نئی دہلی میں وزارتِ خارجہ اور اجیت ڈوول‘ اُس تقریر کی نوک پلک سنوارنے میں لگے ہوئے تھے ‘جو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے لندن سکول آف اکنامکس کی جانب سے انہیں عطا کی جانے والی پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری کی تقریب میں پڑھنی تھی۔ نریندر مودی کی ڈاڑھی اور بال کی ترتیب کیلئے زاویئے بنائے جا رہے تھے۔ ان کیلئے نئے جوتوں اور اس تقریب کی منا سبت سے نئے لباس کا انتخاب کیا جا رہا تھا اور ساتھ ہی بھارت سمیت دنیا بھر میں اپنے ہمدرد عالمی میڈیا کے ذریعے ہندوستان اور نریندر مودی کی مقبولیت اور خارجہ پالیسی کی کامیابی کے ڈنکے بجانے کی تیاریاں اپنے عروج پر تھیں کہ اچانک ان سب کے سروں پر قیامت ٹوٹ پڑی ‘جب نئی دہلی میں پردھان منتری ہائوس کو انتہائی افسوس کے ساتھ اطلاع پہنچائی گئی کہ لندن سکول آف اکنا مکس کی انتظامیہ نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازنے کی اپنی پیشکش واپس لیتے ہوئے معذرت کر لی ہے ۔
یہ اطلاع کیا ملی‘ ایسا لگا کہ ان سب کے سروں پر سردیوں کے موسم میں گھڑوں ٹھنڈا پانی گرا دیا گیا ہو۔یہ ایک ایسی خبر تھی‘ جس پر عالمی میڈیا کے خاموش رہتے ہوئے اسے گو ل کرنے کی منطق تو سمجھ آجاتی ہے‘ کیونکہ انہیں تو اس ڈگری کو جلی سرخیوں سے پیش کرنے کا بھاری معاوضہ پیش کیا جانا تھا۔ اس پر انہوں نے کئی پروگرام کرنے تھے‘ لیکن پاکستان میں کسی جانب سے بھی کوئی ہلکی سی خبر با ہر نہیں آئی‘ اس پر چند لمحوں کیلئے تعجب تو ہوا‘ پھر سوچا شاید ہمارے میڈیا کیلئے یہ خبر کوئی بڑی بات نہ ہو‘لیکن ایسا کبھی ہوا تو نہیں‘ کیونکہ روایتی دشمن ملک کے حوالے سے انتہائی باریک سے باریک اور معمولی سی خبر کو بریکنگ نیوزبنانے والوں کیلئے یہ خبر تو بہت ہی دھماکہ خیر ہونی چاہیے تھی‘ جسے اب‘ میں اپنے مضمون کے ذریعے ایک بریکنگ نیوز کے طو رپر سامنے لا رہا ہوں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ جیسے ہی لندن سکول آف اکنا مکس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ ڈگری دی جاتی ‘توکشمیر میں اپنی قابض افواج کے ذریعے ہزاروں کشمیریوں کو پیلٹ گنوں سے انہیںزندگی بھر کیلئے آنکھوں کی بینائی سے محروم بنانے والے کے خلاف لندن سکول آف اکنامکس کے سامنے برطانیہ میں مقیم ایک لاکھ سے زائد کشمیری سراپا احتجاج بنتے۔ یوںا‘س سکول کے ہر طالب علم کو نریندرمودی کاکریہہ اور سفاک چہرہ دکھایا جاتا۔ قابض بھارتی افواج کے ہاتھوں پیلٹ گنوں سے اندھے بنا دیئے گئے‘ ان بچوں کی تصویریں‘ لندن سکول آف اکنامکس کے سامنے آویزاں کی جاتیں‘ لیکن نہ جانے کیا وجہ بنی کہ ہمارے سفارت خانے اور ان کی سر پرست خاموش ہیں‘ بلکہ ہمارے کشمیری بھائی بھی چپ رہے اور یہ فریضہ بھارت کے ایک مشہور و معروف قانون دان اور انسانی حقوق سمیت شہری آزادیوں کیلئے اٹھنے والی ایک بے باک آواز پرشانت بھوشن ‘ایڈووکیٹ کی زبان سے سامنا آیا ہے اور اس نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے جنونی اور خونی انتہا پسند ہندو کا چہرہ سب کے سامنے اصل شکل میں پیش کر دیا ۔ جیسے ہی لندن سکول آف اکنامکس کے طالبعلموں اور پروفیسروں کی آنکھوں کے سامنے پرشانت بھوشن نے نریندر مودی کا اصل گھنائونا اور بھیانک اقلیت دشمن چہرہ دکھایا تو تمام طلبا ایک آواز ہو کر سکول انتظامیہ کے پاس پہنچے اور نریندرمودی کو لندن سکول آف اکنامکس کی جانب سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دینے کی پیشکش واپس لینے کا مطالبہ کر دیا۔سکول کے طلبا کا کہنا ہے کہ اگر نریندر مودی کو یہ ڈگری دے دی جاتی تو ہمارے ضمیر زندگی بھرہمیں ملامت کرتے رہتے۔اقلیتوں سے ناروا سلوک اورمقبوضہ کشمیر کے مرد و خواتین اور بچوں پر سفاکانہ ظلم کے علا وہ پرشانت بھوشن نے نریندرمودی کی بے رحمانہ معاشی پالیسوں کا پردہ چاک کرتے ہوئے کئی راز بھی افشا کیے اور یہ ثابت کیا کہ نریندر مودی نے بھارتی میڈیا کو کس طرح کرپٹ کیاہوا ہے اور بھارتی میڈیا کو انتخابات کے دوران کس طرح اور کتنے میں خریدا گیااور انہیں کتنی رشوت دی گئی کہ وہ اپنی زبانیں بند رکھیں۔ انہوں نے اپنیLeaked دستاویز میں نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کا وہ خوف ناک کردار بھی پیش کیا‘ جس میں میڈیا کو دھمکیاں دیتے ہوئے انہیں مسلمانوں سمیت بھارت میں بسنے والی دوسری اقلیتوں کے خلاف من گھڑت قصے کہانیاں اور ہندو دھرم کے خلاف ان کے زیر زمین منصوبوں کی کہانیاں پھیلانے پر آمادہ کیا گیا ۔ ایک ایسی ویڈیو بھی سامنے لائی گئی‘ جس میں امیت شاہ‘ نریندر مودی کی موجو دگی میں یہ کہہ رہا ہے کہ اب؛ اگر کسی بھی مسلمان کی زبان سے مودی جی کے بارے کچھ غلط سنو ‘تو اس کو مجمے کے اندر اُدھیڑ کر رکھ دو۔
سب جانتے ہیں کہ گودھرا گجرات میں بطورِ وزیر اعلیٰ 2300 سے زائد مسلمان مرد عورتوں اور بچوں کو کہیں ذبح کیا گیا تو کہیں بیکری میں بند کر کے پٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا گیا۔ گودھرا کے اس قتل و غارت پر بھارت میں دنیا بھر کے سفارت خانے چیخ اٹھے اور امریکہ سمیت بہت سے ملکوں نے نریندرمودی کو ایک دہشت گرد اور فاشسٹ وزیر اعلیٰ کا خطاب دیتے ہوئے اپنے اپنے ممالک میں اس کا داخلہ بند کر دیا تھا۔ یہ تو بھارتی وزیر اعظم کا عہدہ تھا‘ جس نے ان ممالک کو اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے اپنے ہاں آنے کی اجا زت دے دی اور اب‘جب پرشانت بھوشن نے لندن سکول آف اکنامکس کے طلبا اور انتظامیہ کے علا وہ میڈیا کے سامنے یہ کہا کہ بھارت اور اس کی جمہوریت کیلئے وہ تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا‘ جب بھارتی سپریم کورٹ کے چار انتہائی سینئر جج حضرات نے پریس کانفرنس کے ذریعے نریندر مودی پر الزام لگایا کہ وہ عدالت کے چیف جسٹس کو اپنی حاکمیت اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے تابع کرنے کیلئے انہیں دھمکیاں دے رہاہے اورنریندر مودی کے اس عمل سے بھارت کی جمہوریت اپنے آخری سانسوں پر آن کھڑی ہوئی ہے‘ یعنی جس ملک کی سب سے بڑی عدالت کے چار سینئر ترین جج حضرات‘ میڈیا کے سامنے پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے ملک کے وزیر اعظم کی عدلیہ میں مداخلت کا ثبوت پیش کر دیں‘ جو وزیر اعظم اپنے ملک کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اپنے انتہا پسند ہندو گروہ کے ذریعے سبق سکھانے کی دھمکیاں دینا شروع کر دے‘ ایسے شخص کو لندن سکول آف اکنامکس تو بہت دور کی بات ہے‘ کسی پرائمری سکول کی سند بھی نہیں دی جا سکتی ‘ کیونکہ یہ اس پرائمری سکول اور اس کی سند کی توہین ہو گی۔
پرشانت بھوشن نے بھارتی سپریم کورٹ کے چار سینئر جج حضرات کی پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ30 برس بعد پہلی دفعہ بھارتی الیکشن کمیشن نے2019 ء میں ہوئے انتخابات میں وہ غیر قانونی اور من مانے اقدامات کئے کہ بھارتی جمہوریت اور اس کے انتخابی عمل فضول اور لایعنی ہو کر رہ گیا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی نظام کو اور اس کی دنیا بھر میں پھیلی ہوئی شہرت کو تباہ کرتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کو بظاہر کامیاب تو کرا دیا ہے‘ لیکن ان انتخابات پر اٹھنے والے سوالیہ نشانات‘ بھارت کی تاریخ پر لگے ہوئے ایک سیاہ دھبے کے طور پر کبھی بھی دھوئے نہیں جا سکیں گے۔
پرشانت بھوشن نے مزید کہا کہ لندن سکول آف اکنامکس‘ کسی ایسے شخص کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دینا پسند کرے گا؟ جس پر رافیل طیاروں کی خریداری میں کرپشن کا الزام ہو۔انہوںنے اپنی تقریر میں کہا کہ لمحہ بھر کیلئے فرض کرلیتے ہیں کہ رافیل طیاروں کی خریداری میں نریندرمودی کی کرپشن صرف الزام ہے تو اس سوال کا جواب کون دے گا ‘ جو بھارت اور فرانس کی اپوزیشن جماعتیں بھی پوچھ رہی ہیں کہ سی بی آئی کا ڈائریکٹر جو رافیل طیاروں کے سکینڈل کی تحقیقات کر رہا تھا‘ اسے راتوں رات کیوں تبدیل کیا گیا اگر مودی جی کے ہاتھ صاف ہیں؛ اگر اس نے ایک دھیلے کی بھی کرپشن نہیں کی ‘تو پھر اس کی تحقیقات کرنے والے ڈائریکٹر سی بی آئی کوکیوں تبدیل کیا گیا؟