تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-06-2019

سرخیاں، متن، ماہتاب ہتھیلی پر اور فرمائشی غزل

حکومت کو ہٹانے کیلئے تیار ہیں: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''حکومت کو ہٹانے اور نئے انتخابات کے لئے تیار ہیں‘‘ اس میں صرف ہماری تیاری کی کمی تھی جو اب دور ہو گئی ہے۔ اگرچہ میری گرفتاری کی بھی تیاری ہو چکی ہے اور کاغذات دستخط کیلئے ٹیبل پر پڑے ہیں اور میری گرفتاری سے ہی حکومت کے ہٹنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، البتہ انتخابات کی تیاری مشکوک ہو گئی ہے کیونکہ ہمارے جملہ معززین یا تو نااہل قرار پا چکے ہیں یا ہونے والے ہیں اور اگر حکومت گر بھی جائے تو نااہلی کا معاملہ جوں کا توں ہی رہے گا کیونکہ یہ فیصلہ عدالت کا ہے، حکومت کا نہیں۔ افہام و تفہیم ہی واحد راستہ ہے ، تاہم عوام کو ہماری نیکیاں اچھی طرح سے یاد ہیں اس لئے انتخابات ہو گئے تو بھی معاملہ مشکوک ہی رہے گا۔ آپ اگلے ایک ٹی وی پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
حکومت گرائیں گے، جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں ہوگا: زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت گرائیں گے، جمہوریت کو کوئی نقصان نہیں ہوگا‘‘ جب کہ جمہوریت کو نقصان صرف اپوزیشن کے احتساب سے پہنچتا ہے اس لئے جمہوریت کے لئے فکرمند ہونے کی کسی کو ضرورت نہیں ہے اور یہ بھی جمہوریت کو بچانے کے لئے ہی حکومت کے ساتھ افہام و تفہیم کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو جمہوریت کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے اور دوسری طرف میں نے اپنی ضمانت کی درخواستیں بھی واپس لے لی ہیں کیونکہ ایک تو جیل میں میاں صاحب کے ساتھ مل کر حکومت کو گرائیں گے اور دوسرے جیل میں میری صحت بھی بہت بہتر رہتی ہے جیسا کہ میاں صاحب کی صحت جیل جانے سے کافی بہتر ہو گئی ہے اور وہ اپنی پسند کے سارے کھانے گھر سے منگوا کر کھا رہے ہیں اور جو چھوٹا سا اکھاڑہ بنوا رکھا ہے اس میں روزانہ زور بھی کرتے ہیں۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ذاتی معالج کو ملنے نہ دینے پر خاموش تماشائی نہیں بنوں گی: مریم نواز
مستقل نااہل اور سزایافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ذاتی معالج کو ملنے نہ دینے پر خاموش تماشائی نہیں بنوں گی‘‘ اور یہ سارا معاملہ خاموش رہ کر نہیں بلکہ بیان دے دے کر دیکھوں گی کیونکہ حکومت نے جو سلوک سابق وزیراعظم کے ساتھ کیا ہے وہی سلوک مستقبل کی وزیراعظم کے ساتھ بھی کرنا چاہتی ہے جبکہ چچا جان کا مکو ٹھپنے کا بندوبست تو میں نے کر لیا ہے اور وہ میرے راستے کی دیوار نہیں بنیں گے کیونکہ ان کے ساتھ نمٹنے کے لئے نیب ہی کافی ہے بلکہ حمزہ بھائی بھی اپنی خیر منائیں کہ ان پر کرپشن کا بوجھ چچا جان سے بھی زیادہ ہے اور ان مقدمات کے منطقی انجام تک پہنچتے ہی ساری رکاوٹیں خود ہی دور ہو جائیں گی اور صرف میری نااہلی کا معاملہ باقی رہ جائے گا جس کے لئے بھی کوئی جادو ٹونہ کرنا پڑے گا۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
ماہتاب ہتھیلی پر
یہ چودھری افضل گِل کا مجموعہ کلام ہے جسے بزمِ مولا شاہ نے چھاپا ہے اور جس کا انتساب کیپٹن محسن علی، صائم افضل گل، ہاتف گل، ڈاکٹر انعم گل، ڈاکٹر ماہم افضل گل اور میاں آصف محمود سلیمی ایڈووکیٹ کے نام ہے۔ اس کے دیباچے مسعود احمد، پروفیسر رضا اللہ حیدر، میاں آصف محمود سلیمی، ڈاکٹر انعم گل اور پیش لفظ شاعر کا بقلم خود ہے۔ موصوف اوکاڑہ میں پولیس ملازم ہیں جبکہ ایک پولیس ملازم کا شاعری کے خارزار میں داخل ہونا ویسے بھی لائق تحسین اور حوصلے کی بات ہے۔ اپنے نام کے ساتھ چودھری لکھنا ان کی ایک اور پہچان ہے۔ اندرون سرورق اُن کی صاحبزادی نے والد صاحب کی شاعری کے بارے اظہار خیال کیا ہے جبکہ پس سرورق شاعر کو ایوانِ صدر میں صدر پاکستان ممنون حسین کے ساتھ نیشنل بک ڈے پر ہاتھ ملاتے ہوئے دکھایا اور شاعر کے تخلیق کردہ دو شعر درج کئے گئے ہیں۔ آپ پنجابی زبان میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں۔ ان کی شاعری شوقیہ، واجبی اور آسان فہم ہے۔
اور، اب عامر سہیل کی فرمائش پر یہ غزل:
کھڑکیاں کس طرح کی ہیں، اور در کیسا ہے وہ
سوچتا ہوں جس میں وہ رہتا ہے گھر کیسا ہے وہ
کیسی وہ آب و ہوا ہے جس میں وہ لیتا ہے سانس
آتا جاتا ہے وہ جس پر، رہگزر کیسا ہے وہ
کونسی رنگت کے ہیں اُس کے زمین و آسماں
چھاؤں ہے جس کی یہاں تک بھی، شجر کیسا ہے وہ
اک نظر میں ہی نظر آ جائے گا وہ سر بسر
پھر بھی اس کو دیکھنا، بارِ دگر کیسا ہے وہ
میں تو اُس کے ایک اک لمحے کا رکھتا ہوں شمار
اور میرے حالِ دل سے بے خبر کیسا ہے وہ
اُس کا ہونا ہی بہت ہے، وہ کہیں ہے تو سہی
کیا سروکار اس سے ہے مجھ کو، ظفرؔ، کیسا ہے وہ
اور، اب آخر میں خانہ پُری کے لئے ایک اور غزل کے چند شعر:
کب وہ ظاہر ہو گا اور حیران کر دے گا مجھے
جتنی بھی مشکل میں ہوں، آسان کر دے گا مجھے
رُوبرو کر کے کبھی اپنے مہکتے سرخ ہونٹ
ایک دو پل کے لئے گلدان کر دے گا مجھے
روح پھونکے گا محبت کی مرے پیکر میں وہ
پھر وہ اپنے سامنے بے جان کر دے گا مجھے
خواہشوں کا خوں بہائے گا سر ِبازارِ شوق
اور، مکمل بے سرو سامان کر دے گا مجھے
آج کا مقطع:
میں خواب ِ سبز تھا دونوں کے درمیاں میں، ظفرؔ
کہ آسماں تھا سُنہرا، زمین بھوری تھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved