تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     07-07-2019

سانول موڑ مہاراں…

ویک اینڈ پر کبھی کبھار عامر متین کے گھر محفل جم جاتی ہے۔
اس دفعہ عامر متین نے کہا، سرمد صہبائی آرہے ہیں، تم بھی آجانا ۔ سرمد صہبائی سے پہلی ملاقات بھی عامر متین کے گھر ہی کئی برس پہلے ہوئی تھی۔ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن سے پہلی ملاقات میں آپ ان کا ایسا اثر قبول کرتے ہیں کہ وہ برسوں بعد بھی نہیں جاتا ۔ سرمد صہبائی بھی ان چند لوگوں میں سے ہیں۔ وہ ایک خوبصورت کمپنی ہیں اور آپ ان کے ساتھ گھنٹوں گزاریں تو بھی کبھی بور نہ ہوں ۔ وہ نہ صرف ایک اعلیٰ پائے کے شاعر ہیں بلکہ کلاسک میوزک پر بھی کمانڈ رکھتے ہیں ۔ اس سے پہلے میرے دوست محمد شہزاد نے بھی ان کا ذکر ہمیشہ محبت سے کیا ۔
جب میں عامر متین کے گھر پہنچا تو میرا خیال تھا وہاں کافی لوگ ہوں گے کیونکہ عامر متین ایک مہمان نواز انسان ہیں جن کے گھر ہر وقت درجن بھر دوست نہ ہوں تو شاید وہ رات کو سوتے نہیں ۔ ان کا دستر خوان بہت وسیع ہے لہٰذا وہاں صرف سرمد صہبائی اور نصرت جاوید کو دیکھ کر کچھ حیرانی ہوئی ۔ عامر مجھے دیکھ کر کہنے لگے، ہم نے سوچا کہ صرف دو تین دوست بیٹھتے ہیں اور سرمد صہبائی کی کمپنی کو انجوائے کرتے ہیں۔ کچھ دیر بعد محمد مالک نے بھی جوائن کر لیا ۔ میں سرمد صہبائی کو کہنے لگا، سرجی آج کل میں ادبی رسالے نقوش کے پرانے شمارے پڑھ رہا ہوں اور ستر کی دہائی کے شماروں میں آپ کی نظمیں چھپی ہوئی ہیں ۔ ویسے ادب پر جتنا کام نقوش کے ایڈیٹر محمد طفیل نے کیا تھا وہ شاید پاکستانی تاریخ میں کبھی کسی نے نہیں کیا ہوگا ۔ میں نے کہا، میرے بس میں ہوتا تو محمد طفیل کے مجسمے بنواتا تاکہ آنے والی نسلوں کو پتہ چلتا کہ اس اکیلے بندے نے ادب کیلئے کیا کام کیا تھا ۔ 
عامر متین کے گھر کم رش دیکھ کر میں نے ہنس کر کہا ،لگتا ہے آخر آپ کو بھی صحافت نے اکیلا کر دیا ۔ مجھے یاد آیا جب چار برس قبل عامر متین نے میرے ساتھ پروگرام کرنے پر ہامی بھری تھی تو ایک دن میں، عامر متین اور ارشد شریف اپنے دوست سینیٹر انور بیگ کے گھر سے آرہے تھے جب عامر متین مجھے کہنے لگے کہ مجھے آپ اور ارشد شریف کی جمہوریت سے متعلق رائے پر اختلاف ہے اور اس کا اظہار میں کھل کر شو میں کروں گا ۔ میں ہنس پڑا اور بولا ،آپ کو کون روک سکتا ہے۔ آپ ضرور کریں ۔ مجھے اندازہ تھا کہ عامر متین پارلیمنٹ کی انگریزی ڈائری لکھتے تھے لہٰذا ان کا جہاں سیاست کی رپورٹنگ کا تجربہ تھا وہیں سیاست کو جج کرنے کی مہارت بھی تھی ۔ پھر پارلیمنٹ کی ڈائری لکھتے لکھتے بہت سارے سیاستدانوں سے دعا سلام ہوجاتی ہے۔
خیر جونہی عامر متین نے پروگرام شروع کیا ، انہیں احساس ہوا کہ جو وہ سوچتے تھے وہ مختلف تھا ۔ ان کی گفتگو میں سختی آتی گئی اور پھر ایک
ایک کر کے وہ سب سیاسی دوست ان کے سامنے ایکسپوز ہوتے گئے اور ایک دن انہوں نے مجھے ہنستے ہوئے کہا ،آپ کے پروگرام کی وجہ سے کوئی میرا دوست نہیں بچا۔ سب ایک ایک کر کے ناراض ہوگئے ہیں ۔ میں نے ہنس کر کہا :سرجی ،پروگرام کی وجہ سے وہ سب آپ پر ایکسپوز ہوتے گئے۔
خیر اس محفل کی جان سرمد صہبائی تھے۔ مجھے پہلی بار پتہ چلا انہیں کلاسک میوزک پر بھی کمانڈ ہے۔ نصرت جاوید اور عامر متین بھی کلاسک میوزک کی سمجھ رکھنے والوں میں شامل ہیں ۔ میرا کلاسک میوزک سے زیادہ تعارف نہیں رہا لیکن جس طرح کی گفتگو عامر متین، نصرت جاوید اور سرمد صہبائی کے درمیان ہورہی تھی، اس کے بعد میں بھی اس میں دلچسپی لینے پر مجبور ہوگیا ۔ 
پٹیالہ اور شام چوراسی گھرانوں پر ہونے والی گفتگو نے مجھے محو کررکھا تھا ۔ اس دوران سرمد ماضی میں کھو گئے اور کہنے لگے، استاد نزاکت علی خان بھی کیا استاد تھے۔ انیس سو اسی کی دہائی میں سرمد جب فوک اکیڈمی کے سربراہ کے طور پر کام کررہے تھے تو ایک دن انہیں پی ایس نے بتایا کہ ایک صاحب استاد نزاکت علی خان وہاں آئے ہوئے تھے۔ استاد صاحب کی خدمت میں پانچ ہزار روپے پیش کیے تاکہ وہ اپنے مشکل دن گزار سکیں ۔ کچھ عرصے بعد استاد نزاکت پھر ان کے دفتر آئے تو بھی یہی عمل دہرایا گیا۔ استاد نزاکت نے دفتر کے اہلکاروں سے پوچھا :یہ کون صاحب ہیں جو ہمارے جیسے بھولے بسرے کلاسک گھرانوں کا خیال رکھتے ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ سرمد صہبائی ہیں۔ اگلے دن وہ سرمد صہبائی کے گھر شکریہ ادا کرنے گئے تو انہیں اندر عزت سے بٹھایا ۔ استاد نزاکت علی خان کی نظر گھر میں پڑے ہارمونیم پر پڑی تو پوچھا :آپ بھی شوق رکھتے ہیں ۔ سرمد صہبائی نے شرما کر کہا ،جی کبھی کبھار شغل کر لیتے ہیں ۔ استاد نزاکت نے کہا، پھر کچھ سنائیں ۔ سرمد صہبائی نے ایک راگ الاپنا شروع کیا تو استاد چپ کر کے سنتے رہے۔ کچھ دیر بعد استاد نے انہیں گائیڈ کرنا شروع کردیا کہ کس راگ کو کس طرح گانا ہے۔ اور سرمد صہبائی کے بقول انہیں احساس ہوا کہ استاد کی ایک نظر اور تصحیح کیا اثر رکھتی ہے۔ سرمد صہبائی نے ، عامر متین، مجھے اور نصرت جاوید کو چالیس برس پہلے والا وہ راگ سنایا جو انہوں نے استاد نزاکت علی خان کو سنایا تھا اور پھر استاد کی تصحیح کے بعد جو راگ گایا تھا ،وہ بھی سنایا ۔ ان دونوں کا فرق اتنا خوبصورت تھا کہ ہم سب داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ 
کچھ دنوں بعد پتہ چلا کہ استاد سلامت علی خان اور نزاکت علی خان کے درمیان کسی بات پر چپقلش ہوگئی ہے۔ استاد نزاکت ان کا گھر چھوڑ کر آگئے۔ ان کے پاس کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔ سرمد صہبائی نے کہا: آپ میرے گھر رہیں ۔ اور یوں تین سال تک استاد نزاکت علی خان ان کے گھر پر رہے اور سرمد صہبائی اتنے بڑے استاد سے سیکھتے رہے۔ 
سرمد صہبائی ہمیں استاد نزاکت علی خان کی باتیں سنا رہے تھے اور ان کی آنکھوں میں اپنے استاد کے لیے جو پیار، احترام اور عقیدت تھی ان سے میں متاثر ہوئے بغیر نہ ہوسکا ۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ تیس چالیس سال بعد بھی بندہ اپنے استاد سے وہ عقیدت رکھ سکتا ہے جو اس وقت سرمد صہبائی میں نظر آرہی تھی ۔ 
عامر متین کہنے لگے کہ استاد سلامت علی خان اور استاد نزاکت علی خان کی بھارت میں جتنی عزت اور قدر کی جاتی ہے اس کا پاکستان میں کسی کو علم نہیں ۔ ایسے استاد ان کے لیے بھگوان کا درجہ رکھتے تھے۔ اتنی دیر میں عامر نے یو ٹیوب پر استاد سلامت علی خان اور استاد نزاکت علی خان کے راگ لگا دیے۔ سکرین پر اپنے استاد نزاکت علی خان کی تصویر دیکھ کر پھر سرمد صہبائی کی آنکھوں میں ایک پیار ابھرا ۔ جب دونوں بھائی گانے لگے تو فوراً بولے یہ فلاں آواز استاد کی ہے۔ 
اتنی دیر میں عامر نے ایک اور ویڈیو لگائی جس میں استاد سلامت علی خان ایک محفل میں بہت بڑے بڑے دیگر کلاسک اورمشہور گلوکاروں کے ساتھ ایک محفل میں شریک تھے اور راگ گا رہے تھے۔ وہ صرف راگ نہیں گا رہے تھے بلکہ انہیں سمجھا بھی رہے تھے جیسے استاد بچوں کو سکھاتا ہے کہ کیسے گایا جاتا ہے۔ 
استاد سلامت علی خان کی یہ ویڈیو خواجہ فرید کی کافی گانے کی تھی ۔ اس محفل میں وہ سمجھا رہے تھے کہ اسے کیسے گانا ہے اور انہوں نے اسے ملتانی زبان کہا ۔ عامر نے ہنس کر مجھے تنگ کرنے کے لیے کہا :استادسلامت علی خان خواجہ کی کافی کو ملتانی کہہ رہے ہیں سرائیکی نہیں ۔ اتنی دیر میں استاد سلامت علی خان نے خواجہ کی کافی گانا شروع کی۔
سانول موڑ مہاراں... پہلے اسے ایک دفعہ گایا اور پھر رک گئے۔ کہنے لگے: سانول کو صرف بلانا نہیں بلکہ اسے واپس بلانا ہے۔ استاد سلامت علی خان خواجہ کی کافی گاتے اور سمجھاتے رہے کہ سانول کو کیسے واپس بلانا ہے۔ آواز میں کتنا ترلہ لانا ہے اور ترلہ کرنا ہے کہ روٹھا سانول لوٹ آئے۔ رات ڈھلتی رہی ۔ استاد سلامت علی خان کی آواز میں وہ درد ابھرتا رہا ۔
تتی رو رو واٹ نہاراں... سانول موڑ مہاراں 
( میں رو رو سوختہ جان ہو کر تیری راہیں تک رہی ہیں، کبھی تو اپنے اونٹ کی مہار میری طرف موڑ لے) 
رات گہری ہوتی رہی ۔ استاد سلامت اور استاد نزاکت علی خان کے راگ کے سحر میں ہم چاروں خاموش اور کہیں دور گم ہو گئے۔ سرائیکی کے عظیم شاعر خواجہ فرید کی کافی اوپر سے استاد سلامت علی خان کی کلاسک آواز اور ہارمونیم کے سحر میں گم، اداس ہو کر سوچتا رہا کہ جو سانول ایک دفعہ چلے جائیں وہ کب واپس آتے ہیں ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved