تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     03-07-2019

میرے لڑکپن کے عشق کی تباہی

رانا ثنا اللہ کی گرفتاری پر کچھ لوگ کہرام مچا رہے ہیں اور کچھ لوگ اسے مکافاتِ عمل کا نام دے رہے ہیں کہ ماڈل ٹائون کے قتل ِعام کا ذمہ دار بالآخر قدرت کی پکڑ میں آیا ہے۔ بہت سے لوگ اس پر خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں اور بہت سے لوگ اس پر اظہارِ افسوس کر رہے ہیں کہ ہماری سیاست گرتے گرتے کہاں تک آن پہنچی ہے‘ لیکن مجھے اس سارے ہنگامے میں سیاست سے زیادہ ہاکی کے کھیل کی گراوٹ پر ملال اور افسوس ہو رہا ہے۔
جہاں ڈالر تاریخ کی بلند ترین شرحِ تبادلہ پر ہے اور پاکستانی روپیہ بھی روزانہ کی بنیاد پر ڈالر کے مقابلے میں بدترین شرحِ تبادلہ کا خود ہی ریکارڈ بناتا ہے اور اگلے روز اپنا بنایا ہوا ریکارڈ خود ہی توڑ رہا ہے ‘وہاں پاکستان کا ہاکی کا کھیل بھی بدترین ریکارڈ قائم کر رہا ہے۔ فی الوقت عالمی رینکنگ میں پاکستان تنزلی کرتے ہوئے سترہویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کی رینکنگ کے مطابق ‘آسٹریلیا پہلے نمبر پر‘ بیلجیئم دوسرے‘ ہالینڈ تیسرے‘ ارجنٹائن چوتھے‘ بھارت پانچویں‘ انگلینڈ چھٹے‘ جرمنی ساتویں‘ نیوزی لینڈ آٹھویں‘ سپین نویں اور کینیڈا دسویں نمبر پر ہے۔ ملائیشیا‘ کوریا اور جاپان وغیرہ بھی عالمی رینکنگ میں پاکستان سے اونچے درجے پر فائز ہیں؛ حتیٰ کہ فرانس‘ جنوبی افریقہ اور آئر لینڈ کا بھی پاکستان سے بہتر مقام ہے۔ پاکستان سے نیچے کون ہے؟ اس کا مجھے زیادہ علم نہیں ہے تاہم گمان غالب ہے کہ کوسٹاریکا‘ گوئٹے مالا اور برکینافا سو وغیرہ پاکستان سے نچلے درجے پر ہوں گے اور ان کے اس مقام پر ہونے کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہاں ہاکی نہیں کھیلی جاتی۔
ہاکی میری نسل کے بچپن کا دوسرا عشق ہے۔ پہلا عشق محمد علی کلے ہوتا تھا اور دوسرا عشق ہاکی۔ کرکٹ تب صرف اور صرف ٹیسٹ میچز پر مبنی کھیل ہوتی تھی اور ایلیٹ کلاس وغیرہ کا شغل ہوتی تھی۔ ہم جیسے عام تام لوگ جن کی تعداد ایلیٹ کے مقابلے میں کئی سو گنا زیادہ تھی‘ ہاکی وغیرہ سے دل لگایا کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے تب ڈویژنل سپورٹس گرائونڈ ملتان میں قومی ہاکی چیمپئن شپ ہوئی تھی۔ میں اپنے کزنز کے ساتھ چوک شہیداں سے روزانہ پیدل چوک کچہری کے ساتھ واقع ڈویژنل سپورٹس گرائونڈ میں جا کر یہ چیمپئن شپ دیکھا کرتا تھا۔ روزانہ بلا ناغہ جانے کی بنیاد پر ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں سے واقفیت ہوگئی۔ تب اس کھیل میں بہت زیادہ پیسہ تو ایک طرف رہا زیادہ پیسہ بھی نہیں تھا۔ صرف اس کھیل کی بنیاد پر مختلف محکموں کی ٹیموں میں سلیکشن ہو جاتی تھی اور نوکری مل جاتی تھی۔ تب مشہور ہاکی ٹیموں میں پی آئی اے‘ پاکستان کسٹمز‘ پولیس اور واپڈا وغیرہ تھیں۔ زیادہ تر اولمپیئن کھلاڑی پی آئی اے میں‘ کسٹمز میں‘ واپڈا میں اور مختلف بینکوں کی ٹیموں میں ہوتے تھے۔
مجھے سال یاد نہیں غالباً 1970-71 ء کے لگ بھگ کا زمانہ تھا جب یہ چیمپئن شپ ہوئی۔ تب رشید جونیئر‘ شہباز شیخ‘ا صلاح الدین‘ سعید انور‘ اسد ملک وغیرہ کا طوطی بولتا تھا۔ اچھی طرح یاد ہے کہ پی آئی اے نے وہ چیمپئن شپ جیتی تھی۔ پی آئی اے کی ٹیم میں گول کیپر سلیم شیروانی‘ فل بیک اختر الاسلام‘ ریاض الدین تھے سنٹر میں فضل الرحمن‘ سعید انور اور ریاض احمد تھے۔ سنٹر فارورڈ رشید جونیئر تھے۔ دائیں بائیں فارورڈز میں اشفاق احمد‘ اسد ملک اورشہباز شیخ تھے۔ تب کسٹمز کی ٹیم میں پنلٹی کارنر کے ماہر تنویر ڈار‘ اصلاح الدین‘ خالد محمود وغیرہ تھے‘ اسی ٹورنامنٹ کے ایک میچ میں ہاکی لگنے سے شہباز شیخ کے اگلے دو تین دانت ٹوٹ گئے تھے۔ پی آئی اے کی ٹیم تب ملتان کے شبروز ہوٹل میں ٹھہری ہوئی تھی۔ ٹیم کے خدمتگار اور منیجر کے فرائض چچا قادر ادا کیا کرتے تھے۔ چھوٹے سے قد کے گول مٹول اور سفید رنگت والے چاچا قادرٹیم کے کھلاڑیوں سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے۔ ایک شام میں اس ہوٹل چلا گیا اور ٹیم کے ممبران کو گھر چائے کی دعوت دے آیا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب ٹیم کے سینئر کھلاڑی اسد ملک اور سعید انور نے میری دعوت قبول کر لی اور اتوار کی صبح میرے گھر آنے کی حامی بھر لی۔ میں نے گھر آ کر ابا جی کو بتایا‘ انہوں نے اسے گپ تو نہ سمجھا‘ مگر انہیں گمان ہوا کہ ٹیم نے مجھے محض بہلانے کیلئے ہاں کر دی ہے۔ ابا جی بھی یہ سمجھنے میں حق بجانب تھے۔ تب میری عمر دس گیارہ سال سے زیادہ نہ تھی۔ اگلے روز ابا جی مجھے سکوٹر پر بٹھا کر ہوٹل جا پہنچے۔ وہاں پر اسد ملک اور سعید انور کے علاوہ دیگر کھلاڑی بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ خالد سچ کہتا ہے۔ ہم اتوار کی صبح آپ کے گھر چائے پر آئیں گے۔ اب گھر میں تیاریاں شروع ہو گئیں۔ تب ملتان میں ایک بہترین بیکری تھی۔ اولڈ بہاولپور روڈ پر اور اس کا نام تھا؛ ایکسپلشیئر بیکری۔ وہاں سے بیکری آئٹم لیے گئے۔ سموسے‘ پکوڑے‘ دہی بھلے اور مزید کافی کچھ بنایا گیا۔ محلے کے دو تین معززین کو بھی دعوت دی گئی۔ ٹیم دو ٹانگوں پر گھر آئی۔ ساری ٹیم نے اس سال کے پی آئی اے کے کلینڈر پر انپے آٹو گراف دیئے اور میرا نام لکھا۔ محلے میں اگلے کئی ماہ تک میری بڑی آئو بھگت ہوتی رہی۔
سکولوں میں ہاکی کھیلی جاتی تھی۔ پیسہ نہ ہونے کے باوجود اس کھیل کی مقبولیت کے باعث لڑکے پاکستانی ٹیم میں شمولیت کے لیے محنت کرتے تھے۔ شیخوپورہ اور سیالکوٹ سے کافی کھلاڑی پاکستانی ٹیم میں منتخب ہوئے تھے ‘مگر گوجرہ نے جو مقام پاکستانی ہاکی کے افق پر حاصل کیا ‘وہ کسی اور شہر کے نصیب میں نہ آیا۔ 1994ء میں پاکستانی ہاکی ٹیم کے سولہ کھلاڑیوں میں چھ کا تعلق گوجرہ سے تھا۔ یہ سارا کریڈٹ صرف اور صرف دو آدمیوں کو جاتا تھا۔ استاد اسلم روڈا اور اقبال بالی ۔ گوجرہ کے ایک ٹرانسپورٹر چوہدری بشیر اسمبلی کے رکن بھی تھے‘ انہوں نے 1964ء میں گوجرہ ہاکی کلب کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں استاد اسلم روڈا نے لڑکوں کی کوچنگ شروع کی۔ پھر اقبال بالی جو خود پاکستان ہاکی ٹیم میں فل بیک کھیل چکے تھے‘ نے اسلم روڈا کے ساتھ مل کر کوچنگ شروع کر دی۔ کچھ عرصہ بعد دونوں میں اختلافات کے باعث علیحدگی ہو گئی مگر اس طرح مقابلے بازی میں ہاکی کو بڑا فائدہ ہوا۔ اسلم گول کیپر ان حضرات کی محنت کا وہ پہلا پھل تھا‘ جو قوومی ہاکی ٹیم میں سلیکٹ ہوا۔ پھر تو جیسے لائن لگ گئی۔ محمد اسلم 1970ء کی ایشین گیمز کی فاتح ٹیم کا رکن تھا۔ اسلم روڈا اقبال بالی کے بعد طاہر زمان نے گوجرہ میں ہاکی اکیڈمی کی بنیاد رکھی‘ اس طرح تین لوگ ہو گئے ‘جو اس چھوٹے سے شہر کو ہاکی کے منظر نامے پر دنیا بھر میں مشہور کرنے کا باعث بنے۔ مقابلہ کرنا مناسب نہیں ‘مگر سب کا خیال ہے کہ جتنی محنت اور لگن سے استاد روڈا نے گوجرہ میں ہاکی کیلئے کام کیا اور صبح منہ اندھیرے اٹھ کر لڑکوں کے گھروں کے دروازے کھٹکھٹا کھٹکھٹا کر انہیں اٹھایا اور علی الصبح گرائونڈ میں لانے کا مشکل فرض جس جانفشانی اور خلوص سے سر انجام دیا‘ اس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو دنیا بھر میں اس کھیل کے حوالے سے پاکستان کا نام روشن کرنے والے تھے‘ مگر نہ ہی ان کی زندگی میں اور نہ ہی بعد از وفات ان کو کسی قومی اعزاز سے نوازا گیا۔ اسلم روڈا کا چند سال قبل انتقال ہو گیا تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ہاکی کے حوالے سے پاکستان کا ایک عظیم سپوت اور ہیرو اس دنیائے فانی سے کوچ کر گیا ہے۔
آپس کے جھگڑے‘ سیاسی چپقلش اور سازشوں کے ساتھ ساتھ کھیل کی سرپرستی اور انتظامی معاملات چلانے والی پاکستان ہاکی فیڈریشن میں سیاسی تقرریوں نے سارے نظام کا بیڑہ غرق کر دیا۔ ہمارے کھلاڑی بیلجیئم وغیرہ کے کلبوں میں چلے گئے۔ آج بیلجیئم دنیا کی نمبر ایک ہاکی ٹیم ہے اور ہم سترہویں نمبر پر ہیں۔ یہ تنزلی ایک دن کی نہیں برسوں کی بربادی کا نتیجہ ہے۔ سکول‘ کالج اور کلب کی سطح پر ہاکی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ متوازی تنظیموں نے رہی سہی کسر نکال دی۔ ہاکی کو کیا روئیں؟ یہاں کسی سے روپے کی قدر اور مہنگائی قابو نہیں آ رہی۔ ایسے میں میرے لڑکپن کے عشق کی کسی کو فکر ہو سکتی ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved