے گُناہی ثابت کرنا کس قدر مشکل ہے‘‘۔ اس کے جواب میں انوار صاحب کو شکریے کے بعد یہ شعر بھیجا
یہ عشق نہیں آساں، بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
اس پہ مبارک باد دہندہ کی حسِ ظرافت پھڑَک اُ ٹھی اور اس نے کہا: اس شعر کے دوسر ے مصرعے کے جواب میں دوسرا ورشن زیادہ بہتر ہے! مصر ع یہ تھا:
''فینائل کی گولی ہے اور چوس کر کھانا ہے‘‘
ملک کے سب سے بڑ ے صو بے کے سب سے اعلیٰ جوڈیشل عہدے سے تازہ ریٹائرڈ ہونے والے انوار صاحب نے انگلش میسج میں (J.) لکھا اور ساتھ اس J. کی شانِ نزول کی وضاحت بڑے دل نشیں انداز میں کر دی اور کہا: یہ J. جسٹس والا J. نہیں بلکہ جہلم والا J. ہے۔ یاد رہے کہ موصوف جہلم کے پکے پوٹھوہاریے ہیں۔
ایک مرتبہ برادرم حسن نثار صاحب نے کمال کرم فر مائی سے میرے بارے میں اپنے ایک کالم میں کہا کہ عجیب آدمی ہے، وزیر بن جائے تو دوستوں کے پیچھے بیلی پور پہنچ جاتا ہے مشکل میں ہو تو فون ہی نہیں اٹھاتا۔ حسن نثار صاحب جیسے آئیکون کا یہ جملہ اس لیے شیئر کیا کہ اس دنیا کے نظامِ زندگی کو ہمیشہ Inclusive سمجھنا چاہیے۔ اس میں سب کا اپنا اپنا رول ہے۔ علیحدہ، علیحدہ استطاعت ، اس لیے بنیادی بات یہ ہے کہ ہم اپنا رول کیسے ادا کر رہے ہیں۔ ہم میں سے نہ تو کوئی Indispensable اور نہ کوئی Exclusive۔ وہ صرف ایک ہے جو ہمارے جیسوں کا آسرا بھی ہے اور مالک و رازق بھی ہے۔ مرحوم و مغفور مظفر وارثی صاحب نے اس کی یکتائی کو الفاظ کے ان موتیوں میں پرویا
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے
وہی خدا ہے
دکھائی بھی جو نہ دے، نظر بھی جو آ رہا ہے
وہی خدا ہے
تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں
وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں
جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے
وہی خدا ہے
شبِ گزشتہ سرکاری طور پر معتبر لوگو ں کی نشست میں تھا۔ جہاں مبارک بادوں کے بعد بحث پارلیمنٹ کی طرف چلی گئی۔ اس سوال کے ساتھ، کیا فریڈم آف پریس اور اظہارِ رائے کی آزادی لا محدود ہے؟ اسے بہت سے سوالوں کا مرکب سمجھ لیجئے۔ عرض کیا: 1973 کے آ ئین کو فر یم کرنے والے آسمانوں پہ پریشان ہوں گے۔ جِن اسمبلیوں کو صوبوں اور وفاق کی نمائندگی کے لیے چُنا گیا۔ چُنائو کے عمل پر اربوں، کھربوں خرچ ہوتے رہے ۔ ایسے ایسے ایوان جو کوئین آ ف انگلینڈ کے محل سے بھی عالیشان ہیں ۔ مچان جیسی اونچی کُرسیاں‘ کِنگ ہنری بھی شاید ہی ایسی کرسی پہ بیٹھا ہو ۔ مگر کوالٹی آف کونٹینٹ یا ڈِیبیٹ دیکھیں تو لگے گا یہ اسمبلیاں نہیں الحمرا نمبر 2 ہے‘ جہاں سکرپٹ کے بغیر کچھ ماہر جُگت باز ذو معنی جُگتیں سُناتے ہیں۔ جو جتنا بڑا جُگت باز وہ اُتنا ہی ٹی وی سکرینوں کا پیارا۔ نہ قوم ، نہ ملک ، نہ سلطنت، نہ عوام ، نہ ایجنڈا، نہ سوچ اور نہ کسی رول آف بزنس اینڈ پروسیجر کی پروا ۔
2019 کے تجربات میں سے کچھ کا تعلق تیسری آنکھ سے بھی ہے۔ میری والدہ محترمہ زیب النساء صاحبہ عمر کے 96ویں سال میں ہیں۔ میرے لیے اس سال کے ڈی ڈے سے 24 گھنٹے پہلے وہ دعا دی جو اُن کی روٹین میں شامل نہیں تھی۔ فرمایا: تم اللہ کے حوالے ہو‘ زندگی میں سب سے اونچی چیز عزت ہے۔ اور پھر کچھ اور ہدایات بھی دیں۔ میں نے یہ بات گھر والوں سے شیئر کی اور ایک درویش دوست کے ساتھ بھی جو ایک بھر پور دنیا داری میں بھی ہیں۔ سب سے شاندار تجربہ جمعرات کے روز ہوا جب میں نے 100 کے قریب پھولوں کے گلدستے اور ٹوکریاں جو میرے لاء آفس آئے تھے اکٹھے کر کے پمز ہسپتال کے چلڈرن وارڈ میں بھجوا دیے۔ بچے سارے فرشتے ہوتے ہیں۔ کاش میں ان کے فرشتہ وار ری ایکشن پر مبنی تصویریں وکالت نامے میں آپ کو دکھا سکتا۔ کچھ بچوں کی شارٹ ویڈیوز بھی ہیں‘ جو جلد اپنی سوشل میڈیا سائیڈ پر شیئر کرنے کی کوشش کروں گا۔
شہرِ اقتدار کے گھاگھ بیوروکریٹ نے مبارکباد کے پیغام کے ساتھ مجھے یہ شعر بھی لکھ بھیجا:
یہ شہرِ طلسمات ہے کچھ کہہ نہیں سکتے
پہلو میں کھڑا شخص فرشتہ ہے کہ ابلیس
شبِ گزشتہ سرکاری طور پر معتبر لوگو ں کی نشست میں تھا۔ جہاں مبارک بادوں کے بعد بحث پارلیمنٹ کی طرف چلی گئی۔ اس سوال کے ساتھ، کیا فریڈم آف پریس اور اظہارِ رائے کی آزادی لا محدود ہے؟ اسے بہت سے سوالوں کا مرکب سمجھ لیجئے۔