تو کیا آل پارٹیز کانفرنس کا یہ میلہ بے چارے صادق سنجرانی کا کمبل چرانے کے لیے سجایا گیا تھا؟ صادق سنجرانی کی (سینیٹ کی) چیئرمین شپ گذشتہ 10ماہ میں شاید ایک آدھ بار بھی کسی'' سیاسی مسئلے‘‘ کے طور پر سامنے نہیں آئی تھی۔ یہ تو ان ہی دنوں میں جب مولانا کی آل پارٹیزکانفرنس کے انعقاد کی خبریں آنا شروع ہوئیں اسفند یار ولی کی اے این پی تھی جس نے صادق سنجرانی کی چیئرمین شپ کے خاتمے کو بھی اے پی سی کے ایجنڈے کا حصہ بنانے پر اصرار کیا اور نوبت بہ ایں جا رسیدکہ اے پی سی کے اہم ترین فیصلے کے طور پر میڈیا کی ہیڈلائن بن گیا۔ جمعہ کی دوپہر جب یہ سطور قلم بند کی جا رہی تھیں، فہمیدہ مرزا کی زیر قیادت تحریک انصاف، (الیکشن سے پہلے خاص حکمت عملی کی تحت وجود میں آنے والی) بلوچستان عوامی پارٹی(BAP) اور سندھ کے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس(GDA)کا ایک وفد جناب چیئرمین سے ملاقات میں انہیں بھر پور حمایت کا یقین دلارہا تھا۔ لیکن ظاہر ہے ، یہ محض ان کی دل جوئی کی کوشش تھی۔ وہ اپوزیشن کے لیے ایک کمزور شکار ہیں ، اور غیرمرئی طاقتوں کے بروئے کار آنے کی صورت میں ، کوئی غیر معمولی صورتحال پیدا نہ ہو گئی، تو جی کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ اس وقت سینیٹ کے 103 کے ایوان میں اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کی تعداد 67بنتی ہے(ان میں جماعت اسلامی کے 2ارکان غیر جانبدار بھی رہیں تو اپوزیشن کو 65ارکان کی حمایت حاصل ہے) جبکہ چیئرمین کوہٹانے کے لیے صرف 52ارکان درکارہیں۔
سیاسی ایشوز پر اپوزیشن کے اصولی مؤقف کی بھر پور حمایت کے باوجود، اس معاملے پر میری ہمدردیاں جناب سنجرانی کے ساتھ ہیں، اس میں شک نہیں کہ مارچ 2018میں سینیٹ کے الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ کسی گیم پلان کا حصہ تھا ( اس سے قبل بلوچستان میں وزیر اعلیٰ میر ثناء اللہ زہری (مسلم لیگ ن) کی حکومت کا خاتمہ بھی اسی کھیل کا ایک مرحلہ تھا )۔
مارچ 2018کے اس الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ''دلچسپ‘‘معاملہ ہوا۔اس کے امیدواروں کے ٹکٹ اور کاغذاتِ نامزدگی، میاں محمد نواز شریف کے دستخطوں کے ساتھ داخل کرائے گئے تھے۔ 28جولائی 2017کے نا اہلی کے عدالتی فیصلے کے ساتھ نواز شریف اپنی جماعت کی صدارت کے لیے بھی نا اہل قرار پائے تھے۔ مسلم لیگ (ن) نے پارلیمنٹ سے الیکشن ایکٹ 2017منظور کرا لیا اور نواز شریف دوبارہ اپنی جماعت کے صدر بن گئے۔ سینیٹ کے لیے ٹکٹوں کا اجراء اور کاغذات نامزدگی داخل کرنے کا معاملہ بھی اسی دور میں ہوا ،جن پر مسلم لیگ (ن) کے صدر کے طور پر نواز شریف کے دستخط تھے۔ سپریم کورٹ نے اس قانون کوخلاف آئین دیتے ہوئے، نواز شریف کی صدارت اور اس دوران کئے گئے ان کے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ راجہ ظفر الحق نے مسلم لیگ امیدواروں کے نئے کاغذات کے ساتھ الیکشن کمیشن کا دروازہ کھٹکھٹایا، لیکن الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ کاغذاتِ نامزدگی داخل کرانے کا وقت گزر چکا ۔ مسلم لیگی اس لحاظ سے خوش قسمت نکلے کہ الیکشن کمیشن نے نواز شریف کے دستخطوں والے کاغذات کو مسترد کرکے انہیں الیکشن کے لیے نااہل قرار دینے کی بجائے ، آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔مسلم لیگ (ن)کے حمایت یافتہ ''آزاد‘‘ امیدواروں نے 52میں سے 15، پیپلز پارٹی نے 12 اور تحریک انصاف نے 6نشستیں جیت لیں۔ ان میں پنجاب سے چودھری محمد سرور(موجودہ گورنر)کی نشست بھی تھی۔ جنرل نشست پر انہوں نے پہلی ترجیح کے 44اور دوسری ترجیح کے 2ووٹ حاصل کر لئے تھے حالانکہ تحریک انصاف اور قاف لیگ الائنس کے پنجاب میں صرف 38ووٹ تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ چودھری صاحب کے یہ اضافی ووٹ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی والوں کے تھے۔
103کے ایوان میں مسلم لیگ اب اپنے 32ارکان کے ساتھ پہلی اور پیپلز پارٹی 20ارکان کے ساتھ دوسری بڑی جماعت تھی۔ لیکن تب پیپلز پارٹی کا کھیل اور تھا۔ زرداری صاحب جنرل راحیل شریف کے دور میں ''اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ اور'' تم تین سال کے لیے ہو، ہمیں (بطور سیاستدان) ہمیشہ رہنا ہے‘‘ کا نعرہ لگا کر بیرون ملک چلے گئے تھے۔ واپسی کے لیے انہیں مناسب موقع کا انتظار تھا۔ اور ان کے خیال میں نواز شریف کی معزولی کے بعد پیدا ہونے والے نئے سیاسی حالات میں وہ مناسب موقع آگیا تھا۔ کہا جاتا ہے، اس کے لیے کچھ''وعدے وعید ‘‘بھی ہوئے۔ اور زرداری صاحب واپس آگئے۔ ثناء اللہ زہری کی حکومت کے خاتمے میںبساط بھر کردار ادا کرنے کے بعد، اب سینیٹ الیکشن میں بھی وہ نواز شریف کے خلاف ہر اول دستے میں شامل تھے اور نواز شریف کو پاکستان کا سب سے بڑا نا سور قرار دے رہے تھے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی ہی کے رضا ربانی کو سینیٹ کے نئے چیئرمین کے طور پر مشترکہ امیدوار بنانے کی( نواز شریف کی) تجویز بھی مسترد کر دی۔ تب پردئہ غیب سے صادق سنجرانی شہ سوار کے طور پر نمودار ہوئے۔ ضلع چاغی سے تعلق رکھنے والے چالیس سالہ صادق سنجرانی اس سے قبل کبھی کسی نمائندہ منصب پر نہیں رہے تھے اور پہلی بار آزاد امیدوار کے طور پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے تھے اور تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوارکے طور پر 57ووٹوں کے ساتھ چیئرمین بھی منتخب ہو گئے۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن ) کے راجہ ظفر الحق 46ووٹ حاصل کر سکے۔ مسلم لیگ (ن ) کم از کم 53ووٹوں کی توقع کر رہی تھی۔بلاول نے نعرہ مستانہ لگایا ، ہم نے ضیا ء الحق کے اوپننگ بیٹسمین کو شکست دے دی۔ ڈپٹی چیئرمین کی نشست پر ''مردِ مفاہمت‘‘ کے ہمدمِ دیرینہ سلیم مانڈ وی والا پی پی پی اور پی ٹی آئی کے مشترکہ امیدوار تھے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے حمایت یافتہ(پختونخوا ملی عوامی پارٹی) کے عثمان کاکڑ کے 44ووٹوں کے مقابلے میں 54ووٹوں کے ساتھ ڈپٹی چیئرمین منتخب ہوگئے۔ ان ہی دنوں جماعت اسلامی کے جناب سراج الحق کا بیان بھی سیاسی و صحافتی حلقوں میں دلچسپی کا باعث بنا۔ ان کے بقول، پرویز خٹک (تب وزیر اعلیٰ کے پی کے) نے انہیں صادق سنجرانی کو ووٹ دینے کے لیے کہاتو سراج الحق صاحب نے وجہ پوچھی۔ پرویز خٹک کا جواب تھا کہ یہ اوپر والوں نے کہا ہے۔ پرویز خٹک کی وضاحت کے مطابق ''اوپر والوں‘‘ سے ان کی مراد پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان تھے۔
25 جولائی کے عام انتخابات کے بعد چیئرمین سینیٹ کو ایوان میں مختلف ماحول کا سامنا تھا۔ اب پیپلز پارٹی بھی اپوزیشن میں تھی اور بر سر اقتدار تحریک انصاف اور اس کے اتحادی اقلیت میں تھے۔ چنانچہ وہ واقعی چیئرمین کے طور پر Behaveکرنے لگے۔ ایک موقع پر تو فواد چودھری (تب وزیر اطلاعات و نشریات) کو ایوان سے نکالتے ہوئے، پورے سیشن کے لیے ان کے داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ ''اپوزیشن‘‘ اپنی اکثریت کے ساتھ، سینیٹ میں غالب حیثیت کی حامل ہے۔ گذشتہ دنوں اس نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی مخالفت میں قرار داد بھی منظور کر ا لی۔ صادق سنجرانی کو چیئرمین شپ سے ہٹانے کا فیصلہ ہمارے خیال میں اے پی سی کی طرف سے اپنے کارکنوں (اوراپنے ووٹرز) کو ایک طرح کے Sense of Achievementدلانے کا نفسیاتی حر بہ ہے۔
اے پی سی نے کیا کھویا، کیا پایا؟پر بحث جاری رہے گی۔ کسی کو ''کھودا پہاڑ‘‘ والا طنز سوجھا ، کسی کو حیدر علی آتش یاد آئے :
بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرئہ خوں نہ نکلا
لیکن نواب زادہ مرحوم کے بقول اپوزیشن کی کوئی بھی چھوٹی بڑی سر گرمی رائیگاں نہیں جاتی۔ یہ حکومت کے اعصاب پر اور بحیثیت مجموعی سیاسی ماحول پر اثرات ضرور مرتب کرتی ہے۔