مولانا فضل الرحمٰن کی اے پی سی میں اختلافات کی خبروں کے بعد حکومت اگر اپوزیشن جماعتوں کے خلاف احتسابی کارروائیوں کو محدود کرکے چھوٹے گروپوں کوmanage کرلیتی تو سیاسی اضطراب میں کچھ کمی آ سکتی تھی‘ مگر افسوس کہ سرکاری اداروں کی فعالیت کی بدولت قومی سیاست معمول کے وظائف کی طرف پلٹنے کی بجائے تھکا دینے والی کشمکش کی طرف بڑھتی جا رہی ہے۔رانا ثنااللہ کی اینٹی نارکوٹکس فورس کے ہاتھوں گرفتاری کی ٹائمنگ کافی اہم تھی‘اس ایشو کی میڈیا میں بھرپور کوریج کے باعث وکلاکا احتجاج پس منظر میں چلا گیا۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ ہمارے اربابِ بست و کشاد نے شعوری کوشش کے ذریعے دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات سے ابھرنے والی کشیدگی کے دائروں کو وسعت دے کر سیاست کی پوری جدلیات کو تہہ و بالا رکھنے کی جو حکمت عملی اپنائی‘اس کا اصل ہدف نواز لیگ کو پیچھے دھکیل کر پیپلزپارٹی کے سیاسی کردار کو نمایاں کرنا تھا‘ لیکن خلافِ توقع مولانا فضل الرحمٰن کی حکومت مخالف تحریک اس منصوبے کو پوری طرح روبعمل لانے کی راہ میں حائل ہو گئی۔بلاشبہ جے یو آئی نے اپنی طاقتور فعالیت کے ذریعے نہ صرف پریشان حال نواز لیگ کو سہارا دیا بلکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے چھوٹے گروپوں کو بھی مایوسی کے دلدل میں گرنے سے بچایا۔ یہ مولانا فضل الرحمٰن ہی تھے جنہوں نے شدید ترین اختلافات کے باوجود پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں کامیابی حاصل کی اور پچھلے دس ماہ کے دوران پیپلزپارٹی کی طرف سے گورنمنٹ کے خلاف اپوزیشن کی ہر کوشش کو ناکارہ بنانے کی پالیسی کے باوجود مولانا فضل الرحمٰن آصف علی زرداری کو چیئر مین سینیٹ کی تبدیلی کے فیصلے تک لانے میں کامیاب ہو گئے۔ اگر اپوزیشن جماعتیں بلوچستان کے کہنہ مشق سیاستدان میرحاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ کا امیدوار بنانے پہ متفق ہوگئیں تو اسے بھی مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی بصیرت کا اعجاز سمجھا جائے گا۔ قصہ کوتاہ‘تنازعات کو بڑھانے کی پالیسی سے حکومت کو وہ نتائج نہیں مل سکے جو وہ حاصل کرنا چاہتی تھی۔اس کے برعکس انہی تنازعات کی شدت نے بکھری ہوئی اپوزیشن کو متحد ہونے میں مدد دی۔اگر ہم غور سے دیکھیں تو معاملات کو سلجھانے کی بجائے تنازعات کو وسعت دینے کی پالیسی سے حکومت سیاسی ماحول میں کوئی نیا رجحان تخلیق نہ کر سکی‘ لیکن یہی جدلیات حزب ِاختلاف کے بیانیے کو مقبولیت عطا کرنے کا سبب ضرور بنی۔
مرکزی دھارے کے میڈیا میں حکومتی پالیسیوں پہ تنقید کا فائدہ بھی بالواسطہ حزب اختلاف ہی کو ملتا ہے‘ لیکن سوشل میڈیا پہ اپوزیشن کی جارحانہ مہم رائے عامہ کو حکومت کے خلاف صف آرا کرنے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوئی۔اپوزیشن والے سوشل میڈیاکی وساطت سے کمرتوڑمہنگائی کے خلاف عوامی ناراضی کو اینٹی گورنمنٹ تحریک میں بدلنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔عوامی دکھوں پہ ماتم کناں رہنے کی پالیسی عوامی حمایت کے حصول کا مؤثر وسیلہ ہوتی ہے‘بہرحال اس کشمکش سے حکومت کو کچھ ملے نہ ملے پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو زرداری کو میدان سیاست میں اپنا دائرۂ اثر بڑھانے کا سنہرامواقع ضرور مل گیا ہے۔آصف زرداری کی جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں گرفتاری اگرچہ نواز لیگ کے خلاف کی جانے والی تادیبی کارروائیوں کو دھندلانے کا شاخسانہ تھی لیکن یہ پیش دستی بھی پیپلزپارٹی کے لیے مظلومیت کی ردا اوڑھنے کا ذریعہ بنی‘حتیٰ کہ ایک نجی ٹی وی چینل پر آصف زرداری کا انٹرویو رکوانا بھی پیپلزپارٹی کی پروجیکشن کا مؤثر وسیلہ ثابت ہوا۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز لیگ نے حالات کے جبر کے تحت پیپلزپارٹی کی راہیں کشادہ بنانے کی ریاستی پالیسی کو قبول کر کے درست راہِ عمل اپنائی۔لیگ والے جانتے ہیں کہ پیپلزپارٹی لامحالہ سیاسی اقدار میں یقین رکھنے والی ایسی جمہوری جماعت ہے جو سیاسی روایات اور بقائے باہمی کے قرینوں کا لحاظ رکھے گی۔پیپلزپارٹی کو اگر پیشقدمی کی مہلت ملی تو اس کا فائدہ تمام جمہوری قوتوں کو ملے گا۔
پتہ نہیں کیوں حکومت اپنی سیاسی حمایت بڑھانے کی بجائے دن بدن اسے گھٹانے کی پالیسی پہ کاربند دیکھائی دیتی ہے‘ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گورنمنٹ اے این پی‘قومی وطن پارٹی اورمذہبی تنظیموں سمیت چھوٹی جماعتوں کو ہم نوا بنا کر نواز لیگ کو تنہا کرتی مگر افسوس کہ وہ اپنے ساتھ پہلے سے منسلک ایم کیو ایم اور بی این پی مینگل کو بھی مطمئن نہیں رکھ سکی۔اس کے برعکس مشکلات کے بھنور میں الجھی نواز لیگ کی قیادت سیاسی ساکھ کی حامل جے یو آئی اور بی این پی بزنجو سمیت چھوٹے گروپوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔تمام تر کوششوں کے باوجود حکومت مسلم لیگ نواز کے اندر سے چند صلح جو افرادکو الگ کرنے کی سکیم کو بھی عملی جامہ نہ پہنا سکی۔پہناتی ہی کیسے؟جب شہباز شریف کو اتنی سہولت بھی نہ مل سکی کہ وہ خود یا اپنے بچوں کی جاں بخشی کرا کے مسلم لیگ کے ارکانِ اسمبلی کو یہ پیغام دے سکتے کہ ان سے وابستہ ہونے والوں کی کھال بچ جائے گی۔پوری خود سپردگی کے باوجود جب شہبازشریف کو اپنے بیوی بچوں سمیت تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا تو اس سے پارٹی کے اندر نوازشریف کے مزاحمتی بیانیے کو تقویت ملی۔لیگی ارکانِ اسمبلی جان گئے کہ سرنڈر کرنے کے باوجود بھی عزت بچے گی نہ سیاسی ساکھ۔غیر محدود احتسابی کارروائیوں کی بدولت خود شریفوں کے خاندانی دائرے میں بھی یہ احساس پختہ ہوتا گیا کہ سیاست کی بساط پہ ان کے لیے مزاحمت کے سوا تمام راہیں مسدود ہیں۔ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ چوہدری نثار علی خان جیسے تواناکرداربھی عبرت کا نشان بن گئے۔انہیں بھی کوئی ایسی سہولت نہ مل سکی جس کے ذریعے وہ نواز لیگ کے اندر موجود مفاہمت کے حامیوںکیلئے کشش کا باعث بنتے‘لہٰذا مجبوراً نواز لیگ کی دوسری اور تیسری صف کی لیڈر شپ کو اپنا وزن نوازشریف کے مزاحمتی بیانیے کی حمایت میں ڈالنا پڑا؛چنانچہ شہباز ڈاکٹرائن کی ناکامی کے بعد نواز لیگ کی لیڈر شپ کا مریم نواز کے ہاتھ جانا یقینی تھا۔اب پنجاب سے تعلق رکھنے والی ملک گیر جماعت کی مزاحمت خیبر پختونخوا‘بلوچستان اور سندھ کی چھوٹی جماعتوں کے علاوہ وکلا تنظیموں کو بھی مقتدرہ کے سامنے کھڑا ہونے کا حوصلے دے سکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن تو روز ِاول ہی سے آئینی بالادستی کی فیصلہ کن جنگ لڑنے کے حامی تھے‘ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ مریم نواز کے مزاحمتی کردار سے متاثر ہو کے پیپلزپارٹی جیسی مفاہمت کی عادی جماعت کی نوخیز قیادت بھی شوقیہ انداز میں اسی راہ کو اپناتی نظر آئی‘ جس کا انتخاب نواز لیگ کی شوریدہ سر قیادت نے با امر مجبوری کیا۔ مقدمات کی یلغار کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کی دلیرانہ للکار سن کے حکومتی منڈیر پہ بیٹھی ایم کیو ایم اور بی این پی مینگل بھی پرواز کیلئے پر تول رہی ہیں‘حالانکہ صورت واقعہ یہ تھی کہ اے پی سی میں مولانا کی قومی و صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی تجویز کو پذیرائی اس لیے نہ ملی کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کویقین تھا کہ انہوں نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا تو ان کے ارکانِ اسمبلی کی اکثریت استعفے نہیں دے گی۔دھرنوں کے وقت ایسے ہی تجربہ سے پی ٹی آئی خود بھی گزری‘عمران خان نے جب قومی اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کیا تو کئی پی ٹی آئی ارکان نے استعفے دینے سے انکار کر دیا‘جنہوں نے استعفے دیئے وہ بھی سپیکر ایاز صادق کو پیغام بھجواتے رہے کہ فزیکل ویری فکیشن کے بغیر ان کے استعفے قبول نہ کئے جائیں۔