تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     28-06-2019

یہ قربتیں کتنی دیرپا

16جون 2019ء کوبلاول بھٹو زرداری‘مریم نواز کی دعوت پر جاتی اُمرا پہنچے تھے ۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان اس ملاقات نے ہی واضح کردیا تھا کہ اپوزیشن کی طرف سے ‘ حکومت کو مزید گرم ہوا دی جائے۔ ملاقات کے دوران جن نکات پر اتفاق رائے ہوا تھا ‘ اُس کا ایک نتیجہ اسلام آباد میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی صورت میں بھی نکلا ہے؛ اگرچہ کانفرنس کے انعقاد میںسب سے زیادہ سرگرم تو مولانا فضل الرحمن رہے‘ لیکن اس کیلئے انہیں دونوں ہی بڑی اپوزیشن جماعتوں کی بھرپورحمایت حاصل رہی ۔ مہنگائی اور ملکی معیشت کو درپیش خطرات‘ جیسے سلگتے ہوئے ملکی مسائل نے بھی اپوزیشن کی مدد کی‘ جس کے باعث اسلام آباد میں ہونے والا اپوزیشن کاشو کافی کامیاب رہا‘ مختلف جماعتوں کی بھرپور شرکت رہی ؛البتہ جماعت اسلامی کانفرنس سے غیرحاضر رہی۔بلوچستان نیشنل پارٹی کی غیرحاضری بھی محسوس کی گئی ۔ ان دونوں جماعتوں کے علاوہ تقریباً تمام ہی قابل ذکر اپوزیشن جماعتوں کی کانفرنس میں موجودگی ‘ یقینا حکومت کیلئے کوئی اچھا اشارہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کانفرنس کے دوران‘ جن نکات پر اتفاق ہوا؛ اگر‘ اُن کو عملی جامہ پہنانے میں کامیابی حاصل کرلی جاتی ہے‘ تو حکومت کیلئے کئی مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔
اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی ان قربتوں کو حکومت کی طرف سے ابو بچاؤ تحریک بھی قرار دیا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومتی موقف میں صداقت بھی ہو‘ لیکن پھر بھی اپوزیشن کا اتنے وسیع پیمانے پر ‘ اتنی جلدی حکومت کے خلاف متحد ہوجانا ‘ حکومت کیلئے نیک شگون ہے‘ نہ جمہوریت کیلئے ۔حکومت کے سوچنے کی بہت سی باتیں ہیں کہ آخر اُس کی طرف سے کیا غلطیاں ہوئیں کہ عوامی سطح پر اُس کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے‘ اسی نے اپوزیشن جماعتوں کو حوصلہ دیا ہے‘ جس کا نتیجہ آل پارٹیز کانفرنس کی صورت میں سامنے آیا ہے؛ اگرچہ کانفرنس میں تمام قابل ذکر جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی‘ لیکن اسے بہرحال ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا ہی شو تھا‘ جو ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے قریب آرہی ہیں۔ اے پی سی میں ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد بھی دونوں جماعتوں کی حمایت سے ہی ممکن ہے ‘جس کا فیصلہ دونوں کی طرف سے حالات کو مد نظر رکھ کر کیا جائے گا۔اب بھی دونوں کیلئے حالات اس قدر ناموافق ہوچکے تھے کہ دونوں کا قریب آنا ناگزیر تھا اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ گاہے بگاہے بوقت ضرورت دونوں بڑی جماعتوں نے ہی ایک دوسری کا ہاتھ تھاما ہے‘ جس کی تاریخ خاصی طویل اور دلچسپ ہے۔
1988ء سے 1999ء تک دونوں جماعتیں چار مرتبہ ایک دوسری کے مدمقابل آئیں۔دونوں کے حصے میں دودوباریاں آئیں‘ جس دوران ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات کا سلسلہ عروج پر رہا۔مسلم لیگ ن برسراقتدار آئی تو بے نظیربھٹونے اس کے خلاف تحریک نجات چلائی ۔ اقتدار پیپلزپارٹی کے ہاتھ لگا تو مسلم لیگ ن نے لانگ مارچ کا ڈول ڈالا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی بھی حکومت اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی‘ تاآنکہ پرویز مشرف میدان میں کود پڑے۔ ملک سے جمہوریت کی بساط لپیٹی اور خود حکمران بن بیٹھے۔ اقتدار سے محرومی کے بعد دونوں ہی جماعتوں کے درمیان قربتیں بڑھنے لگیں ۔ ان قربتوں کی انتہا دونوں جماعتوں کے درمیان 2006ء میں طے پانے والے میثاق جمہوریت کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ معاہدے کے دیگر نکات کے علاوہ سب سے اہم نکتہ یہ قرار پایا کہ دونوں جماعتیں ملک سے ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کیلئے مل کر جدوجہد کریں گی۔غالب گمان یہی رہا کہ دراصل یہ دونوں جماعتوں کی طرف سے اس بات کا اعتراف بھی تھا کہ دونوں ہی اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر حرکت کرتی رہیں۔ دونوں کی طرف سے اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کا حصہ بننے کاکسی حد تک اعتراف بھی سامنے آیا تھا۔معاہدہ تو طے پاگیا ‘لیکن اس کے ساتھ بھی وہی ہوا ‘جو ہونا چاہیے تھا کہ بعد میں دونوں ہی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کے مطابق‘ اس کی خلاف ورزی کرتی رہیں۔گاہے بگاہے دونوں کی طرف سے ہی ایک دوسرے پر میثاق جمہوریت کی خلاف ورزی کے الزامات سامنے آتے رہے۔
گزرتا ہوا وقت 2007ء تک پہنچ گیا ۔ وہی سال جب بے نظیر بھٹو ایک قاتلانہ حملے میں جانبر نہ ہوسکیں اور ملکی سیاست کا رخ ہی تبدیل ہوگیا۔یہ وہی وقت تھا‘ جب وکلا تحریک کے نتیجے میں ڈکٹیٹر پرویز مشرف بھی کمزور پڑ چکے تھے۔اُن کیلئے حالات اس قدر ناموافق ہوچکے تھے کہ بالآخر اُنہوں نے 2008ء کو مستعفی ہونے کا اعلان کردیا‘اسی سال انتخابات منعقد ہوئے اور پیپلزپارٹی برسراقتدار آگئی ۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان محبتیں اتنی زیادہ تھیں کہ دونوں نے مخلوط حکومت قائم کی‘ لیکن ججز بحالی کا وعدہ پورا نہ ہونے پرمسلم لیگ ن نے اقتدار سے علیحدگی اختیار کرلی ‘جس کے بعد ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے پر الزامات کی جنگ شروع ہوگئی۔2013ء کے انتخابات ہوئے تو اقتدار کا ہما مسلم لیگ ن کے سر پر بیٹھ گیا۔ 
مشترکہ مخالف راستے سے ہٹا تو پھر 2008ء سے 2018ء تک دونوں جماعتوں کے درمیان پھر الزامات اور چور چور کی سیاست عروج پر رہی۔ شہباز شریف کی طرف سے زرداری صاحب کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں بھی سامنے آتی رہیں۔ملکی مسائل کیلئے ایک دوسرے کو موردالزام ٹہرایا جاتا رہا ۔متعدد ایشوز پر تلخیاں عروج پر رہیں۔ مقصد یقینا یہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ دوسرے کو چور ثابت کرکے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کی جائے۔ اس تمام عرصے کے دوران شاید ہی کبھی میثاق جمہوریت کا نام سننے میں آیا ہو۔ شاید ملک میں جمہوریت بحال ہوچکی تھی‘ اس لیے اب بھلا میثاق جمہوریت کی کیا ضرورت باقی رہ گئی تھی؟ دونوں ہی جماعتوں کے درمیان ہونے والی ‘اسی کشمکش نے تحریک انصاف کو اقتدار میں آنے میں مدد فراہم کی‘ جس نے 2018ء کے عام انتخابات میں میدان مار لیا ۔ تحریک انصاف ملکی معیشت کی بحالی‘ عوام کے مسائل حل کرنے اور احتساب کے نعرے کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی۔ اپنے تمام سلوگنز میں سے اُس کی ابھی تک سب سے زیادہ توجہ احتساب کی طرف رہی ہے؛اگرچہ فی الحال حاصل وصول تو کچھ نہیں ہوا‘ لیکن بہرحال دونوں ہی بڑی اپوزیشن جماعتوں کے متعدد رہنما متعددکیسز بھگت رہے ہیں ۔ اس تناظر میں ہی ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ شاید احتساب کے اسی عمل کے باعث ہی دونوں جماعتوں کے درمیان قربتوں میں پھر اضافہ ہوا ہے۔دوسری طرف حکومت بھی اپوزیشن کی قربتوں پر یہی بیانیہ اپنائے ہوئے ہے اور عوام کو یقین دلانے کی بھرپورکوشش کی جارہی ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن صرف احتساب کے عمل سے بچنے کیلئے ایک دوسری کا سہارا لے رہی ہیں‘ جبکہ ددونوں جماعتوں کی طرف سے قرار دیا جارہا ہے کہ حکومتی پالیسیوں اور نااہلی کے باعث ملک شدید مشکلات کا شکار ہوگیا ہے ‘جن سے ملک کو بچانے کیلئے مشترکہ جدوجہد وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔
اب‘ اگر ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی‘ جمہوریت بچانے اور عوام کو مشکلات سے نکالنے کے نام پر قریب آئی ہیں تو اس پر یقین کرنا شاید بہت آسان نہ ہو‘ کیونکہ ‘اگر حکومت کو گرانا ہی مقصود ہوتا تو مولانا فضل الرحمن کی پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفے دینے کی تجویز کو پذیرائی ضرور حاصل ہوتی‘ کیونکہ دونوں ہی جماعتوں نے اس تجویز کی مخالفت کی ۔بہرحال حکومت کو کافی مشکلات کا سامنا ہے ‘جس میں اپوزیشن جماعتیں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔قطع نظر اس بات کہ دونوں جماعتوں کی قربتیں کتنی دیر تک برقرار رہتی ہیں یا دوسری جماعتیں ان کا ساتھ کب تک دیتی ہیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved