آخر کار وہی ہوا‘ جس کا ڈر تھا۔ بھارت نے‘ اُسی مقام پر ہمیں ڈسا‘ جہاں ڈسنے کی گنجائش موجود تھی۔ انگلینڈ کے خلاف میچ میں بھارت نے وہی کیا ‘جس کا خدشہ کرکٹ کی سمجھ رکھنے والے ہر پاکستانی کے ذہن میں پل رہا تھا۔ انگلینڈ کو آٹھویں میچ میں فتح درکار تھی ‘تاکہ وہ 10 پوائنٹس کے ساتھ بہتر پوزیشن میں آجائے۔ بھارت نے اُسے یہ موقع فراہم کردیا۔ کرکٹ کی دنیا کے سب سے بڑے ایونٹ میں ناقابلِ شکست چلی آرہی بھارتی ٹیم نے جس بھونڈے انداز سے یہ میچ پلیٹ میں رکھ کر انگلینڈ کی نذر کیا‘ اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کرکٹ کے میدان میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے‘ اُس سے کہیں زیادہ تو پس ِ پردہ طے کیا جاچکا ہوتا ہے۔
پاکستان کی راہیں مسدود کرنے کے لیے ‘جو کچھ بھارت نے اتوار کو انگلینڈ کے مقابل کیا ‘اُسے دیکھ کر ہمیں 1992ء کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کا آخری راؤنڈ رابن لیگ میچ یاد آگیا۔ پاکستان کے 9 پوائنٹس تھے۔ ویسٹ انڈیز پوائنٹس ٹیبل پر 8 تک محدود تھا۔ پوائنٹس ٹیبل پر آسٹریلیا کے صرف 6 پوائنٹس تھے؛ اگر‘ وہ اپنا آخری میچ جیت بھی لیتا تو 8 پوائنٹس اُس کے کسی کام کے نہ تھے۔ قوم لتاڑ ہی رہی تھی‘ تھوڑا سا اور لتاڑتی۔ ہاں‘ ویسٹ انڈیز یہ میچ جیت کر 10 پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل میں پہنچ جاتا اور پاکستان اپنا سا منہ لے کر رہ جاتا۔ یہ میچ پاکستان اور بھارت میں سبھی نے انتہائی دھڑکتے ہوئے دلوں کے ساتھ دیکھا۔ بھارت نے ایونٹ میں صرف 5 پوائنٹس حاصل کیے تھے۔ ویسٹ انڈیز کے ہاتھوں آسٹریلیا کی شکست سے بھارت میں کروڑوں دلوں کو راحت مل جاتی‘ کیونکہ اس شکست کی تلوار سے پاکستان کے امکانات کی گردن اُڑ جاتی۔ اہلِ بھارت یہ دیکھنے کے لیے بے تاب تھے کہ پاکستان سیمی فائنل تک پہنچنے سے رہ جائے۔ سوچ یہ تھی کہ ہمارا پیٹ نہ بھرسکا تو پھر تو بھی بھوکا رہے! ادھر پاکستان میں دل دھڑک رہے تھے اور تھرتھراتے ہونٹوں پر دعا تھی کہ آسٹریلیا فتح یاب ہو۔
اس نازک مرحلے پر آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز نُورا کشتی کھیل سکتے تھے۔ سوال ‘اگر خار کھانے کا ہے تو پھر آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز ہم مذہب تھے۔ ایک مسلم ٹیم کو ایونٹ سے باہر کرکے واپسی کا ٹکٹ دِلانے کے لیے دونوں اس میچ کو بہت مزے سے فکس کرسکتے تھے‘ مگر ایسا نہیں ہوا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اِس میچ میں فتح سے پوائنٹس ٹیبل پر بہتری سے کچھ خاص فائدہ نہ ہوگا‘ آسٹریلیا نے پورا زور لگاکر ویسٹ انڈیز کو شکست سے دوچار کیا اور پاکستان کو سیمی فائنل کی بس میں چڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ آسٹریلیا کی فتح نہ تھی‘ حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ جیت گئی تھی۔ اس طور کھیلنے ہی کو کھیلنا کہتے ہیں۔ دوسری بہت سی مصلحتیں اپنی جگہ اور کھیل اپنی جگہ۔ ایک عشرہ ہونے کو آیا ہے کہ عالمی سطح پر پاکستانی کرکٹ کا تیا پانچا کرنے کی کوششیں پوری قوت سے جاری ہیں۔ بھارت نے آئی سی سی سے مل کر اس حوالے سے انتہائی گِھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ اُس کی پوری کوشش رہی ہے کہ کوئی بھی ٹیم پاکستان نہ آئے۔ دعا دیجیے سری لنکا کو کہ اُس نے دوستی کا حق ادا کیا اور بھارت کی ناراضی کی پروا کیے بغیر پاکستان آنے کو ترجیح دی۔ زمبابوے بھی آئی۔ گورے تو خیر اس معاملے میں رہتے ہی محتاط ہیں۔ ویسٹ انڈیز بھی آنے سے انکاری رہا ہے۔ ہاں‘ بھارت کی ''مہربانی‘‘ سے یہ ہوا کہ اُس کے حاشیہ برداروں نے بھی آنے سے انکار کردیا۔ پروین شاکر نے خوب کہا ہے: ؎
چادر اُٹھا کے برف کی لہرا رہی ہے گھاس
سورج کی شہ پہ تِنکے بھی بے باک ہو گئے
کچھ ایسا ہی معاملہ بنگلہ دیش کا تھا۔ اُس نے بھی آئی سی سی کی طرف سے طے کردہ ٹیسٹ اور ون ڈے سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان آنے سے انکار کردیا! اب صرف اس بات کی کسر رہ گئی ہے کہ افغانستان اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کردے‘ کیونکہ افغانستان بھی تو انڈین کیمپ کا حصہ ہے۔ بھارت کی خوشنودی کی خاطر بنگلہ دیش اور افغانستان نے بھی پاکستان سے تعلقات خراب کرتے ہوئے چلنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔ دونوں ہی ممالک کے عوام پاکستان سے یوں خار کھارہے ہیں‘ جیسے ہم نے اُن کا کچھ مال دبا رکھا ہو یا کسی جنگ میں نیچا دکھادیا ہو۔ افغان باشندوں نے تو پاکستان کے خلاف میچ کے دوران اور بعد میں اپنے جذبات کو بے پردہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ جو کام بھارتی تماشائیوں کو کرنا تھا‘ وہ اُنہوں نے افغان تماشائیوں سے کرادیا۔ ''بنیا نیتی‘‘ اسی کو تو کہتے ہیں‘ اگر پاکستان کو ایونٹ سے باہر ہی کرنا ہے‘ تو بھارت کے پاس ابھی دو آپشن بچے ہیں۔ آج (منگل کو) بھارت اور بنگلہ دیش کا میچ ہے۔ بھارت یہ میچ بھی بنگلہ دیش کو دے دے۔ اور 6 جولائی کو سری لنکا سے ہار کر پوائنٹس ٹیبل پر اُسے بھی پاکستان کے مقابل کھڑا کردے۔ جب نیت کو بے لباس ہی کرنا ٹھہرا تو اُس کے بدن پر ایک دَھجّی بھی کیوں رہنے دی جائے!
بھارت نے تو‘ خدشات کے عین مطابق‘ بھرپور انداز سے پیٹھ دکھادی ہے۔ ایسے میں پاکستان کی امیدیں اب کل (3 جولائی کو) انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے میچ سے وابستہ ہیں۔ نیوزی لینڈ 11 پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل کا مضبوط امیدوار ہے۔ اگر‘ انگلینڈ اُسے ہرا بھی دے تو اُس کے لیے معاملہ رن ریٹ کا آجائے گااور پاکستان کیلئے 5 جولائی کو بنگلہ دیش کے مقابل فتح لازم ٹھہری ہے۔ اگر‘ کل انگلینڈ فتح یاب ہوتا ہے ‘تو پاکستان پر دباؤ شدید تر ہوجائے گا؛ اگر نیوزی لینڈ نے بھارت کی ڈگر پر چلنے سے اجتناب برتا‘ یعنی میچ پوری دیانت سے کھیلا تو امید کی جاسکتی ہے کہ میزبان ٹیم شکست سے دوچار ہوکر ایونٹ سے باہر ہوجائے گی۔ یہ میچ بالکل ویسا ہی ہے ‘جیسا 1992ء کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کا تھا۔ پاکستان نے پہلے ہی میچ میں ویسٹ انڈیز کو ہلکا لے کر جو غلطی کی تھی‘ اُس کا خمیازہ پورے ایونٹ کے دوران بھگتنا پڑا ہے۔ قوم‘ جس چیز سے ڈر رہی تھی ‘وہی ہوا۔ بھارت نے موقع دیکھ کر ڈسا ہے۔ بھارت ہی کے شاعر فرحت شہزادؔ کہتے ہیں: ؎
جس کی فطرت ہی ڈسنا ہو
وہ تو ڈسے گا‘ مت سوچا کر
یہ ہم ہیں ‘جو موقع ہاتھ آجانے پر بھی صورتِ حال سے بھرپور فائدہ اٹھانے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ونگ کمانڈر ابھینندن کو تیسرے ہی دن چھوڑ دیا گیا۔ اگر‘ ہمارا کوئی بندہ بھارت کے ہتھے چڑھ جاتا تو ہم آج تک رو رہے ہوتے۔ جس کی فطرت ڈسنا ہو اُس کا سر کچلنا ہی بہترین اور منہ توڑ جواب ہوا کرتا ہے۔ کسی خسیس کے عمل کا جواب دریا دِلی نہیں۔
کھیلوں کی دنیا کشیدہ تعلقات کی حامل ریاستوں کو قریب آنے کا موقع عطا کرتی ہے۔ بھارت کی بدنصیبی یہ ہے کہ وہ کھیل کے میدان کو تعلقات بگاڑنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ جو کچھ اُس نے انگلینڈ والے میچ میں کیا ہے‘ اُس پر دنیا بھر میں کرکٹ کے شائقین تُھو تُھو کر رہے ہیں؛ مگر ‘خیر پھنکارتے ہوئے سانپ میں اِتنی دانش و غیرت کہاں کہ تُھو تُھو پر شرمندہ ہو اور اپنی روش بدلنے کا سوچے۔ قومی غیرت کا تقاضا ہے کہ اب پاکستان کو اِس سانپ کی دُم پر پاؤں رکھنے اور پَھن کچلنے کا معمولی سا بھی موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔