میری شادی قریب ہے، تفصیلات نہیں بتا سکتا: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''میری شادی قریب ہے، تفصیلات نہیں بتا سکتا‘‘ کیونکہ اگر بتا دیں تو میرے سسرال والوں کو میرے اور والد صاحب کے کارنامے بتا کر شادی میں رکاوٹ ڈالی جا سکتی ہے اور اگر انہیں معلوم ہو گیا کہ میں بہت جلد اندر ہونے والا ہوں تو شادی ایک سہانا خواب بن کر رہ جائے گی اور شادی ایک بار ہو جائے، اُس کے بعد سب کچھ ظاہر ہو بھی گیا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ اسے اپنی بدقسمتی سمجھ کر خاموشی اختیار کر لیں گے اس لیے میں اتنا بیوقوف نہیں ہوں کہ شادی کی تفصیلات بتا کر آ بیل مجھے مار کی صورت حال پیدا کرتا پھروں اور اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مار لوں حالانکہ کلہاڑی پاؤں پر مارنے کے لئے نہیں ہوتی کہ اس سے کئی دیگر مفید کام بھی لئے جا سکتے ہیں کیونکہ اس کا اصل کام تو لکڑیاں کاٹنا ہے اور لکڑ ہضم پتھر ہضم کے لئے لکڑی کو ٹکڑوں میں کاٹ کر ہی کھایا جاتا ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
حکومت کو اصلی خوف نواز شریف کے پیچھے
کھڑی عوامی طاقت کا ہے: مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''حکومت کو اصلی خوف نواز شریف کے پیچھے کھڑی عوامی طاقت کا ہے‘‘ جو ہاتھوں میں لاٹھیاں ڈنڈے پکڑے جیل تک جاتے ہیں اور انہیں اندر نہیں جانے دیا جاتا کہ گزشتہ ادوار میں جو سلوک عوام کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے اور جس کے نتائج آج کھل کر سامنے آ رہے، عوام انہیں کبھی فراموش نہیں کر سکتے اور اسی لئے وہ جیل سے نکل کر لندن جانا چاہتے ہیں کہ عوام کے غیظ و غضب سے بچے رہیں بلکہ کئی لوگ تو لندن تک اُن کا پیچھا کرنے کو تیار ہیں اس لئے حکومت کو خوف ہے کہ عوام کہیں نواز شریف کا غصہ اس پر نہ نکالنا شروع کر دیں حالانکہ عوام کو اس قدر بے انصافی سے کام نہیں لینا چاہیے کہ واردات کسی اور کی ہو اور وہ اپنا غصہ کسی اور پر نکالتے رہیں کہ یہ انتہائی نامناسب بات ہے۔ آپ اگلے روز منڈی بہاؤ الدین میں جلسہ کی اجازت نہ ملنے پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
ملک میں قیادت کا خلا صرف ہم پورا کر سکتے ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ملک میں قیادت کے خلا کو صرف ہم پورا کر سکتے ہیں‘‘ جبکہ خاکسار کے جملہ اعضا ٹھیک ٹھاک کام کر رہے ہیں اور ان میں کبھی کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی، اس کے علاوہ روزانہ اور بلاناغہ بیان دینے میں بھی میرا کوئی ثانی نہیں ہے، بیشک اخبارات اٹھا کر دیکھ لیں اور شیروانی پہن کر میں بنا بنایا وزیراعظم لگتا ہوں جبکہ اس کا حلف بھی میں نے زبانی یاد کر رکھا ہے اور فرفر سُنا بھی سکتا ہوں آزمائش شرط ہے، علاوہ ازیں موقعہ محل کی مناسبت سے یوٹرن بھی لے سکتا ہوں، غرضیکہ وزرات عظمیٰ کے جملہ لوازمات سے مکمل طور پر لیس ہوں بلکہ حلف اٹھانے کے بعد عوام سے خطاب کرنے کے لئے پہلی تقریر بھی تیار کر رکھی ہے اس لئے اگر اب بھی مجھے وزیراعظم نہ بنایا گیا تو ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کوئی نہیں ہو سکتی اور قیادت کا یہ خلا اسی طرح موجود رہے گا۔ آپ اگلے روز میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
جھوٹے مقدمات بنا کر عوام کو کیا پیغام دے رہے ہیں: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''جھوٹے مقدمات بنا کر عوام کو کیا پیغام دے رہے ہیں‘‘ اور حکومت کی اس سے بڑی بدحواسی اور کیا ہو سکتی ہے کہ سچے مقدمات کی بجائے جو ڈھیروں کی تعداد میںموجود ہیں، منشیات کا مقدمہ قائم کر دیا جائے جس سے رانا ثنا کے ساتھ ایک مذاق کیا گیا ہے کہ ان کے شایانِ شان ہرگز نہیں تھا ورنہ جعلی پولیس مقابلے کس کو یاد نہیں تھے، پھر عابد شیر علی کے بتائے ہو چوبیس آدمیوں کا قتل اور سب سے بڑھ کر ماڈل ٹاؤن والا قتلِ عام اور ان کے دستِ راست ڈی ایس پی کو بھی اب کہیں جا کر پکڑا گیا ہے اور ان کے دوست ایس پی کی تلاش جاری ہے، پھر جیل میں اُن کو بی کلاس بھی نہیں دی گئی بلکہ بی کلاس والا قانون ہی ختم کیا جا رہا ہے اور اگر ایسا ہوا تو نواز شریف، خاکسار اور دیگر معززین کے لئے بھی کئی مسائل پیدا ہوں گے جو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں پیشی کے موقعہ پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں اقتدار جاوید کی یہ نظم:
چکارا
کوئی ایسا دریا تھا/ جس نے انوکھی مگر رنگوں سے خالی دھرتی چُنی تھی/ جہاں اپنا بستر بنایا تھا/ پیٹا بڑھایا تھا/ پانی جہاں تیز ریلے کی صورت نکلتا چلا جا رہا تھا/ وہ دریا/ جو اپنے کناروں سے باہر چھلکتا چلا جا رہا ہے/ اُسی خاص رفتار سے بہہ رہا ہے/ کہانی میں جو اُس نے آہنگ بھرنا تھا/ جیسے چکارے نے ٹیلے کے اُس پار ڈرنا تھا/ اب بھی وہیں آنکھیں کھولے ہوئے ڈر رہا ہے/ یہ اک شیشہ ہے/ جس میں دو شکلیں دو چہرے یکجا نظر آتے ہیں/ ایک رستہ ہے/ ہم جس کو دو مل کے طے کر رہے ہیں/ وہ الفاظ جو اس نے چوگے کی صورت/ مرے منہ میں ڈالے تھے/ گھل مل گئے ہیں/ سو میں کہہ رہا ہوں/ اُسی داستانی احاطے میں/ جو باپ نے خون آمیز قلعے کی تعمیر کے ساتھ/ پیچھے/ فصیلوں سے پیچھے ہٹایا تھا/ ہٹ کر بنایا تھا/ میں اور پیچھے ہٹاتا وہاں رہ رہا ہوں/ یہ رس سے بھرا آدھ جو پورا ہونے سے افزوں ہے/ جو پورا ہونے سے بامعنی ہے/ یہ پانی ہے/ دو بادلوں کا جو اک صحن میں/ رُک رہا ہے!
آج کا مطلع:
نظر کو چھوڑیے، صرف ِ نظر ہی ممکن ہے
قیام کر نہیں سکتے سفر ہی ممکن ہے