سب کامیابیاں اور سب ناکامیاں آدمی کے داخل سے پھوٹتی ہیں۔ آبادی یا بربادی‘ ہر گروہ‘ خود ہی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ کتاب میں لکھا ہے: آدمی کے لیے اتنا ہی جتنی اس نے کوشش کی مگر کتاب پہ کون سوچتا ہے۔ کون غور کرتا ہے؟ کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں جیسی شاندار انتخابی مہم اس نے برپا کی‘ عمران خان کے گرد اگر خوشامدیوں نے گھیرا نہ ڈال رکّھا ہوتا؟ اگر وہ سمجھ سکیں کہ سب سے اہم مرحلہ ووٹر کو پولنگ سٹیشن تک لے جانا ہے۔ اگر پارلیمانی پارٹی کے ارکان‘ پوری تصویر دیکھ سکتے؟ زندگی کو سمجھنا ہو تو زمین کی پستی نہیں‘ آسمان کی بلندی سے نظر ڈالتے ہیں۔ ترجیحات طے کرنا ہوتی ہیں۔ غیر اہم اور لایعنی پر توانائی برباد نہیں کی جاتی۔ برسوں پہلے معراج محمد خان کو اس نے سیکرٹری جنرل بنایا تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔ تھکا ہوا بوڑھا آدمی۔ مالی طور پر دیانت دار ہو شاید! مگر اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔ مسلمانوں کا لیڈر وہ ہوتا ہے‘ جو اللہ پر بھروسہ کرے۔ سارا دن وہ بھٹو کے قصیدے گایا کرتے۔ مطالعے سے محروم اس شخص کی زندگی میں ایک ہی بڑا آدمی بستا تھا۔ اس قدر مرنے والے سے اس کا قیدی مرعوب تھا کہ اس کے سوا اور اس سے الگ وہ کچھ دیکھ ہی نہ سکتا۔ یہ وہ لوگ ہیں۔ وہ لوگ‘ جن کا خیال یہ ہے کہ سیاست میں عوامی جذبات کی آگ بھڑکانا ہی سب سے بڑا ہنر ہے‘ چالاکی ایک متاعِ عظیم ہے۔ دنیا بدل گئی مگر وہ نہ بدلے۔ تصویرِ لیلیٰ ہودج نشیں تھی لیلیٰ نہیں تھی کیا ڈھونڈتا تھا شوقِ نظارہ محمل بہ محمل 1997ء میں کپتان سے میں نے کہا: کیسا الیکشن‘ پارٹی کا ڈھانچا ابھی بنا نہیں اور دولت کا بے دریغ استعمال ہونے والا ہے۔ بولا: ایک دن میرے ساتھ رہو‘ تمہیں اندازہ ہو کہ خلق خدا ہم پہ کس قدر مہربان ہے۔ صبح سویرے اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے ہیلی کاپٹر میں ہم اُڑے۔ بی بی سی ٹیلی ویژن کی ایک ٹیم اچانک آ پہنچی کہ انگلستان میں وہ مقبول ہے۔ اس نے انکار کردیا۔ ’’پہلے سے وقت کیوں طے نہ کیا‘‘۔ مشکل سے وہ آمادہ ہوا مگر یہ کہا: میرے ساتھ والی نشست پر ان میں سے کوئی نہ بیٹھے۔ سارا دن وہ سوتا رہا۔ ہیلی کاپٹر کے کیپٹن سے پوچھتا: کیا یہ پرواز‘ 21 منٹ کی ہوگی؟ انیس منٹ نیند کے مزے لوٹتا۔ ایک آدھ منٹ پہلے خود ہی جاگ اٹھتا۔ بڑا مجمع میانوالی میں تھا۔ کچھ اونٹوں والے بھی۔ زیادہ سے زیادہ مگر دو اڑھائی ہزار۔ چند روز تک جائزہ لینے کے بعد دو ٹوک الفاظ میں اس سے کہا کہ بائیکاٹ ہی واحد راستہ ہے۔ وہ مان گیا اور کہہ دیا کہ اخبارات کے لیے بیان لکھ ڈالوں۔ پھر کیا ہوا؟ اس کے حاشیہ نشیں غالب آ گئے۔ وہ لوگ‘ جن کی شناخت کسی بڑے آدمی کی قربت کے سوا کچھ نہیں ہوتی‘ باقی تاریخ ہے۔ یہ 2002ء کا موسمِ بہار تھا۔ آخرِ شب سونے والا آدمی صبح سویرے اس کے گھر پہنچا اور یہ کہا: پرویز مشرف تمہیں دھوکہ دے رہا ہے‘ وہ کبھی تم ایسے آزاد آدمی کو وزیراعظم نہ بنائے گا۔ مان کر بھی وہ نہ مانا۔ دلیل اس کے پاس نہ تھی۔ نظرثانی کا وعدہ کیا مگر وعدہ ہی۔ ریفرنڈم کے دنوں میں‘ میں چیختا رہا کہ ہرگز ہرگز اس کی حمایت نہ کرنا۔ مگر وہ خوشامدی‘ مگر وہ طفیلی۔ ان کا خیال یہ تھا کہ سرکار کی سرپرستی میں وہ الیکشن جیتیں گے اور ان کے قد اونچے ہو جائیں گے۔ نوسربازوں کو شریک اقتدار کرنے کے مشرف ارادے پر جنرل سے اس کا جھگڑا ہوا تو وہ سب کے سب بگٹٹ بھاگے۔ اس وقت کس نے اس کا ساتھ دیا؟ بخدا کبھی ایک پل کو میں نے یہ نہیں سوچا کہ میں نے اس پر کوئی احسان کیا۔ احسان کیسا۔ ایک اُجلے خواب کی شراکت داری بجائے خود ایک نعمت تھی اور ان دنوں کی یاد ہمیشہ میرے دل میں پھول کھلاتی رہے گی۔ جدید صحافت کی پوری تاریخ میں مگر دوسرا کوئی واقعہ نہیں کہ بھاڑے کے سینکڑوں ٹٹوئوں اور ہزاروں لاتعلق بلکہ بیزار دانشوروں کے درمیان کسی ایک اخبار نویس نے ڈٹ کر پورے سولہ برس تک کردار کشی کے ہدف‘ ایک لیڈر کا دفاع کیا ہو۔ جب وہ بگڑا تو سب کچھ بھول گیا۔ جو پیغام اس نے مجھے بھیجا‘ اگر میں نقل کردوں تو لوگ انگشت بدنداں رہ جائیں۔ اس بات پر وہ مجھ سے ناراض ہوا کہ چمچے اور اٹھائی گیر قسم کے لوگ‘ کم نام یا بدنام امیدواروں کے لیے بضد تھے۔ ان میں سے کسی کے جیتنے کا سوال ہی نہ تھا۔ جن کی حمایت میں دلائل اس ناچیز نے دیئے‘ ان میں سے کوئی میرا رشتہ دار نہ تھا‘ نہ دوست۔ بہت دن پہلے بتا دیا تھا کہ اقتدار میں میرے قبیلے کے لوگ شریکِ اقتدار نہ ہوں گے۔ خوشامدی مگر جان گئے۔ انہوں نے صف بندی کر لی کہ ان لوگوں کے ہوتے‘ ہماری دال نہ گلے گی۔ وہ‘ جو سمندر پار پاکستانیوں سے تحائف وصول کرتے تھے‘ بڑے بڑے تحائف۔ احسن رشید نے ایک بار کپتان سے کہا تھا: تحقیق تو کرو‘ ان لوگوں کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟ جولائی 2011ء کے جلسے میں فیصل آباد کے حیران کن اجتماع نے 30 اکتوبر 2011ء کے تاریخ ساز جلسے کی بنیاد فراہم کی۔ اس میں لائوڈ سپیکر پر ان لوگوں نے پانچ لاکھ روپے صرف کیے۔ طارق چودھری نے صاف کہا: صرف سوا لاکھ۔ اس کے بھی وہ دشمن ہو گئے۔ ہر ہوش مند آدمی کے مخالف۔ ٹکٹوں کی تقسیم کا وقت آیا تو وہ پہلے ہی تیاری کر چکے تھے۔ ذرا معلوم تو کیجیے گجّر خان کے ف ف اور این اے 177 کے تھگڑی قریشی کا حال کیا ہے؟ جہلم کا چوہان بیچارہ بیمار آدمی‘ کیا خاک وہ الیکشن لڑے گا؟ دنیا کی کوئی طاقت کپتان کو ہرا نہ سکتی‘ چمچوں نے اس کی متاع کا ایک حصہ لوٹ لیا۔ بھاگ ان بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی بیچ ہی دیویں جو یوسف سا برادر ہووے سوات میں فوجی آپریشن کی مخالفت سے‘ میں اسے روکتا رہا؟ اب بھی وہ سمجھ نہیں پایا۔ امریکی استعمار پر ہزار بار لعنت‘ روس کی طرح وہ بھی افغانستان میں خوں ریزی کا بنیادی ذمہ دار ہے‘ دہشت گرد بھی۔ لیکن عفریت ہیں۔ 40 ہزار پاکستانی انہوں نے قتل کر ڈالے ہیں۔ لاکھوں ان کے عزیز و اقارب۔ کیا وہ فیصلہ کن ثابت نہ ہوں گے؟ آگ کسی اور نے لگائی اور پڑوس کے مکان میں لیکن ہمارے گھر تک وہ آ پہنچی ہے۔ کیا اب ہم اسے بجھانے کی کوشش نہ کریں؟ جواں سال‘ ایثار کیش کارکن مجھے ملتے ہیں تو روتے ہیں۔ خدا کے لیے اس کی مدد کرو۔ جو کچھ مجھ سے بن پڑا میں نے کیا اور اب بھی کر رہا ہوں۔ خدا کا شکر ہے کہ بے ریا اور ایثار کیش نوجوانوں کی وجہ سے ایک لہر اٹھی اور پھیلتی جا رہی ہے۔ خیر خواہوں کی سنی ہوتی تو یہی لہر بے کراں ہو جاتی۔ سارے جعل ساز جس میں ڈوب مرتے۔ اسے بتایا کہ سمندر پار پاکستانی اس کے حق میں سب سے بڑی طاقت ہیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ان کے ووٹ شمار ہونے چاہئیں۔ کیا چیز مانع تھی کہ وہ ایک تحریک اٹھا دیتا؟ کم از کم دس لاکھ ووٹوں کا فرق پڑتا ہے‘ شاید چالیس پچاس نشستوں کا! ممکن ہے کہ بیس لاکھ تک۔ صداقت عباسی ایسے شخص کے لیے‘ پٹواری بننے کے آرزو مند ایک بے تکے سے آدمی کے لیے اس نے درویش سے منہ پھیرا۔ خوش قسمت ہو تو اب بھی گجّر خان چلا جائے۔ دبائو اسے جاری رکھنا چاہیے کہ مشکوک اور بوڑھے الیکشن کمیشن کو عدالت عظمیٰ کا فیصلہ تسلیم کرنا پڑے۔ حیران کن کامیابی تو اب ممکن نہیں مگر اب بھی ظفر مند وہ ہو سکتا ہے۔ کارکن اگر ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹا سکیں۔ نوازشریف کے مقابل ڈاکٹر یاسمین راشد کے ووٹ بس ذرا سے کم ہیں۔ کئی اور حلقے بھی اسی طرح کے۔ مصنوعی احسن اقبال کے مقابلے میں اصلی ابرارالحق‘ انشاء اللہ ٹھاٹھ سے جیتے گا۔ اللہ اس کی مدد کرے۔ سب کامیابیاں اور سب ناکامیاں آدمی کے داخل سے پھوٹتی ہیں۔ آبادی یا بربادی‘ ہر گروہ‘ خود ہی اس کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ کتاب میں لکھا ہے: آدمی کے لیے اتنا ہی جتنی اس نے کوشش کی مگر کتاب پہ کون سوچتا ہے۔ کون غور کرتا ہے؟ کتاب خواں ہے مگر صاحبِ کتاب نہیں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved