تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     02-07-2019

صلائے عام ہے …!

وہ قوم‘ جس کے مورخ اور علم سماجیات کے ماہرین ان 71 سال کی تاریخ لکھیں یااپنی تاریخ کے اہم واقعات بتائیںتو وہ آدھے سچ کے زمرہ میں آتی ہے۔ آدھا سچ کیوں؟ کالم نگار نے لندن کے مشرق (جہاں وہ رہتا ہے) سے مغرب (جہاں وہ بطور بیرسٹر وکالت کرتا ہے) کے ڈیڑھ گھنٹہ کے ٹرین سفر کے دوران اس دن کے اخبار کے حاشیوں پر اپنی یادداشت پر بھروسہ کرتے ہوئے کل 17 نکات لکھے‘ جو ہماری قومی تاریخ کے تاریک گوشے کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ سوچتا ہوں کہ اگر انسانی تاریخ کے پیمانہ کو ذہن میں رکھ کر دیکھیں تو ہماری مملکت کی کل عمر جمعہ جمعہ آٹھ دن بنتی ہے۔ محاورہ کو ایک طرف رکھ کر گنتی کریں تو جواب نکلتا ہے71 برس۔ ان کی تاریخ لکھنا او رپورا سچ بولنا تو لازم و ملزوم ہونا چاہئے مگر ایسا ہر گز نہیں ہوا۔ آپ ذرا سوچیں کہ ہندوستان میں برطانوی راج اور اُس سے پہلے کے مغل دور یعنی گزشتہ پانچ سو سال کی تاریخ نویسی میں کتنی صداقت کی توقع کی جا سکتی ہے؟ جب ہم 71 سال کے معاملے میں بھی پورا سچ نہیں لکھ سکتے نہ بول سکتے ہیں‘ بلکہ شاید سوچ بھی نہیں سکتے۔ میرے ذہن میں (اور وہ بھی ایک ریل کے سفر کے دوران) صرف 17 نکات آئے‘ مگر زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ تاریک گوشے غالباً تعداد میں اس سے کہیں زیادہ ہوں گے۔ کالم نگار نصف صدی سی وطنِ عزیز سے چھ ہزار میل کے فا۔صلہ پر رہتا ہے۔ وہ ‘اگرچہ دن رات پاکستان کے بارے میں سوچتا اور لکھتا پڑھتا رہتا ہے ‘مگر پاکستان کے خیال سے غافل نہ رہنے سے تو تلاشِ علم ‘ یکسوئی اور حقائق کی جستجو کے فقدان کی تلافی تو نہیں کی جا سکتی۔
یہ بتانا ضروری ہے کہ میرے ذہن میں مذکورہ بالا تاریک گوشوںکا خیال آج آیا تو کیونکر؟ ایک خبر اس سوچ کا باعث بنی ۔خبر یہ تھی کہ 25/26 مئی کو امریکہ میں یوسف بُچ وفات پاگئے اور اُن کی میت (اُن کی وصیت کے مطابق) مظفر آباد میں سپرد خاک کی گئی۔ مرحوم پہلے بھٹو صاحب کے مشیر تھے بعدازاں سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کے سفیر بنا دیئے گئے۔ آج کا پہلا نکتہ تو اُن کے بارے میں ہے ۔ یوسف بُچ کی امریکی بیوی نے اُن کا بھٹو صاحب سے تعارف کرایا۔ وہی اُن کو پاکستان لائی اور یہ اسی بی بی کا کمال تھا کہ اُس کا شوہر علم و فضل یا اس سے جڑی ہوئی ہر خوبی سے محروم ہونے کے باوجود وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کا مشیر بنا۔ شوہر کا اسلام آباد میں رہنا مشکل ہو گیا تو امریکی بیوی نے اسے سفیر کا عہدہ دلوایا۔ حسنِ اتفاق دیکھئے کہ سفارت اور شادی ساتھ ساتھ ختم ہوئی۔ آپ کے ذہن میں اب یہ سوال اٹھے گا کہ مجھے ان باتوں کا کیسے علم ہے؟ میرا جواب پڑھ کر آپ دل تھام کر رہ جائیں گے۔ 1975 ء کے شروع کے دنوں میں میرے ایک بزرگ دوست (تارڑ صاحب جن کا پورا نام یاد نہیں رہا) مجھے اسلام آباد یوسف بُچ کے گھر لے گئے جہاں ہم دونوں کی اس امریکی خاتون نے میزبانی کی۔ اگلے چھ ماہ میں میں جب بھی اسلام آباد گیا‘زیادہ باتیں تو مجھے امریکی خاتون نے بلا کم و کاست خود بتائیں اور باقی مرحوم تارڑ صاحب نے جن سے میرا پاکستان سے واپسی پر بھی رابطہ قائم رہا۔ کچھ عجب نہیں کہ جناب رفیق تارڑ صاحب یا مستنصر حسین تارڑ صاحب مذکورہ بالا تارڑ صاحب کو (جوساٹھ ستر کی دہائی میں لاہور میں جانی پہچانی شخصیت تھے) جانتے ہوں ۔
دوسرا اور غالباً زیادہ سنسنی خیز نکتہ ہمارے ایک گورنر جنرل ملک غلام محمد کی امریکی سیکرٹری سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ بی بی امریکہ سے کب‘ کیوں اور کس طرح پاکستان آئیں؟ وہ نا صرف گورنر جنرل کی سیکرٹری تھیں‘ بلکہ ترجمان اور معتمد خاص تھی اور نام تھا؛ Ruth۔گورنر جنرل مفلوج ہو کر قوتِ گویائی کھو بیٹھے ‘مگر اپنے عہدہ ٔجلیلہ پر فائز رہے تووہ امریکی سیکرٹری‘ کابینہ تک اُن کی ہدایات ‘بلکہ احکامات پہنچاتی تھیں۔ ملک غلام محمد نوزائیدہ مملکت میں قانون اور آئین کی پامالی کے کفن میں پہلا کیل گاڑ کر جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تو ساری دنیا میں چار آنکھیں اشکبار تھیں‘ دو ان کی وفا دار اور راز داں امریکی سیکرٹری کی اور دو اس عفیفہ کی والدہ کی۔ اگر‘ میرا حافظہ آج بھی درست کام کرتا ہے تو مجھے قدرت اللہ شہاب کے لکھے ہوئے شہاب نامہ کا حوالہ دینا چاہیے‘ جس میں مذکورہ بالا خاتون کا تعارف کرایا گیا ہے اور اس کتاب کے وسط میں آپ اس کی تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگا کہ ملک غلام محمد کے دورِ اقتدار میں (اور خصوصاً لقوہ کا شکار ہو جانے کے بعد) یہی امریکی خاتون ایک عرصہ تک پاکستان میں سیاہ و سفید کی مالک بنی رہی۔
اب آگے بڑھتے ہیں تیسرے سے لے کر چھٹے نکات کا تعلق چار افراد کے اندھے قتل سے ہے۔ ضیا الحق (صدر مملکت)‘ لیاقت علی خاں (سابق وزیراعظم)‘ بے نظیر بھٹو (سابق وزیراعظم)‘ مرتضیٰ بھٹو (ایک وزیراعظم کا بیٹا اور ایک وزیراعظم کا بھائی) ۔ آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ اُن کے قاتل کون تھے؟ اُن کے قتل کی سازش میں کون کون شامل تھے؟ ساتویں اور آٹھویں نقطے کا تعلق صدر مملکت کے بعد دوسری اہم شخصیت (ملک امیر محمد خان جو کالا باغ کے نواب تھے اور مغربی پاکستان کے تقریباً ایک عشرہ گورنر رہے) ۔ کیا یہ سچ ہے کہ نہ اُن کے قتل کی پولیس نے ابتدائی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کی اور قتل کی تفتیش کے لئے انگلی بھی نہ ہلائی۔ کیوں؟ یہ ہم آج تک نہیں جان سکے۔ نواں اور دسواں نکتہ اُن دو افراد کے اندھے قتل کے بارے میں ہے جو مقابلتا ًمسکین اور درمیانے درجے کے افسران تھے۔ ایک تھا؛ وہ سب انسپکٹر جس نے ایان علی کو کروڑوں ڈالر سمگل کرنے کے جرم میں گرفتار کیا اور دوسرا تھا؛ سپریم کورٹ کا ایڈیشنل رجسٹرار سید حماد امجد رضا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ ان دونوں کے قتل کی تفتیش ایک ایسی بند گلی میں پہنچ گئی ہے‘ جہاںرپورٹروں کی نظریں نہیں پہنچ رہیں۔ اب میں باقی ماندہ نکات کو ہندسوں کی صورت میں لکھوںگا۔ 11اور 12:ماضی قریب میں امریکی حکومت دو ایسے افراد کی گرفتاری کے لئے ہر ممکن حربہ‘ جن میں لاکھوں ڈالر کا نقد انعام بھی شامل تھا‘ اختیار کر رہی تھی‘ جو اس کی نظر میں دہشت گردوں کے ٹولے کے سردار تھے۔ ایک تھا ؛رمزی یوسف اور دوسرا ایمل کانسی۔ دونوں پاکستان میں گرفتار کر کے امریکہ کے حوالہ کئے گئے ۔ یہ کھلا راز ہے کہ دونوں کی گرفتاری مخبری کی مرہون منت ہے‘ مگر ہم آج بھی یہ نہیں جانتے کہ مخبری کسی نے کی؟ کیا یہ سچ ہے کہ سابق صدر فاروق لغاری مرحوم بھی اس 'کارِ خیر‘ میں شریک تھے؟ 13: ڈاکٹر شکیل آفریدی کے حوالے سے بھی بہت سے سوال بدستور موجود ہیں‘ یہ واضح نہیں کہ یہ شخص اکیلا تھا یا اس کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی اس کیس میں ملوث تھے؛ اگرچہ یہ شبہ بھی کیا جاتا ہے ‘مگراس حوالے سے کوئی بات واضح طور پر موجود نہیں ‘ان افواہوں کی حقیقت بھی سامنے آنی چاہیے۔ 14: جنرل ایوب خان کے دورِ حکومت میں جو بڑے فیصلے کئے گئے ان میں پشاور کے قریب بڈا بیر کے مقام پر امریکی فضائیہ کو ہوائی اڈہ بنانے کی اجازت کے علاوہ چین اور ایران کے ساتھ سرحدی معاہدات بھی شامل ہیں۔ کیا یہ فیصلے کابینہ کے اجلاسوں میں کئے گئے؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو ان اجلاسوں میں شریک تھے؟ کیا ہم کابینہ کے اجلاسوں کی کارروائی اب بھی پڑھ سکتے ہیں؟ 15: 1971 ء میں شاہ ایران نے ایران میں بادشاہت کی تین ہزاری سالگرہ کا جشن منایا‘ جس میں روسی صدر پوڈ گارنی اور جنرل یحییٰ خان بھی مدعو تھے۔ 16:ان دونوں کی ملاقات میں کیا کیا تماشے ہوئے؟ ہمیں کون بتائے گا کہ پاکستان کے صدر نے کیا گل کھلائے؟ 17:امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی کتاب کی اشاعت کے بعد ہمارا بیانیہ کیا ہے؟ :ع
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved