تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     05-07-2019

رانا ثناء اللہ سے جسٹس عطاء اللہ سجاد تک

جُگت بازی میں گوجرانوالہ اور فیصل آباد والوں کا تو جواب ہی نہیں، لیکن لاہوریئے بھی اس فن میں خاصے طاق ہیں۔ ان دنوں رانا ثناء اللہ کی گرفتاری نے انہیں مشقِ سخن کے لیے خاصا مواد فراہم کر دیا ہے۔ رانا صاحب کا ایک طبی معائنہ تو اسی شب کرا لیا گیا تھا۔ ایک اور معائنہ گزشتہ روز جیل روڈ کے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہوا۔ اس خبر پر ایک بزرگ لاہوریئے کا تبصرہ تھا: اصل میں رانا صاحب کے دماغی معائنے کی ضرورت تھی۔ یہ اُس رات نہیں ہوا تھا تو گزشتہ روز کروا لیتے، اس کے لیے کون سا دور جانے کی ضرورت تھی۔ یہ پی آئی سی کے ساتھ ہی تو تھا۔ بابا جی کا اشارہ، شفا خانہ دماغی امراض کی طرف تھا (جو لاہور میں پاگل خانے کے نام سے معروف ہے۔ ایک زمانے میں جب لاہور میں اومنی بسیں چلا کرتی تھیں، تو اس طرف جانے والی بس کا نمبر4 تھا۔ کسی پر حماقت یا بے وقوفی کی پھبتی کسنا ہوتی تو کہا جاتا، اسے 4 نمبر بس پر بٹھا دو (تاکہ پاگل خانے پہنچ جائے) بابا جی مذاق ہی مذاق میں بہت اہم بات کہہ گئے تھے۔ رانا ثناء اللہ کو ایک عرصے سے اپنی گرفتاری کا (شک نہیں) یقین تھا۔ وہ اپنے دوستوں سے (جس میں انہیں اپنے پروگراموں میں بلانے والے بعض اینکر بھی تھے) کہتے کہ شاید یہ آپ کے ساتھ آخری پروگرام ہو۔ کچھ روز سے تو وہ گرفتاری سے بڑھ کر خطرہ محسوس کرنے لگے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے اپنی حفاظتی ٹیم بھی بدل لی تھی۔ اہلِ خانہ کے بقول، وہ انہیں بھی گھر سے باہر نکلنے میں احتیاط کا مشورہ دینے لگے تھے۔ 
وہ جو جگہ جگہ لکھا ہوتا ہے، خبردار! کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے تو رانا صاحب بھی کچھ عرصے سے کیمرے کی آنکھ کی زد میں تھے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی نے تو فون پر ہونے والی گفتگو کجا، بند کمروں کی گفتگو کو بھی محفوظ نہیں رہنے دیا۔ رانا ثناء اللہ کا شمار مسلم لیگ (ن) کے سب سے زیادہ ''بڑ بولے‘‘ اور ''منہ پھٹ‘‘ رہنمائوں میں ہوتا ہے۔ وہ اپنی جماعت کے ''عقابوں‘‘ میں سرفہرست سمجھے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی تنظیم نو میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کی پارٹی کی تنظیم ان کے سپرد ہوئی۔ ان دنوں وہ رابطہ عوام مہم کے لیے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے کچھ ایم پی ایز کی وزیر اعظم سے ملاقات کی خبر پر ان کا اعلان تھا کہ وہ خود ان کے گھیرائو کی مہم کی قیادت کریں گے۔ سوموار کی دوپہر فیصل آباد سے لاہور کا سفر بھی پارٹی کی ایک اہم میٹنگ میں شرکت کے لیے تھا کہ راستے میں دھر لئے گئے۔
بابا جی کی بات میں وزن تھا، ایسے میں اپنی گاڑی میں 15 کلو ہیروئن کے ساتھ سفر کیا دماغی لحاظ سے کسی صحت مند آدمی کا کام ہو سکتا تھا؟ ویسے تو ،مشرف دور میں بھی رانا صاحب کی سیاست ایک ''ابنارمل‘‘ آدمی ہی کی سیاست تھی جس کے علاج کے لیے، انہیں اغوا کرنے کے بعد، ان کی بڑی بڑی مونچھیں اور بھنویں صاف کرنے کے علاوہ، جسم کے مختلف حصوں پر بلیڈ سے کٹ بھی لگائے گئے اور پھر بے ہوشی کی حالت میں سڑک پر پھینک دیا گیا، لیکن اس سے ان کی ''ابنارمیلٹی‘‘ کا علاج تو کیا ہوتا، الٹا اس میں اضافہ ہو گیا۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں وہ انہی خود آلود کپڑوں میں، اسی وضع قطع کے ساتھ پہنچ گئے اور پہلے سے بھی زیادہ زور دار تقریر کر ڈالی۔
دماغی معائنہ تو چھاپہ مار ٹیم کا بھی ہونا چاہیے، جس نے دن دہاڑے ، سرِعام منشیات کی سمگلنگ کا ایسا ہائی پروفائل کیس پکڑا اور برآمدگی سمیت اس ساری کارروائی کی ویڈیو بنانے کی ضرورت تک محسوس نہ کی (19 جنوری 2019 کے سانحہ ساہیوال میں سی ٹی ڈی کے ہاتھوں 42 سالہ خلیل، 32 سالہ اس کی اہلیہ نبیلہ، 13 سالہ بیٹی اریبہ اور ڈرائیور ذیشان کے قتل کی حقیقت ان ویڈیوز ہی نے بے نقاب کی تھی، جو جائے وقوعہ پر موجود بس کے مسافروں نے اپنے موبائل پر بنا لی تھیں)
رانا ثناء اللہ کے خلاف منشیات کی سمگلنگ کے اس مقدمے نے ماضی کے بہت سے مقدمات کی یادیں بھی تازہ کر دیں۔ کالم نگار مزے مزے سے یہ کہانیاں بیان کر رہے ہیں۔ اپنے فیلڈ مارشل صاحب کے دور میں، ان کے گورنر نواب آف کالا باغ کی ہدایت پر حبیب جالب کے خلاف لاہور کی ایک معروف منڈی کا مقدمہ... جس کے مطابق ایک جگہ گانا سنتے ہوئے وارث نامی شخص سے، جس کا نام سنتے ہی شرفا کا پتہ پانی ہو جاتا تھا، جالب کا جھگڑا ہو گیا۔ جالب نے اپنے بیگ سے چاقو نکال کر اسے دے مارا۔ اس پر جالب کے خلاف اقدام قتل (دفعہ307) کا مقدمہ درج ہو گیا۔ اسی علاقے میں پنجابی کے استاد دامن کے ڈیرے سے بم بھی برآمد ہو گیا تھا۔ بھٹو صاحب کے دور میں چودھری ظہور الٰہی کے خلاف بھینس چوری کے مقدمے نے بھی عالمی شہرت حاصل کی تھی۔ اُس دن اجمل جامی نے ''نقطۂ نظر‘‘ میں یاد دلایا تو شامی صاحب کو یاد آیا کہ بھٹو صاحب ہی کا دور تھا جب ان کے خلاف ایک گاڑی کا ''پانا‘‘ چوری کرنے کا مقدمہ بنا۔ دیگر ملزموں میں ایئر مارشل اصغر خاں، میاں محمود علی قصوری، جاوید ہاشمی اور خورشید محمود قصوری شامل تھے۔ 
اِدھر سوشل میڈیا ایکٹوسٹوں کو بھی دلچسپ موضوع ہاتھ آ گیا ہے۔ ایک پوسٹ تھی، ''احسن اقبال کی گاڑی سے کروز میزائل برآمد‘‘۔ اس پر ہمیں اپنے شہید ضیاء الحق صاحب کے دور کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ لاہور کے آفتاب گُل اٹھتی جوانی ہی میں بھٹو صاحب کے عشق کا شکار ہو گئے تھے۔ اپنے محبوب کی پھانسی کا صدمہ ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ اس حوالے سے ان کی ''ہمدردیاں‘‘ مرتضیٰ اور شاہنواز کے ساتھ تھیں۔ وہ فرید کوٹ روڈ پر اپنے آبائی گھر میں، والدین کے ساتھ رہتے تھے۔ یہیں ان کا وکالت کا دفتر بھی تھا۔ 1983 کا ورلڈ کپ دیکھنے وہ انگلینڈ گئے ہوئے تھے کہ لاہور میں ان کے گھر سے سٹنگر میزائل برآمد ہو گیا۔آفتاب گُل کے والد مفتی نذر محمد اور چھوٹے بھائی شہباز تفتیش کے لیے گرفتار کر لئے گئے۔ شہباز ان دنوں فارن آفس میں ملازم تھے، بعد میں سفیر بن کر ریٹائر ہوئے۔ آفتاب گل اِن دنوں لاہور میں پریکٹس کرتے ہیں۔ عملی سیاست کو، عرصہ ہوا طلاق دے چکے۔ بے تکلف دوستوں کے حلقوں میں، کبھی عہدِ جوانی کا ذکر چھڑے تو ٹال جاتے ہیں۔
اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں
کتنی رغبت تھی تیرے نام سے پہلے پہلے
آفتاب گل کے ذکر سے جسٹس عطااللہ سجاد مرحوم بھی یاد آئے۔ ان نیک نامی ججوں میں سے ایک، جن کا حوالہ پاکستانی عدلیہ کے لیے عزت اور افتخار کا باعث ہے۔ جسٹس صاحب 1966ء میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے جج بنے اور 1975ء میں لاہور ہائی کورٹ سے ریٹائر ہوئے۔ جسٹس صاحب کی اکلوتی صاحبزادی، آفتاب گل کی شریک حیات بنیں۔ شادمان میں نہر کنارے جسٹس صاحب کی کوٹھی تھی۔ نظامی صاحب (مرحوم) نے ہمیں ان کی یادداشتیں مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ کبھی طاہر ملک بھی ساتھ ہوتے۔ یادداشتوں کا یہ سلسلہ سنڈے میگزین میں قسط وار شائع ہوا۔ اس دوران جسٹس صاحب سے ایک ذاتی سا تعلق بھی قائم ہو گیا۔ ان کی طرف سے محبت و شفقت اور اپنی طرف سے احترام اور عقیدت کا تعلق۔ جسٹس صاحب شاعر بھی تھے۔ ''سرودِ ناتمام ‘‘ کے نام سے ان کا مجموعہ کلام، ان کے دستخط کے ساتھ، میرے لیے قیمتی اثاثہ ہے۔ ''سرودِ ناتمام‘‘ کی آخری نظم ''میں نے دستک دی‘‘ سے چند آخری سطریں: 
مجھے تقدیر کا پیغام ہے یہ/ کوئی دروازہ نہیں کھلتا اگر/ ہم سفر کوئی نہیں ملتا اگر/ پھر بھی تنہا ہی چلو/ پھر بھی تنہا ہی بڑھو/ سفرِ درد و الم جاری رہے۔ 
اجنبی بستیوں میں، شہروں میں، ویرانوں میں/ بے شجر راہوں میں، بے سایہ بیابانوں میں/ جنگلوں اور پہاڑوں کی بلا خیزی میں/ سفر آمادہ رہوں گا جب تک/ ہے میسر میری تنہائی کو/ صحبتِ خارِ مغیلاں، یار یٔ سنگِ سبیل۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved