لاہور سے ملتان، اور آگے جنوب کی طرف سفر کے دوران، راستے میں عام لوگ جہاں بھی ملے، سیاست ،حکومت، معاشی بحران، مہنگائی اور بے روزگاری کے بارے میں سوال کرتے نظر آئے۔ تیکھے، چبھتے سوالوں کا سامنا رہا۔ بارہا عرض کی میں نہ کوئی سیاست دان ہوں، نہ کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہے، بس ایک عام سا لکھاری، اور استاد ہوں۔ مجھے سے یہ شکایت بھرے سوالات کیوں؟
مشاہدہ ہے کہ جنوبی پنجاب کے لوگ اپنے حالات سے ناخوش ہیں۔ سب سیاست پر بات کرتے ہیں، اور موقعہ پاتے ہی شکایتوں کے دفتر کھول دیتے ہیں۔ ہر طرف فکر مندی ہے، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ پریشان ہیں۔ کریدیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عام اشیا مہنگی ضرور ہوئی ہیں، لیکن اتنی بھی نہیں کہ لوگوں کی زندگی الٹ کر رہ گئی ہو۔ مقامی سطح پر پیدا ہونے والے پھل اور سبزیاں‘ دونوں شہروں کی نسبت بہت سستے ہیں۔ اس کے باوجود عام لوگ مہنگائی کا رونا روتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈرائیور سے چینی مہنگی ہونے کی شکایت سنی۔ پوچھا‘ ہر ماہ اُن کے گھر میں کتنی چینی استعمال ہوتی ہے؟ جواب ملا‘ دس کلو۔ کہا‘ کیا اس میں کچھ کمی نہیں لا سکتے۔ بولا‘ کیا چائے پینا چھوڑ دیں؟
امیر لوگوں کی تو خیر دنیا ہی اور ہے۔ دراصل غریب اور متوسط طبقے کا طرزِ زندگی اور کھانے پینے کا معیار گزشتہ کچھ دہائیوں سے تبدیل ہوا ہے۔ دیہات بھی شہروں کا چربہ بنتے جا رہے ہیں۔ تین ہزار آبادی کے پھیلتے ہوئے گائوں، جہاں آبائی غریب خانہ ہے، میں چالیس چائے خانے ہیں۔ روزانہ ہزاروں کپ چائے بنائی جاتی ہے۔ قرب و جوار میں دیہات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ ہر طرف سے لوگ اس ''شہر‘‘ کا رخ کرتے ہیں۔ چائے پینا پلانا ہماری ثقافت میں رچ بس گیا ہے۔ عام آدمی خیال کرتا ہے کہ یہ صدیوں پرانا رواج ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ تبدیلی گزشتہ چالیس سال میں رونما ہوئی ہے۔ چائے کے اجزائے ترکیبی اور ان کی آمیزش اور تیاری کا طریقہ پاکستان کے دیہات میں منفرد ہے۔ چائے سے کہیں زیادہ یہ سویٹ ڈش دکھائی دیتی ہے۔ میں بغیر چینی کے چائے پیتا ہوں۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ کیا شوگر کا عارضہ لاحق ہے؟ ہماریہاں دودھ اور چینی کے بغیر چائے کا کوئی تصور نہیں۔
دیہی زندگی میں عدم مساوات نمایاں ہے۔ ایک بہت بڑی آبادی غریب، متوسط طبقہ محدود، اور زمیندار گھرانے دولت مند۔ جنوبی پنجاب میں اور اندرونِ سندھ زیادہ تر زمینیں جاگیرداروں کے پاس ہیں۔ اس کے علاوہ سب سے زیادہ ناہمواری مردوں اور عورتوں کے درمیان ہے۔ آپ کو کراچی سے لے کر گلگت بلتستان تک، ہر جگہ مرد ہی چائے خانوں پر دکھائی دیں گے۔ گھر کا سارا کام خواتین کرتی ہیں۔ جانوروں کو چارہ پانی دینا، مرغیوں کو دانہ ڈالنا، صفائی، بچوں کا خیال اور نگہداشت، سب اُن کی ذمہ داری ہے۔ مرد شام کو واپس آکر تازہ اور گرم کھانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ زیادہ تر بیکاری اس طرح کی ہے کہ پنجاب، خصوصاً سندھ میں آپ کہیں بھی سفر کریں، سینکڑوں کی تعداد میں کام چور مرد موبائل ہاتھوں میں لیے گیمز کھیلنے یا بیکار پیغام رسانی کرتے دکھائی دیں گے۔ خود استحصالی نظام کا شکار یہ طبقہ عورتوں کا استحصال کرتا ہے۔
ملتان کے قریبی اضلاع، سرائیکی وسیب، سندھ اور بلوچستان کی طرف غربت کی آندھی سی چلتی دکھائی دیتی ہے۔ مرد، عورتیں اور بچے، غربت زدہ، میلے کپڑے، پچکے زرد گال اور اداس چہرے پسماندگی کی روایتی علامات ہیں۔ آج نہیں، صدیوں سے ایسا ہی ہے۔ آبادی میں اضافے کا مطلب غربت میں اضافہ ہے۔ میرے نزدیک سرائیکی وسیب میں غربت کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے تو جاگیرداری نظام ہے۔ زمین چند بڑے سیاسی خاندانوں کے پاس ہے۔ اس کے ساتھ اُن کی سیاسی اور سماجی طاقت جڑی ہوئی ہے۔ حیرت کی بات نہیں کہ سندھ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں سماجی ترقی کی سطح ملک کے دیگر حصوں کی نسبت بہت کم ہے۔ یہاں کے لوگ بھی انسان ہیں، قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ تمام صلاحیتوں کے مالک، مگر سماجی نظام کی ساخت نے اُنہیں پسماندہ بنا رکھا ہے۔ اُن کی زبان، ذہن اور روزی کا محتاج بدن‘ سب غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ آزادی صرف ایک نعرہ بن کررہ گئی ہے۔ یہ ایک ایسا خواب ہے جس کی تعبیر زرعی اصلاحات سے ممکن تھی۔ لیکن جب سیاسی اقتدار ہی جاگیردار طبقے کے ہاتھ میں چلا گیا تو زمین بے زمین کسانوں میں کیسے تقسیم ہو سکتی تھی۔ پنجاب کے دیگر حصوں میں بھی جاگیردار سیاسی گھرانے ہی دولت مند، طاقتور اور مقتدر ہیں، لیکن وہاں آہستہ آہستہ غریب، بے زمین لوگوں نے شہروں کا رخ کرکے یا ہنر سیکھ کر کچھ آزادی حاصل کرلی۔ سرائیکی وسیب زیادہ تر جسمانی محنت فروخت کرنے والے مزدور ہی پیدا کرتا ہے۔ اس پسماندگی کی دوسری بڑی وجہ سرائیکی وسیب میں سرکاری تعلیمی اداروں کا زوال ہے۔ میں اور میرے ہمعصر سرکاری تعلیمی اداروں سے ہی فیضاب ہوئے۔ ہمارے اساتذہ اپنے گھروں پر فارغ وقت میں کسی فیس کے بغیر پڑھاتے تھے۔ سکولوں اور کالجوں میں تعلیم معیاری اور سیکھنے کا قابلِ رشک ماحول تھا۔ لیکن یہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ راجن پور کے سرکاری کالجز میں تعلیم نامی کوئی چیز نہیں ہے۔ اساتذہ نے ٹیوشن سنٹرز کھولے ہوئے ہیں۔ بچے کالج میں داخل ہیں، لیکن کلاس کہیں اور ہے۔ ان کا داخلہ ریگولر طلبہ کے طور پر جاتا ہے، لیکن پڑھتے یہ کسی اکیڈمی میں ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ سرکاری افسران کو تو خیر تعلیم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اوپر تک ''سب ٹھیک ہے‘‘ کی پٹی چلتی ہے۔ سرکاری تعلیمی نظام کی تباہی میری نظروں کے سامنے ہوئی ہے۔ امیر بلکہ متوسط طبقات بھی اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں نہیں پڑھاتے۔ وہاں صر ف غریب افراد جاتے ہیں۔ سارے پنجاب، بلکہ پورے ملک میں تعلیم مکمل کرنے سے پہلے سکول چھوڑ جانے کا سب سے زیادہ تناسب راجن پور میں ہے۔
سماجی ترقی کے انڈکس میں بھی راجن پور کم ترین سطح پر ہے۔ پسماندہ افریقی ممالک کے برابر یا ان سے بھی کم تر۔ ملاقات پر ایک سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے کتنے بچے ہیں۔ کچھ لوگ بہت فخر سے سینہ پھلا کر جواب دیتے ہیں، سات یا آٹھ۔ اولاد کی تعداد پر ناز کیا جاتا ہے۔ ہر طرف ننگ دھڑنگ بچے ٹولیوں میں گندی گلیوں اور کوڑے کے انباروں پر کھیل رہے ہوتے ہیں، لیکن نہ تعلیم کی فکر، نہ سہولیات کی امید۔ نظام ایسا فرسودہ کہ خدا کی پناہ۔ شادی کے لیے عورتوں کا تبادلہ جسے عام فہم الفاظ میں وٹہ سٹہ کہا جاتا ہے، یا کمسنی کی شادی کا رواج ہے۔ بیروزگار، بے زمین، بے ہنر، غریب لیکن ایک یا بعض صورتوں میں ایک سے زیادہ بیویاں ضرور ہیں۔ اضافہ اقتصادی حالت میں نہیں، آبادی میں ضرور ہو رہا ہے۔ نہ کوئی منصوبہ بندی، نہ کوئی تحریک۔ اب تو آبادی کنٹرول کرنے کے لیے بھی کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔
ان حالات میں سوچتا ہوں تبدیلی کب، کیسے اور کہاں آئے گی؟ بلند بانگ دعوے اورسیاسی نعرے بہت سن چکے۔ کئی آئے، کئی گئے، لیکن ملک، خصوصاً اس خطے کے حالات نہ بدلے۔ سماجی تنظیمیں بھی انہی خرابیوں کا شکار ہیں۔ دکھاوا، لوٹ مار، بدعنوانی اور غریب کی حالت سدھارنے کے نام پر کرپشن ۔ معلوم نہیں کب آئے گا وہ انقلاب جس کے خواب دکھا کر عمران خان اقتدار میں آئے ہیں۔ جہاں بھی جائیں، یہی سوال کیا جاتا ہے۔ اس پر تسلی ہی دی جاسکتی ہے، انتظار کرنے کاکہا جا سکتا ہے کہ حالات خراب ہیں، مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ یہ کہ دو سیاسی خاندانوں نے لوٹ مار کی تھی۔ اب دیکھیں، ان کا احتساب ہو رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ اب لوگ یقین نہیں کرتے۔
حکمران درست ہی کہتے رہے ہیں کہ ہمارا مسئلہ طرزِ حکمرانی ہے۔ بیشک، لیکن اب ایک سال ہونے کو ہے۔ کہیں تو بہتر گورننس دکھائی دیتی۔ اس کے لیے کہیں سے امداد کی ضرورت نہیں۔ نوکر شاہی کانظام موجود ہے، اسے متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اہل اور دیانتدار افسران کا تقرر کیجیے۔ اُن کی کارکردگی پر نظر رکھیں۔ فعال اور معیاری تعلیمی نظام کے بغیر سماجی ترقی ناممکن ہے۔ تبدیلی تب نظر آئے گی جب ترجیہات کا رخ متعین کریں گی۔ مایوسی کے بادل محض تقریروں سے نہیں، کچھ کرنے سے چھٹتے ہیں۔