تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     05-07-2019

سَودا کچھ خاص بُرا بھی نہیں رہا

ون ڈے رینکنگ میں ساتویں نمبر کی ٹیم نے ورلڈ کپ کا سفر شروع کیا تو قوم نے بہت سی امیدیں وابستہ کرلیں۔ یہ امیدیں اہلیت اور سکت سے کچھ زیادہ تھیں‘ مگر خیر توقعات وابستہ کرنے کے معاملے میں ایسی نزاکتوں کا خیال کون رکھا جاتا ہے! 
پاکستان نے پہلے ٹاکرے میں ویسٹ انڈیز سے شکست کھانے کے بعد شاندار کم بیک کیا۔ ون ڈے رینکنگ کی نمبر ون ٹیم انگلینڈ کو خاک چٹائی‘ مگر پھر سری لنکا کے مقابل میچ پر بارش نے پانی پھیر دیا۔ آسٹریلیا اور بھارت سے ہارنے پر امکانات کا چراغ ٹمٹمانے لگا۔ لازم ہوگیا کہ باقی تمام میچ جیتے جائیں۔ جنوبی افریقہ‘ نیوزی لینڈ اور افغانستان کو پچھاڑنے کے بعد پاکستان نے اپنے لیے امکانات کی شمع روشن رکھی۔ 
کھیلوں کے مقابلوں ‘یعنی ایونٹس میں آگے جانے کا مدار اپنی فتح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی شکست پر بھی ہوا کرتا ہے۔ پوائنٹس ٹیبل پر یومیہ بنیاد پر ہونے والی تبدیلیوں کے پیش نظر سیمی فائنل تک پاکستان کی رسائی کے لیے آخری مرحلے میں لازم ہوگیا کہ انگلینڈ ہار کر کمزور پڑے۔ 30 جون کو خوب تماشا ہوا۔ ٹورنامنٹ کی ناقابلِ شکست ٹیم بھارت نے انگلینڈ کے سامنے ایسی بیٹنگ اور بولنگ کی گویا وہ بکری ہو اور اُس کے سامنے شیر آگیا ہو! سیمی فائنل کی دوڑ میں شامل رہنے کے لیے اس میچ میں انگلینڈ کا فتح یاب ہونا ناگزیر تھا۔ اور ایسی صورت میں پاکستان کے امکانات کا گراف بھی نیچے آتا۔ یہ گراف نیچے لانے میں بھارت نے پوری توجہ کے ساتھ بھرپور کردار ادا کیا۔ اس کردار کا ادا کیا جانا افسوس ناک ضرور تھا‘ حیرت انگیز یا غیر متوقع نہیں۔ پاکستان کے بیشتر کرکٹ پریمی اندازہ لگاچکے تھے کہ بھارت یہ میچ بہت پریم سے پلیٹ میں رکھ کر انگلینڈ کی نذر کرے گا۔ بھارت نے ''جسم کی زبان‘‘ اور تاثرات کے معاملے میں محتاط رہنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی! 
بھارت کا بغل بچہ بنگلہ دیش بھی آگے جانے کے لیے پر تول رہا تھا اور شاید اُس نے بھی سوچ لیا ہو کہ ''ترنگے بھیا‘‘ اُس کے امکانات کی کشتی کو بھی ڈوبنے سے بچانے میں کوئی کردار ادا کریں گے۔ بڑے بھیا سمجھدار نکلے۔ 2 جولائی کو‘ اگر وہ بنگلہ دیشی ٹائیگرز کے مقابل بھی ''بکری‘‘ بن جاتے تو معاملہ کچھ زیادہ ہی کُھل جاتا! 
خیر‘ 3 جولائی کو بھی وہی ہوا‘ جس کا خدشہ پاکستانیوں کے ذہنوں میں پنپ رہا تھا۔ انگلینڈ کے مقابل اپنا آخری میچ ہارنے کی صورت میں نیوزی لینڈ کے 11 پوائنٹس ہوتے ‘مگر رن ریٹ میں بلند ہونے کی بنیاد پر اُس کے لیے سیمی فائنل تک رسائی روزِ روشن کی طرح واضح اور ممکن تھی۔ نیوزی لینڈ نے بھی بھارت کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انگلینڈ کو میچ دیا ‘مگر پہلے اس بات کا اطمینان کرلیا کہ 5 جولائی کو بنگلہ دیش کے مقابل میچ میں پاکستان کی فتح بھی اُس کی راہ میں دیوار نہ بنے! 
سب نے مل کر پاکستان کو ایک ایسے مقام پر چھوڑا ہے‘ جہاں ایک طرف پہاڑ ہے اور دوسری طرف کھائی۔ یہ سب کچھ اتنے بھونڈے انداز سے کیا گیا ہے کہ پوری دنیائے کرکٹ نے شدت سے محسوس کیا ہے۔ کھیل محض کھیل ہی ہوتا ہے‘ مگر مالی و سفارتی مفادات کی جنگ نے اسے کچھ کا کچھ بنادیا ہے۔ کرکٹ سے معمولی سا شغف رکھنے والا عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے کہ ہوا کیا ہے۔ 
کیا پاکستان نے انجانے میں کسی بڑی دُم پر پاؤں رکھ دیا تھا؟ کیا کرکٹ کے بڑوں کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ پاکستان نے پہلے تو ون ڈے کی ٹاپ ٹیم کو اور پھر ٹورنامنٹ کی ناقابلِ شکست چلی آرہی ٹیم کو ہرایا؟ کیا بھارت کو یہ بات نہیں بھائی کہ سیمی فائنل میں پاکستان اُس کے مقابل ہو؟ یا گوروں کو ایک ناپسندیدہ کالی ٹیم کا گِرنے کے بعد اُٹھنا اچھا نہیں لگا؟ بھارت بھی کالی ٹیم ہے‘ مگر آئی سی سی کے گوروں کو اس لیے پسند ہے کہ کماؤ پُوت ہے! مارکیٹ ہاتھ سے نہ نکلے‘ اسی خیال سے 1992ء کے بعد سے اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ بھارت (میرٹ سے قطع نظر) ورلڈ کپ اور دیگر بڑے ٹورنامنٹس کے سیمی فائنل تک ضرور پہنچے۔ 2003ء کے ورلڈ کپ فائنل میں بھارت کو عبرت انداز سے شکست دے کر آسٹریلیا نے دنیا کو بتادیا کہ اس ٹیم کی کوئی اوقات نہ تھی‘ اِسے اوپر آنے دیا گیا تھا! 
پاکستان سے خار کھانے کے معاملے میں بھارت تنہا نہیں۔ پہلے بنگلہ دیش اُس کے ساتھ ہولیا۔ اب افغانستان بھی اس میدان میں تشریف لاچکا ہے۔ 29 جون کو پاکستان سے میچ کے دوران افغان تماشائیوں نے جو کچھ کیا ‘وہ کرکٹ کی روایات کے حوالے سے انتہائی شرم ناک تھا۔ پاکستان سے خار کھانے کے معاملے میں افغان تماشائیوں نے اپنے بھارتی اور بنگلہ دیشی ''کاؤنٹر پارٹس‘‘ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ 
ایک عشرے سے بھی زائد مدت کے دوران انٹر نیشنل کرکٹ میں پاکستان کا گلا گھونٹنے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ مغربی دنیا کی ٹیموں کا تو ذکر ہی کیا‘ خطے کی ٹیموں نے بھی پاکستان آنے سے انکار کر رکھا ہے۔ بہانہ یہ ہے کہ حالات خراب ہیں۔ ایسے خراب حالات اور بہت سے ممالک میں بھی ہیں ‘مگر وہاں جانے سے تو گریز نہیں کیا جارہا۔ بھارت کی شہ پر اب بنگلہ دیش اور افغانستان بھی اپنی کرکٹ ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکاری ہیں۔ بھلا ہو‘ سری لنکا کا‘ جس نے اس نازک مرحلے میں ہمارا خوب ساتھ دیا ہے۔ پاکستان کیا‘ ایسے ماحول میں تو کسی بھی ٹیم کا مورال خطرناک حد تک گِر سکتا ہے۔ اللہ کا احسان یہ بھی ہے کہ اتنے حوصلہ شکن حالات کے باوجود قومی کرکٹ ٹیم کا مورال بہت زیادہ نہیں گِرا۔ ایک کمزور ٹیم کے ساتھ ورلڈ ایونٹ میں پہنچنے پر بھی ہم کسی نہ کسی طور سیمی فائنل کی دوڑ میں شریک رہے ہیں۔ اسے بہت گئی گزری کارکردگی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہاں‘ خامیاں اور کوتاہیاں ہیں جو دور کی جانی چاہئیں۔ قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا جانا چاہیے‘ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُنہیں مٹی کا ڈھیر قرار دے دیا جائے۔ ٹی وی سٹوڈیوز میں بیٹھے ہوئے تجزیہ کاروں کو سرفراز الیون پر تنقید و تنقیص کے ڈونگرے برساتے ہوئے زبان قابو میں رکھنی چاہیے۔ ملک میں جو ٹیلنٹ پایا جاتا ہے‘ وہی قومی ٹیم تک پہنچتا ہے۔ ابتدائی مرحلے میں ٹیم خراب بھی کھیلی اور چند غلط فیصلوں نے بھی مسائل پیدا کیے۔ ٹیم نے کم بیک تو بہرحال کیا۔ 
قوم یاد رکھے کہ سازش کے ماحول میں تو کوئی بھی ٹیم آگے نہیں جاسکتی۔ آج لوگ کہہ رہے ہیں کہ پہلے ٹاکرے میں ؛اگر ویسٹ انڈیز کو ہرا دیتے تو آج قومی ٹیم اس الجھن میں نہ ہوتی۔ سوال‘ اگر سے زیادہ‘ مگر کا ہے۔ یاد رکھیے؛ اگر ہم ویسٹ انڈیز کو ہرادیتے تب بھی سیمی فائنل تک نہ پہنچ پاتے ... اگر‘ ہمیں ہر حال میں سیمی فائنل تک روکنے کا طے کر ہی لیا گیا تھا! ایسی صورت میں بھارت ہمیں نیچا دکھانے اور سیمی فائنل کی دوڑ سے باہر رکھنے کے لیے انگلینڈ کی طرح بنگلہ دیش کو بھی میچ تھما دیتا! 
کھیلوں سمیت تمام شعبوں میں اس قوم سے جو سلوک روا رکھا جارہا ہے‘ موجودہ ورلڈ کپ سے اخراج یقینی بنانا اُس کی معمولی سی جھلک ہے۔ اپنی خامیاں اور کوتاہیاں اپنی جگہ‘ مگر جب ایک دنیا پیچھے پڑی ہو تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ قوم زیادہ بددل نہ ہو۔ یہ ورلڈ کپ ہمارے لیے کچھ زیادہ بُرا سودا نہیں رہا۔ کل‘ اگر بنگلہ دیش کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے تو قومی ٹیم پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں پوزیشن کے ساتھ کچھ زیادہ قابلِ تنقید و تنقیص نہیں سمجھی جانی چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved