مریم صفدر نے بھی کیا عجیب طبیعت پائی ہے۔ ان کے مزاج میں ٹھہراؤ اور معاملہ فہمی نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں اور کرنے چلی ہیں سیاست‘ جس کی الف ب سے وہ واقف نہیں۔ واقف تو خیر ان کے والد بھی نہیں۔ سیاست سے واقفیت کب اور کیسے ہوئی‘ یہ واقفان حال بخوبی جانتے ہیں۔ جنرل غلام جیلانی سے لے کر جنرل ضیاالحق تک‘ وہ سبھی کی آنکھ کا تارا اور راج دلارا کیسے بنے اور اس دوران کیا کچھ بناتے چلے گئے۔ سیاست سے عدم واقفیت کے باوجود یہ خاندان طویل عرصہ وطن عزیز پر حکمران اور وسائل پر قابض ہی رہا ہے۔ مریم نواز نے جہاں نواز شریف کی مشکلات میں اضافہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا‘ وہاں راہ چلتی مصیبتیں اور آزمائشیں اکٹھی کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 'انوکھا لاڈلا... کھیلن کو مانگے چاند‘ کے مصداق یہاں معاملہ تھوڑا سا توسیع پسندانہ ہے۔ مریم نواز کھیلن کو چاند تو ایک عرصے سے مانگ ہی رہی ہیں‘ لیکن چاند کے ساتھ ساتھ آسمان کی بھی طلب گار رہی ہیں۔
دور کی کوڑی لانے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ نواز شریف تمام مشکلات اور قید و بند کی صعوبتیں صرف مریم نواز کی خاطر برداشت کر رہے ہیں۔ انھیں اپنے مستقبل اور انجام کا بخوبی اندازہ ہے‘ لیکن ان کی تمنا ہے کہ کسی طرح ان کی صاحبزادی اپنے باپ کی متبادل بن جائے۔
انہیں اپنے در بدر ہونے سے کہیں زیادہ اپنی بیٹی کو صاحب اقتدار دیکھنے کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ خیر! خواہش اور خواب پر کون بند باندھ سکتا ہے؟ خواب کھلی آنکھ سے دیکھا جائے یا بند آنکھ سے۔ خواب تو خواب ہی ہوتا ہے۔۔ اور خواہش کا کیا ہے۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
بیگم صفدر کہتی ہیں کہ نواز شریف پر الزام بے بنیاد ہیں اور سزا سنانے کے لیے جج پر دباؤ ڈالا گیا ہے۔ یعنی نواز شریف کا دامن اور ہاتھ دونوں صاف ہیں۔ اور مزے کی بات یہ کہ ملکی خزانہ بھی صاف ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمھارا دامن اور ہاتھ دونوں صاف ہیں‘ تو پھر خزانے پر ہاتھ کون صاف کر گیا؟؟ اسے دیمک کھا گئی یا آندھی لے اڑی؟ کس بے حسی سے آنکھوں میں دھول جھونکنے کی مسلسل کوشش میں مبتلا ہیں۔ ڈان لیکس کے بعد اب وہ ویڈیو لیک ایڈونچر کر چکی ہیں۔ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک صاحب کی مبینہ ویڈیو کو لے کر نواز شریف کی سزا کو متنازعہ بنانے کا انتہائی بھونڈا پلان لے کر وہ نیا سٹیج لگا چکی ہیں‘ جس کا بیک فائر یقینی ہے۔
زمیں ناراض ہے کچھ ہم سے شاید
پڑا ہے پاؤں جب، الٹا پڑا ہے
پریس کانفرنسیں، مظاہرے اور احتجاج وغیرہ وغیرہ سیاسی فیس سیونگ کے لیے تو ہو سکتے ہیں‘ لیکن عدالتی فیصلوں اور زمینی حقائق پر کسی صورت اثر انداز نہیں ہو سکتے۔ ویسے بھی اب تو فیس سیونگ دن بہ دن مشکل ترین ہوتی چلی جا رہی ہے اور فیس بھی بتدریج کم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ رانا ثنااللہ کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ ن میں فارورڈ بلاک کی خبروں میں شدت آ چکی ہے۔ مریم صفدر کی اس پریس کانفرنس نے ملکی سیاست میں تھوڑی بہت ہلچل ضرور پیدا کی ہے اور میڈیا کو چند دن کے لیے اچھا خاصا مواد بھی مل گیا ہے۔ لیکن یہ ہلچل زیادہ دیر چلنے والی نہیں۔ اور نہ ہی اس سے کوئی سیاسی فائدہ یا قانونی ریلیف مل سکے گا۔ جبکہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے اس ویڈیو کو جعلی قرار دیتے ہوئے مریم صفدر کے تمام الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پریس کانفرنس میرے اور میرے خاندان کے خلاف ایک سازش اور ساکھ خراب کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔
ماضی کے سبھی حکمران زیر عتاب اور مکافات عمل کی چکی میں پس رہے ہیں۔ نواز شریف اور آصف علی زرداری اندرون ملک اِس طرح زیر عتاب ہیں تو بیرون ملک الطاف حسین اور پرویز مشرف اُسی طرح مکافات عمل اور بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ احتساب کو سیاسی عناد اور انتقامی کارروائیاں قرار دینے والی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو یقین ہی نہیں آ رہا کہ اب ان کا کھیل تماشا ختم ہو چکا ہے۔ قانون فطرت حرکت میں ہے۔ دور حکومت نواز شریف کا ہو یا بے نظیر کا۔ پرویز مشرف کا ہو یا آصف علی زرداری کا۔ خیانت کے اس کار بد میں ہاتھ سبھی کے رنگے ہوئے ہیں۔ تقریباً چار دہائیوں سے جاری بھیانک ترین خیانت اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی ہے۔
وطن عزیز کی دولت اور وسائل کو باپ دادا کی جاگیر اور خود کو ناقابل تسخیر تصور کرنے والے حکمران آج بے بسی کی تصویر اور عبرت کی چلتی پھرتی مثال بن چکے ہیں۔ مکافات عمل اور قانون فطرت کی پکڑ اور کیا ہو گی کہ نواز شریف اپنے ہی دور حکومت میں سوکھے ہوئے پتے سے بھی ہلکے ہوتے چلے گئے۔ اور چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ بڑے بے آبرو ہو کر کوئے اقتدار سے کوئے ملامت کے مکین بن گئے۔ ہوئے در بدر... وہ بھی اس قدر... کہ وزیر اعظم اپنا انتہائی قریبی اور منظور نظر شاہد خاقان عباسی ہو اور سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ اپنا سگا چھوٹا بھائی ہو... اور وہ سڑکوں پر دیوانہ وار لوگوں سے پوچھتے پھرے کہ... مجھے کیوں نکالا؟؟
نواز شریف کے برے دن شروع ہوتے ہی آصف علی زرداری نے کمال مہارت سے خود کو ان سے لا تعلق رکھا اور کسی موقع پر بھی ان سے یکجہتی کا اشارہ تک نہ دیا۔ یہاں تک کہ نواز شریف پس زنداں چلے گئے لیکن آصف علی زرداری اپنی جان خلاصی کی تگ و دو میں لگے رہے۔ بلوچستان کی حکومت سازی ہو یا سینیٹ کا انتخاب... انہوں نے مفاہمت اور تعاون کی آخری حدوں تک جا کر دیکھا کہ شاید ان خدمات اور سہولت کاری کے عوض جان خلاصی ہو جائے‘ لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ سہولت کاری اور مفاہمت کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ لانچیں بھر بھر کر کرنسی نوٹوں کی نقل و حمل سے لے کر درجن بھر سے زائد شوگر ملز، کمپنیاں، جائیدادیں اور نہ جانے کیا کیا۔ اندھیر نگری اور چوپٹ راج کا کیسا کیسا نمونہ آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اس کار بد میں شریک سبھی حکمران پس زندان۔
یہ دیس ہے سب کا، مگر اس کا نہیں کوئی
اس کے تن خستہ پہ تو دانت ہیں سب کے
کالم ابھی یہاں تک ہی پہنچا تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ موصول ہوا جس میں اسلام آباد پولیس کے سربراہ عامر ذوالفقار کو تحریک انصاف کے انتخابی نعرے کو عملی جامہ پہناتے دیکھا۔ پولیس ہیڈ کوارٹر میں افسران اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے انھیں کھری کھری سنا ڈالیں۔ انھوں نے کہا کہ اب روایتی پولیس کلچر نہیں مہذب اور قانون کا کلچر چلے گا۔ اگر کسی افسر یا جوان نے کسی شہری سے بد تمیزی کی یا اسے تنگ کیا یا رشوت اور سفارش کے زیر اثر کسی سے نا انصافی کی تو مجھے اپنا سب سے بڑا دشمن پائے گا۔ انھوں نے یہ ہدایت بھی کی کہ ناکوں پر کھڑی پولیس فورس عوام کو سلیوٹ بھی مارے۔ اس موقع پر آئی جی اسلام آباد نے یہ اعتراف بھی کیا کہ فرشتہ قتل کیس میں ایک افسر کی غفلت نے پورے محکمہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اور دھبہ لگا دیا جسے سینکڑوں افسران اور فورس کو مل کر دھونا پڑا۔ انھوں نے یہ انتباہ بھی کیا کہ غلطی بھلے کوئی اہلکار ہی کرے لیکن جوابدہ ایس ایچ او، ڈی ایس پی اور متعلقہ ایس پی ہی ہو گا۔ اسلام آباد پولیس سربراہ کا یہ اقدام یقینا تحریک انصاف کے ویژن اور اس انتخابی نعرے کی بھرپور عکاسی کرتا ہے جس میں پولیس کلچر کی تبدیلی اور تھانوں میں عوام کے ساتھ عزت اور داد رسی کا وعدہ کیا تھا۔
چلتے چلتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ پنجاب پولیس بھی انتہائی سنجیدگی سے سٹریٹیجک ڈویلپمنٹ پلان بنا کر حکومت پنجاب کو بھجوا چکی ہے۔ اس ڈویلپمنٹ پلان کے بارے میں جو کچھ میں جانتا اور سن چکا ہوں‘ اگر وزیر اعلیٰ پنجاب اس پر عمل درآمد کروانے میں کامیاب ہو گئے تو بخدا تھانوں سے لے کر ناکوں تک پنجاب پولیس میں وہ خوشگوار تبدیلی آ سکتی ہے جس کا آج تک صرف خواب ہی دکھایا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے بارے میں جو کچھ راجہ جہانگیر بھجواتے اور بتاتے رہتے ہیں اگر انھیں پیش نظر رکھا جائے تو بجا طور پر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ سٹریٹیجک ڈویلپمنٹ پلان نافذ کر کے وزیر اعلیٰ بزدار عوام کو تھانوں میں ذلت، دھتکار اور پھٹکار سے بچا سکتے ہیں۔ اس ڈویلپمنٹ پلان پر عمل درآمد عوام کے لیے آسانی کے ساتھ ساتھ خود حکومت کے لیے بھی اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔