تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     04-07-2019

ٹیکس نیٹ … ڈرنا کِسے چاہیے؟

جب سے ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی بات چلی ہے‘ ملک میں طوفان سے آگیا ہے۔ ہر طرف چیخ و پکار مچی ہوئی ہے۔ اس بات کا مسلسل رونا رویا جارہا ہے کہ ٹیکس نیٹ میں توسیع سے عام آدمی کا جینا حرام ہوجائے گا۔ یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ عام آدمی پہلے ہی کب جی رہا ہے؟ اُس کا جینا اُنہی لوگوں نے حرام کر رکھا ہے‘ جو ٹیکس نیٹ میں آنے سے بچنے کے لیے واویلا کر رہے ہیں۔ 
معیشت کو سب سے زیادہ ضرورت ہے؛ ڈاکیومینٹیشن کی! ٹیکس نیٹ میں لانے والے نظام سے دور یا بالا رہتے ہوئے لین دین کرنے والوں کے لیے اب معاملات الجھتے جارہے ہیں۔ کل تک کالے دھن (یعنی ٹیکس کے مرحلے سے گزرنے سے بچانے والی کمائی) کو سفید کرنے کے سو طریقے رائج تھے۔ اب تک انکم ٹیکس صرف اُن لوگوں سے وصول کیا جاسکا ہے‘ جو تنخواہ دار ہیں یا پھر تجارت میں بینکوں کے ذریعے لین دین کرتے ہیں۔ درآمدی و برآمدی تاجروں کے علاوہ بھی کچھ لوگ ہیں‘ جو مختلف معاملات میں بینکوں کے ذریعے لین دین کے پابند ہیں۔ نقدی کی صورت میں لین دین کی روایت ہمارے ہاں بہت مضبوط رہی ہے۔ بہت سی کاروباری برادریاں بینکنگ سسٹم کو زحمتِ کار دینے کی مکلّف ہی نہیں۔ وہ سارا لین دین نقد کرتی ہیں۔ آج تک بڑی بڑی املاک بھی نقدی کے ذریعے خریدی اور بیچی جاتی رہی ہیں۔ چند ایک کاروباری اور لسانی برادریاں بینکنگ سسٹم کے ذریعے لین دین کو تقریباً حرام کے درجے میں رکھتی ہیں‘ کیونکہ اس طور لین دین کی صورت میں ٹیکس دینا پڑتا ہے اور مالی حیثیت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ 
روپے کی قدر میں تیزی سے رونما ہونے والی گراوٹ نے کالا دھن سفید کرنے والوں کو اب سونے کی چوکھٹ پر سجدہ ریز کردیا ہے۔ کل تک پلاٹس‘ مکانات اور اپارٹمنٹس میں پیسہ لگایا (یعنی چھپایا) جارہا تھا۔ نئے قوانین کے تحت لین دین کی صورت میں بے نقاب ہو جانے کا خوف لاحق ہے‘ اس لیے لازم ہوگیا ہے کہ کالا دھن ایسی چیزوں میں کھپایا جارہا ہے‘ جنہیں چھوٹے پیمانے پر خریدا جاسکے؛ اگر حکومت سونے کی خریداری کے لیے رسید ‘یعنی لین دین کا دستاویزی ثبوت لازم بھی قرار دے دے تو لوگ اہلِ خانہ‘ رشتہ داروں اور احباب کے نام پر سونا خریدیں گے۔ پلاٹس‘ مکانات اور اپارٹمنٹس کے معاملے میں مشکل یہ ہے کہ بہت بڑی رقم کسی ایک فریق کی طرف سے دینا پڑتی ہے۔ سونے اور پرائز بانڈز میں یہ قباحت نہیں۔ کالے دھن کو چھپانے کے لیے سونے کی طرف تیزی سے لپکنے ہی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ سونے کے نرخ 80 ہزار روپے فی تولہ کا نشان بھی پار کرگئے ہیں۔ 
عمومی سوچ یہ ہے کہ انکم ٹیکس کسی صورت نہ دیا جائے۔ توجیح یہ کی جاتی ہے کہ سرکاری خزانے میں پیسہ ضرور جائے گا‘ مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ پیسہ بہبودِ عامہ پر خرچ ہوگا۔ یہ اعتراض تو بالواسطہ ٹیکس (ڈیوٹیز‘ سیلز ٹیکس‘ لیویز‘ سرچارجز وغیرہ) پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ انکم ٹیکس سے چُھوٹ کی حد 6 لاکھ روپے سالانہ ہے‘ یعنی ہر ماہ پچاس ہزار روپے سے زائد کمانے والے ہی کو انکم ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ عام آدمی ماہانہ بیس پچیس ہزار روپے سے زائد نہیں کمارہا۔ ماہانہ پچاس ہزار روپے تک کمانے والوں کا شمار قدرے ڈھنگ سے زندگی بسر کرنے والوں میں ہونا چاہیے۔ ممکن ہے‘ مہنگائی کو دیکھتے ہوئے آپ خاکسار کی ‘اس رائے سے متفق نہ ہوں۔ آمدنی و اخراجات کے توازن اور معیارِ زندگی کے حوالے سے ہر فرد کی اپنی رائے ہوتی ہے‘ جس سے دوسروں کا متفق ہونا ضروری یا لازم نہیں ہوتا۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ ہماری معیشت مجموعی طور پر ''فری مارکیٹ‘‘ کے اصول کی بنیاد پر کام کر رہی ہے۔ فری مارکیٹ کا یہ مطلب اخذ کرلیا گیا ہے کہ جس کے جی میں جو آئے کرتا پھرے‘ یعنی معاشرتی معاملات کی طرح معاشی معاملات میں بھی مادر پدر آزادی کو ہر ایک نے اپنا حق سمجھ لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ لوگ معاشرے میں ریاستی نظم و نسق کے ذریعے پائے جانے والے بنیادی ڈھانچے اور دیگر متعلقہ سہولتوں کی مدد سے جی بھرکے کمارہے ہیں ‘مگر کچھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ کوئی‘ اگر ہوٹل چلا رہا ہے تو یومیہ چالیس پچاس ہزار روپے بھی آسانی سے کمارہا ہے‘ مگر انکم ٹیکس کی مد میں پھوٹی کوڑی بھی دینے کو تیار نہیں۔ ایسی اچھی خاصی آمدن کو چھپانا ایک مصیبت ہے۔ ٹیکس سے بچنے کے لیے مختلف شعبوں میں ضروری و غیر ضروری طور پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ کبھی پراپرٹی کا شعبہ کلک کر جاتا ہے اور کبھی سونے چاندی کا۔ پرائز بانڈز کی شکل میں بھی کالے دھن کو آسانی سے چھپایا جاتا رہا ہے۔ 
ریاستی نظم کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ انکم ٹیکس سے کسی نہ کسی طور گردن بچانے والوں کو مزید رعایت اور مہلت نہ دے۔ معیشت کو ڈاکیومنٹیڈ کرنے کی صورت میں سرکاری خزانے میں بہت کچھ آئے گا اور معاشی سرگرمیوں کو باضابطہ شکل ملے گی۔ جب انکم ٹیکس اور دیگر ڈیوٹیز یا لیویز کی شکل میں سرکاری خزانے کو کچھ ملے گا ‘تو معاشرے پر خرچ بھی ہوگا۔ 
معاشی سرگرمیوں کی ڈاکیومینٹیشن سے صرف وہ لوگ بھاگ رہے ہیں ‘جو معاشرے سے لینا تو بہت کچھ چاہتے ہیں ‘مگر کچھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ ریاستی مشینری کے لیے لازم ہوگیا ہے کہ اس عمل کو کسی بھی حالت میں موقوف نہ رکھا جائے ‘ بلکہ جہاں سختی کی ضرورت ہو ‘وہاں خاطر خواہ سختی بھی برتے۔ 
پاکستانی معیشت کا المیہ یہ ہے کہ معاملات غیر دستاویزی ہونے کے باعث بہت کچھ بالا ہی بالا ہو جاتا ہے اور ریاستی مشینری کو مضبوط بنانے کے لیے درکار فنڈز میسر نہیں ہو پاتے۔ کرپشن کا گراف نیچے لانے میں ڈاکیومینٹیشن کا عمل کلیدی کردار ادا کرے گا۔ 
عوام میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو ریاستی سیٹ اپ‘ یعنی بنیادی ڈھانچے اور دیگر متعلقہ سہولتوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے خوب کمارہے ہیں‘ مگر جب انکم ٹیکس ادا کرنے کی بات آتی ہے تو صفِ ماتم بچھالیتے ہیں‘ اسی معاشرے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں ‘جو ہیں تو عوام میں سے‘ یعنی دیکھنے میں مفلوک الحال لگتے ہیں‘ مگر روزانہ آٹھ دس ہزار روپے کماتے ہیں اور کسی کو ہوا بھی نہیں لگنے دیتے! یہ لوگ ڈھنگ سے زندگی بسر کرتے ہیں‘ یعنی سہولتوں کے ساتھ جیتے ہیں اور روتے بھی رہتے ہیں ‘تاکہ معاشرے کے حوالے سے کسی ذمہ داری کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔ اب وقت آگیا ہے کہ انہیں بھی معاشرے اور ریاست کے بہتر نظم و نسق کے حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے کا پابند کیا جائے۔ اور ‘یہ کردار ٹیکس نیٹ میں آنے کی صورت میں ادا کروایا جاسکتا ہے۔ 
ٹیکس نیٹ کے غلغلے سے صرف اُنہیں ڈرنا چاہیے‘ جو معاشرے سے خوب لے رہے ہیں ‘مگر کچھ دے نہیں رہے۔ عام آدمی کو ٹیکس نیٹ سے خوف لاحق نہیں ہونا چاہیے۔ ریاستی مشینری انکم ٹیکس کی مد میں اُس سے کچھ وصول نہیں کرنا چاہتی۔ سوال بڑے اور درمیانے سائز کی مچھلیوں کو پکڑنے کا ہے۔ ٹیکس نیٹ میں توسیع ہوگی ‘تو عام آدمی کو تھوڑا بہت فائدہ ہی پہنچے گا‘ نقصان نہیں۔ اس وقت صرف تنخواہ دار طبقہ انکم ٹیکس دے رہا ہے۔ سیلف ایمپلائمنٹ والے کچھ نہیں دے رہے۔ اُن کی جیب بھی خالی کرائی جانی چاہیے۔ اس حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved