تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     01-07-2019

معیشت سیاست کی زد میں

وطنِ عزیز ہمہ وقت سیاست کے نرغے میں رہتا ہے۔ اب قومی معیشت بھی اس کی زد میں ہے۔ کسی بھی ملک میں سیاست کو معیشت سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی پرکھ ایک ساتھ ہوتی ہے۔ سیاست معیشت کے زور پر چلتی ہے، اور معیشت کو سیاسی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں معیشت جس سیاست کے نرغے میں ہے‘ وہ ایک الگ معاملہ ہے۔ یہاں معیشت کو ذاتی، خاندانی اور مفاد پرستی کی سیاست کے تابع کر دیا گیا ہے۔ ماضی کی جمہوری اور فوجی حکومتوں کی یہ ترجیح کبھی نہیں رہی کہ قومی معیشت کو مستقل بنیادوں پر ایسے تشکیل دیا جائے کہ معاشی نمو کے ثمرات غریب طبقات تک بھی پہنچ جائیں۔ اس کے برعکس، سیاسی دھڑوں نے انتخابی سیاست کے تقاضوں کو سامنے رکھا۔ گیس اور بجلی ہر گائوں میں پہنچانا اچھی بات، لیکن اگر وسائل کم ہوں، اور بجلی پیدا کرنے کیلئے انحصار درآمد شدہ فرنس آئل پر ہو تو پھر آپ کو یہ وسائل صنعتوں کے فروغ، یا پیداواری شعبوں میں استعمال کرنے چاہئیں۔ قدری وسائل کا بھی یہ مصرف ہو۔ پاکستان میں ہوا یہ کہ اس سے پہلے کہ ہم صنعتی میدان میں خود کفیل ہوتے، باہر سے سرمایہ آتا اور مشینی کارخانے چلتے، ہم نے سیاست چمکانے کیلئے صارف معاشرہ بنا ڈالا۔ گیس اور بجلی جہاں بھی جائے گی، آسودگی ہو گی، لیکن اس کے ساتھ اس کا استعمال بھی بڑھے گا۔
چین ہو یا مغرب، جاپان ہو یا اس کے پڑوس میں مشرقِ بعید کے ممالک، سب نے کھپت کے مقابلے میں پیداوار، اور صرف کے مقابلے میں صنعت کو ترجیح دی۔ وسائل، سہولیات، انتظامی پالیسی اور صنعتی ڈھانچہ قائم کیا۔ بھارت میں بھی ریاست نے کاروباری اور صنعتی خاندانوں کا ہاتھ تھاما، یہاں تک کہ نصف صدی تک اُن کو اجارہ داری قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ اس سے سرمایہ اکٹھا ہوا، منڈیاں بنیں، صنعتی ناموں کی شناخت اور تشکیل ہوئی۔ اگرچہ عالمی مسابقت کی عدم موجودگی کے باعث معاشی شرح نمو کم رہی، جدت اور کوالٹی بھی عالمی معیار تک نہ پہنچ پائی، لیکن صنعتی پہیہ چلنا شروع ہو گیا۔ مشاہدہ ہے کہ بھارتی اپنے ملک کی بنی ہوئی چیزیں استعمال کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ معاشی قوم پرستی صرف بھارت تک ہی محدود نہیں۔دوسرے ممالک میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں۔ 
مغربی جمہوریت اور ہماری پسماندہ جمہوریت میں فرق یہ ہے کہ اگر مغرب میں کسی سیاسی جماعت کے اقتدار کے دوران معاشی شرح نمو کم ہو یا جمود یا کسی بحران کا شکار رہے تو سرمایہ دارانہ نظام میں اس کے اثرات انتخابی نتائج سے ظاہر ہو جاتے ہیں۔ وہاں خاندان جماعتیں نہیں چلاتے، نہ ہی لوگ ہاتھوں میں جھنڈے اٹھائے، گرد اُڑاتی گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ لوگ سیاسی شعور رکھتے ہیں۔ وہ معاشی ترجیحات دیکھتے ہیں۔ 
دوسری طرف ہمارے سیاسی خاندان لوٹ مار، جس کے شواہد دنیا بھر کے میڈیا اور اداروں کی فائلوں میں موجود ہیں، کا بازار گرم کرنے کے باوجود ہمارے نظام میں معزز اور پارلیمان میں کلیدی کردار کے حامل رہتے، اور ناگزیر کہلاتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ بادشاہت ہو یا لنگڑی لولی جمہوریت، جب تک عوام دھوکہ کھا سکتے ہیں، یہ دھوکہ دینے کے لیے اُن کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں گے۔ جمہوریت کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کیا تدبیر اختیار کی جا سکتی ہے؟ اس پر مفصل بات پھر کبھی ہو گی، مگر مختصراً یہ کہ جمہوریت کے معیار کا تعلق عوامی شعور سے ہوتا ہے۔ جمہوری نمائندگی میں بلا کی طاقت ہوتی ہے۔ جب کوئی بدعنوان سیاست دان بھی للکارتا ہے کہ اُسے عوام نے منتخب کیا ہے تو اُس کے حق نمائندگی اور عوامی طاقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے اور تسلیم کرنا چاہیے۔ اس لیے حتمی ذمہ داری عوامی شعور پر چلی جاتی ہے۔ 
معیشت سیاست کا شکار اس لیے ہے کہ ہمارے سیاسی خاندانوں نے مشکل مگر ضروری فیصلے کرنے سے ہمیشہ گریز کیا۔ یہ مسندِ اقتدار سنبھالتے ہی اگلے انتخابات کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ ریاستی وسائل، سرکاری ملازمتیں، ٹھیکے، نوکر شاہی میں اکھاڑ پچھاڑ اور اقربا پروری، اور پھر اربوں کھربوں کا سرکاری سرمایہ اپنی جماعت کے لوگوں کے سپرد۔ مشرف کے دور میں مقامی حکومتوں کی ترقی کے نام پر مبینہ طور پر کرپشن ہوئی اور کسی نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 
اب تو سیاست نام ہی وسائل کی تقسیم کا ہے۔ اقتدار عوامی نمائندوں کو وسائل کے استعمال کا اختیار دیتا ہے، اُن کی ترجیحات کیا ہوں گی؟ معاشرے کے کون سے شعبے ان سے مستفید ہوں گے؟ ہر حکومت، جمہوری ہو یا آمرانہ، سرکاری وسائل میں نمو اور تقسیم کی ذمہ داری اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ وسائل ریاست کے ہوتے ہیں، لیکن یہ فیصلہ تو حکومت نے کرنا ہے کہ کیا اُنہیں پنجاب کے تندروں پر روٹی لگانے میں اُڑایا جائے گا یا زرعی تحقیق، خوراک کی پیداوار اور معاشرے کی پیداواری صلاحیت بڑھانے پر لگایا جائے گا۔ معیشت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وسائل محدود ہیں۔ چونکہ طلب ہمیشہ وسائل سے زیادہ ہوتی ہے، اس لیے ذمہ دار حکومتیں نعرے بازی اور چکاچوند منصوبوں کی بجائے معاشرے میں پائیدار اقتصادی تبدیلی لانے کا عزم رکھتی ہیں۔
معاشرے کی فلاحی اور پیداواری صلاحیت میں اضافے کے ساتھ افرادی قوت کی تربیت بھی ہو جاتی ہے۔ عملی معیشت کی اصطلاح نئی نہیں، بلکہ کئی صدیوں سے رائج ہے۔ مگر ہمارے ہاں حکمران طبقات فکری استعداد سے محروم ہونے کی وجہ سے ایسی معیشت کی اساس قائم نہ کر سکے۔ گزشتہ چالیس برسوں سے سیاسی سوچ محض انتخابی سیاست کے تقاضوں تک محدود رہی۔ نمود و نمائش کی خواہش نے طویل المدت منصوبوں، افرادی وسائل کی ترقی، یکساں اور معیاری تعلیم اور انرجی کی دستیابی جیسے اہم مسائل کو قومی ترجیحات میں بہت پیچھے دھکیل دیا۔ 
جب ریاست کا ڈھانچہ بدعنوانی سے زنگ آلود ہوا تو محصولات کے نظام میں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ ٹیکس وصول کرنے میں کمزوری، بنیادی ذمہ داری سے غفلت ریاستوں کے زوال کی عالمگیر کہانی ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان سب سے کم محصولات جمع کرنے والا ملک ہے۔ قومی آمدنی کا صرف نو یا دس فیصد۔ بھارت اٹھارہ فیصد ٹیکس وصول کرتا ہے۔ موجودہ حکومت نے مختلف اقدامات، جن کی سخت مخالفت کی جارہی ہے، کے ذریعے ساڑھے بارہ فیصد کا ہدف رکھا۔ وسائل دستیاب نہ ہوں، عوامی اور انتخابی سیاست کی نام نہاد ترجیحات ہمہ وقت غالب رہیں تو حکومتیں قرضوں پر گزارہ کرتی ہیں۔ دو سیاسی خاندانوں کے دس سالہ دور میں ساٹھ ارب ڈالر سے زیادہ کے بیرونی قرضے حاصل کیے گئے۔ دیکھیں ان قرضوں کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن کیا کھوج لگاتا ہے۔ مگر کرپشن کے حوالے سے پہلے سے موجود شواہد بہت کچھ کہتے ہیں۔ یقینا بعض حالات میں قرضے ناگزیر ہوتے ہیں، لیکن سوچنا ہو گا کہ ہم کیا تدابیر اختیار کر سکتے ہیں کہ قرضوں پر انحصار کم کیا جائے۔ عمران خان نے اپنی گزشتہ دو تقاریر میں درست کہا، اور یہ باتیں تمام ماہرینِ معاشیات کہتے چلے آئے ہیں کہ ٹیکس کی وصولی کا نظام درست ہو، ٹیکس چوروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو تو ہم چند سالوں میں اپنے وسائل کو دگنا کر سکتے ہیں۔کئی دہائیوں سے سرکاری تحویل میں لیے گئے بجلی کے کارخانوں اور اُن کی تقسیم کار کمپنیوں، قومی ائیرلائن، سٹیل مل، ریلوے، سب پر عوام کے کھربوں خرچ ہوچکے۔ موجودہ حکومت بھی اسی لائن پر سوچ رہی ہے کہ مزید کئی سو ارب لگا کر ان اداروں کو فعال بنایا جائے۔ آپ ایسا ہرگز نہیں کرسکتے۔ سرکار یہ ادارے کبھی نہیں چلا سکتی۔ 
میاں شہباز شریف کا اقتصادی چارٹر طے کرنے کا بیان دیر سے ہی سہی، مگر درست ہے۔ جب اُن کی حکومت تھی تو اُنہیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔ لیکن اُس وقت اس لیے نہ ہوا کہ اُس وقت کی حزبِ اختلاف کبھی کسی ایسے سمجھوتے کے لیے تیار نہ ہوتی۔ اب بھی ایسا نہیں ہو گا۔ مقصد یہ نہیں ہے کہ مل بیٹھ کر ملک کے اقتصادی مسائل کا حل تلاش کیا جائے، بلکہ حکومت کو درپیش مالی مسائل سے سیاسی فائدہ اٹھایا جائے۔ تحریکِ انصاف نے مشکل مگر ضروری اقتصادی فیصلے کیے ہیں۔ مگر یہی وہ راستہ ہے جس سے معیشت فعال بنائی جا سکتی ہے۔ اس دوران خسارے میں چلنے والے اداروں سے چھٹکارا پانے کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن دیکھنا ہے کہ حکومت کتنے محاذوں پر لڑائی لڑ سکتی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved