ڈیرہ غازی خان کے ریجنل پولیس افسر عمر شیخ کو ہٹا کر لاہورکھڈے لائن لگانے کی خبر سن کر حیرانی نہیں ہوئی ۔ عمر شیخ‘ جس طرح عوام کی خدمت میں سنجیدہ تھے‘ یہی کچھ ہونا تھا ۔مجھے دس سال پہلے کا اپنا کالم یاد آیا ''لندن سے اوکاڑہ تک‘‘ جو شہباز شریف کو پسند نہیں آیا تھا۔ جس صبح کالم چھپا سٹاف افسر کا فون آیا : شہباز شریف لندن سے لوٹ رہے ہیں‘ آپ ان کے ساتھ پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں ناشتہ کریں۔ میں سمجھ گیا انہیں توقع نہ تھی کہ میں اتنا سخت کالم لکھ دوں گا ۔ ابھی وزیراعلیٰ بنے چند ماہ ہوئے تھے اورلندن سے واپسی بھی زیادہ پرانی نہیں تھی ‘ جہاں ان سے اکثر ملاقات رہتی تھی ۔ سیاستدان اکثر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے؛ چونکہ صحافی کو اُٹھ کر مل لیا ‘ چائے پلا دی یا کھانا کھلا دیا تو پھر اس کا فرض ہے کہ وہ ان کے حق میں کالم لکھے یا خبریں فائل کرے۔ شہباز شریف مجھے لندن میں ایک آدھ دفعہ کھانا بھی کھلا چکے تھے۔ اس لیے وہ کالم پڑھ کر شہباز شریف کو جھٹکا لگنا متوقع تھا۔ وہ کالم دراصل شہباز شریف کے ان جھوٹے وعدوں پر لکھا تھا‘ جو وہ لندن میں کرتے تھے کہ اس دفعہ پنجاب ہاتھ لگ گیا تو انقلاب لائیں گے۔ ان کی باتیں اتنی مسحورکن تھیں کہ بہت سے ڈی ایم جی اور پولیس افسران جو عالمی اداروں میں ڈالروں میں تنخواہیں لے رہے تھے‘ پنجاب میں پوسٹنگ لینے پر راضی ہوگئے۔ ان میں احسان صادق بھی تھے۔ احسان صادق ان افسران میں سے ہیں‘ جن کی عزت کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے زرداری کے خلاف جعلی اکاؤنٹس میں ایف آئی اے کی جو جے آئی ٹی بنائی تھی ‘وہ اس کے سربراہ تھے ۔
احسان صادق کو ڈی پی او ‘اوکاڑہ لگا دیا گیا ۔ تین ماہ میں اوکاڑہ کا کرائم ریٹ ستر فیصد کم ہوگیا۔ میں نے بڑے عرصے بعد احسان صادق سے پوچھا : اتنی جلدی کرائم کیسے کم ہوجاتا ہے؟ وہ بولے: اگر آپ اپنے ایس ایچ اوز کو یقین کرادیں کہ آپ کسی سیاستدان کے کہنے پر اس کی ٹرانسفر نہیں کریں گے تو وہ آپ کو نتیجہ دے گا۔ تین ماہ بعد ایک دن احسان صادق کو حکم ملا کہ ان کا تبادلہ لاہور کر دیا گیا ہے۔ کھڈے لائن۔ پتہ چلا شہباز شریف سے اوکاڑہ کے دو آزاد اور ایک ق لیگ کے ایم پی اے ملے کہ اگر احسان صادق کو تبدیل کر دیںتو وہ ان کی جماعت کو جوائن کرنے کو تیار ہیں۔ وہ جو جالب ؔکی انقلابی نظمیں پڑھتے تھے‘ انہوں نے احسان صادق کو قربانی کا بکرا بنانے میں دیر نہیں کی۔ اب وہ پنجاب ہاؤس میں بیٹھے مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ آپ کیوں ناراض ہوگئے؟ احسان صادق کو کہیں اور اچھی جگہ ایڈجسٹ کردیتے ہیں۔ میں ہنس پڑا اور بولا: سر جی‘ آپ نے سمجھا شاید مجھے کسی افسر کی پوسٹنگ ٹرانسفر میں دلچسپی ہے۔ میں تو آپ کے لندن انقلاب پر یقین کربیٹھا تھا۔ وہ تو تین ماہ نہیں چل سکا ۔ احسان صادق جیسے افسران کو پوسٹنگ کی نہیں‘ آپ کو ان جیسے افسران کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگلے دن ان کے ایک قریبی مشیر کا فون آیا کہ میرے آبائی ضلع لیہ میں کس کو ڈی پی او یا ڈپٹی کمشنر لگانا ہے‘ کوئی نام دیں ۔ میں ہنس پڑا اور کہا: آپ کے صاحب غلط سمجھے ہیں ‘میں کالم پسند کے افسران لگوانے کے لیے نہیں لکھتا۔ اس کے بعد کبھی شہباز شریف سے ملنے کو دل نہ کیا ۔
اب یہ واقعہ یاد آیا جب یہ پڑھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی وہی روٹ لیا ہے اور عمر شیخ کو کھڈے لائن لگادیا ہے۔میری عمر شیخ سے پہلی ملاقات چند برس قبل اپنے دوست اکبر چوہدری کے گھر امریکہ میں ہوئی تھی۔ وہ باتوں سے مختلف افسر لگے۔ امریکہ میں وہ ایمبیسی میں اتاشی کے طور پر کام کررہے تھے۔ امریکی ایکسپوژر نے ان کے سوچنے کا انداز تبدیل کر دیا تھا۔ایک سال بعد عمر شیخ کا میسیج ملا کہ سائیں اسلام آباد لوٹ آیا ہوں۔ اب الیکشن ہونے لگے تو آئی جی پنجاب کلیم امام نے انہیں ڈیرہ غازی خان کا ریجنل پولیس افسر لگا دیا۔ نئی حکومت میں وہ چند ان افسران میں سے تھے ‘جنہیں نگران حکومت دور میں پوسٹنگ کے باوجود نہیں ہٹایا گیا تھا ۔ پتا چلا ڈیرہ غازی خان جیسے مشکل ریجن میں نتائج دینے شروع کر دیے تھے۔امریکہ میں حاصل کیا گیا تجربہ وہاں آزمانا شروع کیا ۔ ان سے پہلے قابل پولیس افسر سہیل تاجک تھے ‘جنہوں نے کچے کے علاقے میں پہلی دفعہ مبینہ ڈاکوئوں کے بچوں کیلئے سکول کھولا اور ڈاکوئوں کی نئی نسل کو تعلیم دینے کا سوچا‘تاہم عمر شیخ کا پولیسنگ کا تصور مختلف تھا۔ ایک دن اسلام آباد ملاقات ہوئی تو پوچھا: کیا وجہ ہے آپ نے کم وقت میں اچھا کام کیا ہے؟ ڈیرہ غازی خان بڑا مشکل علاقہ ہے‘سب سے اہم بات وہ وزیراعلیٰ کا اپنا گھر ہے‘ہر وقت دبائو رہتا ہوگا ۔ اس علاقے میں مزاری‘ کھوسے‘ لغاری‘ دریشک ہر حکومت میں کسی نہ کسی شکل میں شامل رہتے ہیں۔ سردار لوگ کسی افسر کی ناں کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ عمر شیخ نے جو جواب دیا‘ وہ ان سے پہلے آج تک کسی سے نہیں سنا ۔ کہنے لگے: پاکستان کی پولیس ٹھیک کرنی ہے اور عوام کا اعتماد جیتنا ہے تو اس کا حل یہ نہیں کہ پولیس کو مورال کے نام پر جو چاہے کرنے کی اجازت دے دو۔ جب تک پولیس کو یہ ڈر نہیں ہو گا کہ اگر انہوں نے غلط کام کیا تو انہیں بھی اسی طرح سزا ملے گی‘ جس طرح وہ ملزمان کو دیتے ہیں‘ معاشرے میں تبدیلی نہیں آئے گی۔ عمر شیخ کا کہنا تھا: وزیراعظم عمران خان کا تبدیلی کا نعرہ بھی اسی وقت کامیاب ہوگا جب پولیس پر چیک ہوگا ۔ پولیس کے پاس بے پناہ پاورز ہیں جو وہ عوام پر زیادتی کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ یوں عمر شیخ نے وہ کام شروع کیا‘ جو پہلے کوئی نہ کرتا تھا۔ جس پولیس افسر یا اہلکار بارے شکایت ملی ‘انہوں نے پہلے خفیہ انکوائری کروائی اور اس کے بعد انہیں دفتر بلا لیا اور ساتھ ہی قریبی تھانے کے ایس ایچ او کو کہا؛ ہتھکڑیاں لے کر آجائو۔ یوں شاید پہلی دفعہ پولیس اہلکاروں اور افسروں کو عمر شیخ کے دفتر میں ہتھکڑیاں لگیں۔ یہ نیا کلچر تھا کہ پولیس افسران اور اہلکار عوام کو ان کے کرتوتوں پر ہتھکڑیاں لگا سکتے ہیں تو انہیں بھی ہتھکڑیاں لگیں گی ۔ اس سے پولیس کو احساس ہوا کہ انہیں بدلنا ہوگا اور یوں پولیس نے نتائج دینے شروع کیے۔ سرائیکی علاقوں میں سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے حادثات بہت ہورہے تھے۔معلوم ہوا ایک تو روڈ خراب ہیں اور اوپر بسیں بہت تیز چلتی ہیں ۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایک جگہ سے بس ڈرائیور پولیس ناکے سے چٹ لیتا جس پر وقت لکھا ہوتا تھا اور اگر وہ اپنی منزل پر وقت سے پہلے پہنچ جاتی تو ڈرائیور کو پکڑ کر بس کو بند کر دیا جاتا۔ بھوسے سے بھری بڑی بڑی ٹریکٹر ٹرالیاں سڑک پر چلتی تھیں‘پولیس کو کھڑا کیا گیا کہ جو مال ٹرالی سے باہر نکل رہا ہے‘ اسے کاٹ دو۔ یوں سفر محفوظ ہوا۔ اس کے بعد باری آئی علاقے سے گزرنے والی پٹرول لائن سے کروڑں روپوں کے تیل چوری کی۔ اس پٹرول چوری میں بڑے بڑے سردار ملوث تھے۔ عمر شیخ نے ایس ایچ اوز کو کہا :اگر ان کے علاقے سے تیل کی چوری ہوئی تو پرچہ چوروں کے خلاف نہیں ایس ایچ او کے خلاف ہوگا۔ چند دنوں میں چوریاں ختم ہوگئیں ۔ ان کے دوست کے ذریعے اس مافیا نے انہیں دس کروڑ روپے کی آفر کی۔ملاقات ہوئی تو اس نے کہا :جو پیشکش آپ نے ٹھکرائی ہے‘ وہ اس سے کم سردار صاحب کے کسی عزیز کو دے کر آپ کو ہٹوا دیں گے۔ عثمان بزدار نے پہلے بھی عمر شیخ کو ہٹایا تھا‘ لیکن وزیراعظم عمران خان تک بات پہنچی تو تبادلہ روک دیا گیا ۔
حیران ہوتا ہوں‘ سیاستدانوں کو اچھے افسر کیوں راس نہیں آتے؟عثمان بزدار صاحب کو اپنے علاقے میں امن اور سکون کیوں پسند نہیں آیا ؟ جناب عمران خان ‘شہباز شریف اور نواز شریف کے سٹائل آف گورننس کے خلاف بغاوت کرنے نکلے تھے۔پتا چلا ہے کہ وزیراعظم اور ان کے وزیراعلیٰ دراصل شہباز شریف ماڈل سے ہی متاثر ہیں ۔ عمران خان‘ شہباز شریف ماڈل پر فارورڈ بلاک بنانے میں مصروف ہیں ‘جبکہ بزدار صاحب اچھے افسران کو کھڈے لائن لگانے میں۔ شہباز شریف‘ اگر احسان صادق کو نہ برداشت کرسکے تو عثمان بزدار‘ عمر شیخ کو۔ ہاں‘ ایک فرق ضرور پڑا ہے ‘شہباز شریف صرف تین ماہ میں ایکسپوز ہوگئے تھے لیکن عثمان بزدار کو دس ماہ لگے ‘ اب چند ماہ کی اتنی تبدیلی تو بنتی تھی ۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔