مریم نواز کی پریس کانفرنس کے بعد، سیاسی کشمکش ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی۔ ممکن ہے یہ اس معرکہ آرائی کا آخری مرحلہ ہو۔
میں یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں تو میرے سامنے ٹی وی سکرین پر جسٹس ارشد ملک صاحب کا تردیدی بیان دکھایا جا رہا ہے۔ اس پر بحث کا بازار گرم ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اب مریم نواز سمیت سب وقت کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ یہ بحث اب ٹی وی سکرین تک محدود نہیں رہنی۔ یہ گلی بازار اور چوکوں چوراہوں میں شروع ہو چکی۔ آنے والے دنوں میں، ہم اس کی بازگشت انصاف کے ایوانوں میں بھی سنیں گے۔ سیاست کے ایوان تو پہلے ہی اس کی گرفت میں ہیں۔ اب کوئی غیر معمولی واقعہ ہی اس بحث کو سمیٹ سکتا ہے۔ یہ غیر معمولی واقعہ کیا ہو سکتا ہے؟
یہ پریس کانفرنس اور محترم جج صاحب کی تردید اس سارے قضیے کا محض ایک باب ہے۔ اسی طرح کا ایک باب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سابق جج بھی ہیں۔ یہ سب ابواب جمع ہو کر اس قضیے کو مکمل کر رہے ہیں۔ پھر یہ کہ انکشافات کا باب بند نہیں ہوا۔ آنے والے دنوں کے پردے میں کیا کیا ہنگامے مستور ہیں، ابھی کچھ کہنا مشکل ہے۔ ابھی تصویر کو مکمل ہونا ہے۔ تاہم یہ بڑی حد تک طے ہے کہ معاملہ سمٹ رہا ہے۔
مریم نواز کی پریس کانفرنس اور جج صاحب کی تردید کا ایک قانونی پہلو ہے۔ جج صاحب کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا دفاع کریں۔ ان کے پاس ایک سے زیادہ قانونی راستے ہیں۔ وہ چاہیں تو مریم کے خلاف ایف آئی آر درج کرا دیں۔ چاہیں تو اعلیٰ عدالت کو تحقیقات کی درخواست کر دیں۔ حکومت بھی تحقیقاتی کمیشن بنا سکتی ہے۔ مریم نواز کو بھی قانون کے مطابق اپنا موقف ثابت کرنا ہو گا۔ اگر عدالت کہتی ہے تو اس وڈیو کی فرانزک آڈٹ کرانا ہو گا۔ میرا احساس ہے کہ اب نظامِ عدل کو اپنی ساکھ کی بحالی کے لیے خود اقدام کرنا ہو گا۔
یہ پیش قدمی وسیع تر سیاسی منظر نامے کا حصہ ہے۔ میرا احساس ہے کہ اس پریس کانفرنس سے پاکستانی سیاست کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔ اب اقتدار کی سیاست سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں رہی۔ یہ ایک ایسا معرکہ ہے جس میں روایتی، غیر روایتی، بہت سے ادارے شریک ہو چکے۔ اس میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ریاستی ادارے اور میڈیا بھی شامل ہو چکے۔ یہ تاریخ کا ایک جبر ہے جس سے کسی کو فرار نہیں۔ اب کچھ مستور نہیں رہے گا۔ سب کے نقاب الٹنے کا وقت آ گیا۔
رانا ثنا اللہ کی گرفتاری سیاست کے ایک دور کا خاتمہ تھا۔ اس پر مریم نواز نے جو ٹویٹ کیا، اس میں انہوں نے اس گرفتاری کے پیچھے عمران خان صاحب کا ہاتھ دیکھا، حالانکہ اس باب میں ایک سے زیادہ آرا موجود تھیں۔ مریم کے اس ٹویٹ کا مطلب یہ تھا کہ کشمکش بظاہر سیاسی جماعتوں ہی کے مابین ہے۔ ن لیگ شاید ابھی تک اپنے اصل موقف کو مستور رکھنا چاہتی تھی۔ اندازہ ہوتا ہے کہ اس دوران میں کوئی ایسی پیش رفت ہوئی ہے‘ جس نے مریم نواز کو مجبور کیا کہ وہ اب اپنے اصل موقف کو سامنے لائیں۔ یہ پریس کانفرنس اس جانب پہلا قدم ہے۔
اس پریس کانفرنس کے ساتھ ہی میڈیا کے محاذ پر بھی غیر معمولی سرگرمی کا آغاز ہو چکا ہے۔ آزادیٔ رائے کے باب میں ایک طبقے نے کھل کر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ اس سے بھی یہ تاثر گہرا ہوا کہ اقتدار کی یہ کشمکش سیاسی جماعتوں تک محدود نہیں ہے۔ اشارے کنائے میں اور قوتوں کا بھی ذکر ہونے لگا ہے۔ یوں یہ معرکہ آرائی محض سیاسی جماعتوں کی باہمی آویزش تک محدود نہیں رہی۔
شہباز شریف صاحب ان لوگوں میں سے تھے جو مستور کو مستور ہی رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی حکمت عملی یہ تھی کہ بظاہر عمران خان کی حکومت ہی کو ہدف بنایا جائے۔ اقتدار کی کشمکش میں جو قوتیں واضح نہیں ہیں‘ ان سے پس پردہ ہی معاملہ کیا جائے۔ وقت کے جبر نے لیکن انہیں مجبور کر دیا کہ وہ سیاسی بہاؤ کا حصہ بنیں۔ جبر یہی ہوتا ہے کہ آپ مکمل طور پر وقت کے رحم و کرم پر ہوں۔ شہباز شریف صاحب کے ہاتھ سے معلوم یہی ہوتا ہی کہ سیاست کی باگ نکل چکی۔
یہ باگ اب کس کے ہاتھ میں ہے؟ میرا کہنا ہے کہ کسی کے ہاتھ میں نہیں۔ اس وقت اقتدار کے کھیل میں شریک سب قوتیں وقت کے رحم و کرم پر ہیں۔ شکایات کے باوجود، انتخابات کے بعد ایک موقع تھا جب اقتدار کے کھلاڑی معاملہ فہمی کا ثبوت دیتے اور سیاست کی باگ کو اپنے ہاتھ میں رکھتے۔ افسوس کہ وہ اس میں بری طرح ناکام ہوئے۔ بعض کھلاڑیوں نے یہ گمان کیا کہ اقتدار پوری طرح ان کی گرفت میں آ چکا۔ دوسرے کھلاڑیوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ان کی غیر مشروط اطاعت کریں۔ اگر نہیں کریں گی تو ان کی قوتِ اقتدار ان کے وجود ہی کو مٹا دے گی۔
یہ فرض کرتے وقت اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا گیا کہ تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کسی کو مطلق اقتدار مل جائے۔ انسانوں کو جو اقتدار ملتا ہے، وہ محدود ہی ہوتا ہے۔ اگر وہ غلط فہمی کا شکار ہو جائیں تو محدود اقتدار بھی چھن جاتا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکہ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہوا کہ وہ اب دنیا پر اپنی پسند کے فیصلے نافذ کر سکتا ہے۔ دنیا کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ سنے اور اطاعت کرے۔ وقت نے بتا دیا کہ دنیا میں کوئی اقتدار مطلق نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں امریکہ مشرق وسطیٰ پر اپنی پالیسی نافذکر سکا نہ افغانستان پر۔ اسے ہر جگہ مفاہمت کا راستہ اپنانا پڑا۔ اسے طالبان کے وجود کو تسلیم کرنا پڑا اور اب ایران کے وجود کو مانے بغیر بھی چارہ نہیں۔
پاکستان میں انتخابات کے بعد اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ شریف خاندان اور بھٹو خاندان کو نیست و نابود کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔ نواز شریف کو رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ مریم نواز کو دیوار سے لگا دیا گیا۔ شہباز شریف جیسے لوگوں نے مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا تو اسے جھٹک دیا گیا۔ اس کا ایک نتیجہ نکلنا تھا اور وہ اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ شہباز شریف بے بسی کی تصویر بن گئے۔ اب انہیں بادلِ نخواستہ وقت کے بہاؤ کے ساتھ بہنا ہے۔
مجھے دکھائی یہ دے رہا ہے کہ اقتدار کے سب کھلاڑی اپنے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جن کے ہاتھ میں اقتدار کی باگ ہے، وہ حکمت کا دامن تھامنے کو تیار نہیں۔ ایسے مرحلے پر چھوٹی چھوٹی غلطیاں مل کر ناقابلِ عبور پہاڑ بن جاتی ہیں۔ جیسے منڈی بہاؤالدین کے جلسے کو روکنا۔ اگر حکومت اجازت دے دیتی تو یہ مقامی سطح کی سیاسی سرگرمی ہوتی۔ حکومت نے روایتی ہتھکنڈوں کے ذریعے روکنے کی کوشش کی، جس نے اس جلسے کو ایک قومی واقعہ بنا دیا۔ اب مزید ایسی غلطیاں ہوں گی کہ تاریخ میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔
مجھے دکھائی یہ دے رہا ہے کہ ہم 1979ء کے بعد تاریخ کے سب سے بڑے بحران سے گزر رہے ہیں۔ بھٹو صاحب کی پھانسی ایک تاریخ ساز واقعہ تھا۔ اس نے فیڈریشن کی چولیں ہلا دیں۔ یہی نہیں، گیارہ سال کے لیے جمہوریت کا باب بند ہو گیا۔ اس کا مطلب سماجی و سیاسی ارتقا کا رک جانا ہے۔ آج بھی اقتدار کی کشمکش میرا اندازہ ہے کہ آخری مرحلے میں داخل ہو چکی۔
ہمارے سامنے دو تاریخی تجربات ہیں۔ ایک جنوبی کوریا اور چین جہاں فیصلہ سازی کا تمام اختیار ریاستی اداروں کے پاس ہے۔ دوسرا مغربی طرز کی جمہوری حکومت جس میں فیصلہ سازی کا اختیار عوام کے پاس ہے۔ ہم نے ایک تیسرا تجربہ کیا جو ناکام ہو گیا۔ میں نہیں جانتا کہ وقت نے ہمارے لیے کون سا راستہ چنا ہے تاہم یہ واضح ہے کہ اب یہی دو راستے ہیں۔ تیسرا کوئی نہیں۔