اپوزیشن نے کمر کس لی ہے۔ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے ایک بار پھر خود کو ایکٹیویٹ کرلیا ہے۔ ان کی قیادت میں شہباز شریف‘ آصف زرداری اور بلاول بھٹو بھی میدان میں نکلنے کے لیے پَر تول رہے ہیں۔ حکومت مخالف تحریک چلانے کے حوالے سے تیاریوں کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔
یہ سب افسوس ناک سہی‘ حیرت انگیز نہیں۔ حکومت کے خلاف جانے کا ماحول بخوبی پایا جارہا ہے۔ بہت حد تک کہا جاسکتا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن کے لیے اچھی خاصی گنجائش پیدا کردی ہے۔ اپوزیشن جانتی ہے کہ حکومت مختلف سمتوں سے مسائل میں گِھری ہوئی ہے۔ یہی موقع ہے کہ اُس کی گردن ناپی جائے۔ ہمارے ہاں سیاسی سطح پر گردن ناپنے کی روایت ہر دور میں زندہ و توانا رہی ہے۔ اپنے گریبان میں جھانکنے اور اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معاملات کی درستی پر متوجہ ہونے کے بجائے اہلِ سیاست مخالفین میں کیڑے نکالنے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ یہی وہ عمل ہے جس نے ملک کے بیشتر معاملات پر خاصا ''عملیاتی‘‘ اثر مرتب کیا ہے‘ حالات کو خرابی کی طرف دھکیلتے رہنے کا سلسلہ جاری رکھنے میں مدد دی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن اور ان کے ہم خیال اصحابِ سیاست حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہتے ہیں۔ اس پر تھوڑی سی حیرت کا اظہار کیا جانا چاہیے۔ حکومت کے لیے تو ٹائم پہلے ہی بہت ٹف چل رہا ہے۔ ایسے میں مزید کون سا ٹف ٹائم دیا جانا ہے؟ اگر ٹف ٹائم دینے سے مراد یہ ہے کہ حکومت کو بوریا بستر گول کرکے رخصت کرنے کی ٹھان لی گئی ہے تو کہنا پڑے گا کہ یہ سب کچھ کسی بھی اعتبار سے ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ حکومت خواہ کسی حالت میں ہو‘ اگر وہ اپنی سی کوشش کے ذریعے معاشی و سیاسی حالات درست کرنے کی راہ پر گامزن ہے تو اسے یہ عمل مکمل کرنے دیا جائے۔ آئی ایم یف سے نئے قرضوں کا پیکیج لے کر یا دوست ممالک سے تھوڑی بہت امداد پاکر معاملات کو درست کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تو نتائج کا انتظار بھی لازم ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس نے قومی قرضوں سے متعلق تحقیقاتی کمیشن کو مسترد کردیا ہے۔ عام انتخابات کو ایک سال مکمل ہونے پر 25 جولائی کو یومِ سیاہ منایا جائے گا۔ عوامی رابطہ مہم چلانے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ اپوزیشن کا الزام ہے کہ معیشت تباہ کی جاچکی ہے۔ یہ انتہائی نوعیت کے جملے ہیں۔ اگر معیشت واقعی تباہ ہو بھی چکی ہو تو کسی ایک حکومت کو اس کے لیے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہم وہی کاٹ رہے ہیں جو سات عشروں کے دوران مل جل کر بویا ہے۔ حالات کے حوالے سے ناپسندیدگی اپنی جگہ مگر ان کے وجود سے تو انکار کیا ہی نہیں جاسکتا۔ اگر حالات کو درست کرنا ہے تو اُن کا وجود تسلیم کرنا پڑے گا۔ اس مرحلے سے گزرنے ہی پر ہم بہتری کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
تین عشروں سے بھی زائد وقت گزر چکا ہے کہ ملک و قوم کو صرف بحرانوں کا سامنا رہا ہے۔ جمہوری عمل کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو کمزور کرنے اور گرانے کے لیے جمہوری قوتیں ہی میدان میں آ جاتی ہیں۔ ابھی منتخب حکومت نے بوریا بستر ٹھیک سے کھولا بھی نہیں ہوتا کہ اسے رخصت کرنے کی کوششیں شروع کردی جاتی ہیں۔ اور جب یہ کوششیں رنگ لاتی ہیں تو عوام کی جان پر بن آتی ہے۔ ہر معاملے کے حتمی‘ منطقی نتائج تو بالآخر عوام ہی کو بھگتنا پڑتے ہیں۔
سوال صرف یہ نہیں ہے کہ حکومت بند گلی میں کھڑی ہے۔ اپوزیشن کی بھی گوٹیں پھنسی ہوئی ہیں۔ اسے بھی گردن بچانی ہے۔ احتساب کا عمل کسی نہ کسی طور جاری ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کی طرف سے احتجاج کے ساتھ ساتھ مفاہمت کا بھی عندیہ دیا جاتا رہا ہے۔ اے پی سی کے اعلامیے سے بھی یہ تاثر ملتا ہے کہ بلاول بھٹو بھی مفاہمت کی سیاست کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں۔ حکومت پر تنقید ضرور کی جارہی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ وسیع بنیاد پر افہام و تفہیم کی گنجائش بھی رکھی جارہی ہے۔ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن تمام کارڈ شو نہیں کرنا چاہتی۔ پی پی پی اور ن لیگ میں رابطے غیر معمولی حد تک بڑھ گئے ہیں اور ع
آملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک
جیسی کیفیت پیدا ہوچلی ہے مگر اس کے باوجود فریقین احتیاط کا دامن بھی اچھی طرح تھامے ہوئے ہیں۔ بہت کچھ کرنے کی آرزو اپنی جگہ مگر ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے پر مکمل بھروسا کرنے سے بھی گریز کیا جارہا ہے۔ مصلحتوں کے ایسے ہی تقاضے ہوا کرتے ہیں۔ وزیر اعظم کی خصوصی معاون برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کہتی ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن باقی چار سال خود کو دین کے لیے وقف کردیں۔ مولانا فضل الرحمٰن اپوزیشن کو حکومت گراؤ مہم کے لیے جس خشوع و خضوع کے ساتھ متحرک رکھتے ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ مشورہ اچھا خاصا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔آصف زرداری نے کھل کر کہا ہے کہ ہاں‘ ہم حکومت گرانے کی مہم شروع کر رہے ہیں۔ شہباز شریف اس حوالے سے زبان سنبھال کر بات کر رہے ہیں۔ وہ حکومت سے تصادم تو چاہتے ہیں مگر ایک خاص حد میں رہتے ہوئے۔ بعض جماعتوں کا معاملہ ع
صاف چُھپتے بھی نہیں‘ سامنے آتے بھی نہیں
جیسا ہے۔ حکومت کے خلاف جانا بھی ہے تاکہ میڈیا کے ذریعے عوام کو احساس ہوتا رہے کہ ان کا وجود برقرار رہے‘ فضا میں تحلیل نہیں ہوگئیں۔بہر کیف‘ یہ وقت کسی تحریک سے کہیں زیادہ تحرّک کا ہے۔ معیشت کو مستحکم بنانے کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کے نتائج کا انتظار ہے۔ ہونا بھی چاہیے کیونکہ ان نتائج ہی پر بہت سے معاملات کے درست ہونے کا مدار ہے۔ ایسے میں کسی حکومت مخالف تحریک کی زیادہ گنجائش ہے تو نہیں۔ معیشتی خرابیوں کو دور کرنے کی ہر کوشش بارآور ثابت ہونے میں کچھ وقت ضرور لے گی۔
اپوزیشن کی طرف سے ''میثاقِ معیشت‘‘ کی باتیں کرکے در حقیقت یہ عندیہ دیا جارہا ہے کہ اگر حکومت نے احتساب کا چراغ جلائے رکھنے کی کوشش کی تو اس کی راہیں تاریک کردی جائیں گی۔ قوم چاہتی ہے کہ اس کے مسائل حل ہوں اور ملک کے مستحکم ہونے کی راہ ہموار ہو۔ حکومت کے پاس وژن ہے یا نہیں اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور معاملات درستی کی راہ پر گامزن ہوں۔ حکومتی اقدامات کے فوری نتائج کی امید رکھنا عبث ہے۔ لازم ہے کہ تحمل سے کام لیا جائے۔ حکومتی پالیسیوں سے اختلافات کے نام پر اپوزیشن اب تک جو کرتی آئی ہے وہ بہت حد تک روایت کی سی شکل اختیار کرگیا ہے۔ معاملات کی بدلتی اور بگڑتی ہوئی نوعیت دیکھ کر عوام سمجھ جاتے ہیں کہ اب حکومت کا ناطقہ بند کرنے کے نام پر ہڑبونگ مچائی جائے گی اور جیسے تیسے چلتے ہوئے نظام کو سست رفتار کرنے اور بالآخر روک دینے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ ایسا کرنے میں محض سسٹم کی نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ایسی تیسی ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔ جو کچھ سیاست کے نام پر ہوتا آیا ہے اس کا اعادہ اس وقت نہ کیا جائے تو اچھا۔ معاملات کو چلنے دیا جائے۔ بہتری کے لیے کچھ تو انتظار کیا جائے۔