تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     28-06-2019

سرخیاں ‘متن اور اقتدار جاوید کی نظم

حکومت لانے والوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت لانے والوں کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی‘‘ اور ‘اگر لانے والے ہمیں لے آتے تو ہم اُن کی توقعات پر حرف بہ حرف پورا اترتے ‘جیسے کہ ہم جنرل ضیاء الحق کی کابینہ شامل ہوئے تھے اور ان کی توقعات پر سو فیصد پورا اترے تھے‘ اگر یقین نہ آئے تو جنرل صاحب کے فرزندِ معنوی میاں نواز شریف سے پوچھ لیں‘ جس نے میاں صاحب کو اپنی باقی عمر بھی لگنے کی دعا دی تھی اور وہ اب تک اسی دعا سے کام چلا رہے ہیں ‘جو اسی شکر گزاری میں ان کی قبر پر جا کر آٹھ آٹھ آنسو رویا کرتے تھے۔ بس‘ لانے والے ایک بارہمیں الیکشن جتوا دیں‘ تو پھرہم خود آجائیں گے ‘کیونکہ جب ہم اپنی آئی پر آ جائیں تو ہمارے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہرتی اور اس کے بعد ہمیں اپنی توقعات کی فہرست بھی دے دیں اور بے فکر ہو جائیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
میں خود چیئر مین سینیٹ بنوں گا: آصف علی زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''میں خود چیئر مین سینیٹ بنوں گا‘‘ اور اگر چیئر مین نہیں تو مجھے شریک چیئر مین تو بنایا جا ہی سکتا ہے‘ جس کا مجھے کافی تجربہ بھی حاصل ہو چکا ہے اور جس طرح بلاول کی بجائے پارٹی کو میں خود چلا رہا ہوں‘ اسی طرح سینیٹ کو بھی چلا کر دکھا دوں گا کہ حکومت کے ساتھ میرے معاملات طے ہونے ہی والے ہیں ‘کیونکہ میں نے اپنی تجوری کا منہ کھول دیا ہے‘ تا کہ اس کے مطالبات پورے کر سکوں‘ اسی لیے میں نے اپنی ضمانت کی درخواستیں بھی واپس لے لی ہیں ‘تا کہ کسی کے دل میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے اور ایسا کام ڈالوں گا کہ شریف برادران دیکھتے کے دیکھتے ہی رہ جائیں گے؛ اگرچہ سینیٹ کی چیئر مینی اس ڈیل کا حصہ نہیں ہے‘ تاہم رفتہ رفتہ سارے راستے کھلتے چلے جائیں گے اور جلنے والے جلتے رہ جائیں گے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔
اپوزیشن جماعتیں ساتھ دیں تو کل ہی اسلام آباد 
کا لاک ڈائون کر دوں گا:مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن جماعتیں ساتھ دیں تو کل ہی اسلام آباد کا لاک ڈائون کر دوں گا‘‘ جو تحریک کا معاملہ گول ہی کر گئی ہیں‘ جس کے لیے میں اور مدارس کے‘ طلبہ پوری طرح تیار تھے‘ لیکن اے پی سی میں آ کر جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں اور مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا ‘جن کیلئے بددعائوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے کہ میرے ساتھ اس سے بڑا فراڈ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ تحریک چلانے کی بجائے چند ہومیو پیتھک قسم کی قراردادیں پاس کر کے یہ جا‘ وہ جا‘ جی چاہتا ہے کہ کسی طرف منہ کر جائوں‘ دراصل یہ جماعتیں طلبہ کا خرچہ برداشت کرنے کو تیار نہیں تھیں؛ حالانکہ پیٹ ان کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے‘ لیکن جنہیں میرا پیٹ نظر نہیں آیا‘ وہ طلبہ کے پیٹ کا خیال کیونکر کرتیں ‘دراصل اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماسراسر مفت میں اسلام آباد کا لاک ڈائون چاہتے تھے۔ آپ اگلے روز کانفرنس کے بعد میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
اپوزیشن نے آواز نہ اٹھائی تو عوام نکل پڑیں گے: حمزہ شہباز
پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن نے آواز نہ اٹھائی تو عوام نکل پڑیں گے‘‘ اور ہم اسی لیے آواز اٹھانے کی زحمت نہیں کر رہے ‘تا کہ عوام نکل پڑیں‘ کیونکہ ہمارے کہنے پر تو انہوں نے کیا تکلف کرنا تھا‘ جبکہ والد صاحب کا بیانیہ بھی یہی ہے کہ عوام کو باہر نکالنے کی بجائے میثاق معیشت کی داغ بیل ڈالی جائے‘ اسی لیے ان کا کہنا ہے کہ اے پی سی میں شرکت کا مقصد عوام کو معیشت کے بحران سے نکالنا ہے‘ جس سے مریم باجی کی مایوسی سمجھ میں آتی ہے‘ کیونکہ وہ تو اُن کی خاموشی کو نیم رضا سمجھ بیٹھی تھیں کہ چچا جان آخر ڈھب پر آ گئے ہیں اور عوام کو سڑکوں پر لانے میں ان کا ساتھ دیں گے‘ لیکن اے پی سی میں انہوں نے اور ہی راگ الاپنا شروع کر دیا‘ جس کی شکایت وہ تایا جان سے ضرور لگائیں گی ‘تا کہ وہ ان کی گوشمالی کریں ‘کیونکہ اُن کو تو اپنا سارا پروگرام ہی تلپٹ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اقتدار جاوید کی نظم:
قالین
گڈریے کے سر بانسری میں / ہرن کی لبالب بھری چوکڑی آنکھ میں / اور گردن میں تھے‘ کبوتر کی دُم رہ گئی / پہلے بجری بچھائی گئی / اور پانی کا چھڑکائو کرتے ہوئے / فرش کا سینہ رگڑا آئنے کی طرح فرش کا سینہ چمکا / تو رنگین دھاگوں بھرا ایک قالین اُس پر بچھایا / ایک چھوٹے سے کمرے میں / اتنا بڑا‘ گہرے سایوں بھرا / تھوڑا بے آب / تھوڑا ہرا ایک جنگل بسایا گیا / میں درختوں سے پھل توڑنے کے لیے / اک تنے پر چڑھا / ایک منتر پڑھا / تازہ پھل توڑتا‘ پھل کو میں دانتوں میں توڑتا / نیچے آیا / چمکتی ہوئی ندی سے آبِ سیمیں پیا / یک بیک جسم ڈھیلا پڑا / اور میں خود سے لڑا / میں نے بھالا سنبھالا / سنبھل کر ہر اک آنت کو کھینچ کر / میں نے باہر نکالا / ذرا نرم قالین اپنی جگہ سے ہلا / دیکھتے دیکھتے / نرم قالین کے شیر میں جاں پڑی / شیر نے ایک بھرپور انگڑائی لی / نیند سے تھوڑا جاگا / بھری مستی میں جبڑا کھولا / مرا دل دھڑکنے لگا / شیر آیا‘ دہاڑا / گڈریے کے سُربانسری میں / ہرن کی لبالب بھری چوکڑی آنکھ میں / اور گردن میں لقے کبوتر کی دم رہ گئی!
آج کا مطلع
اب کے اُس بزم میں کچھ اپنا پتا بھی دینا
پاؤں پر پاؤں جو رکھنا تو دبا بھی دینا

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved