جب سے سپریم کورٹ میں صحافیوں کو چائے پانی پلانے، کانفرنس میں دوسرے شہروں سے بلا کر ٹھہرانے، بیرون ملک وزیراعظم کے ساتھ سرکاری دوروں پر جانے والے صحافیوں کے حوالے سے سیکرٹ فنڈ کیس کی پیروی کے لیے جانا شروع کیا ہے، تو سوچا اس پر تھوڑی بہت ریسرچ کرنے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟ کچھ ایسی خفیہ دستاویزات سپریم کورٹ میں پیش کی گئی ہیں جنہیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ اس ملک میں سیکرٹ فنڈ کے نام پر کیا کیاکھیل کھیلے گئے۔ بینظیر بھٹو کے پہلے دور اور نواز شریف کے دوسرے دور میں سیکرٹ فنڈ کے استعمال کی دستاویزات‘ میں نے عدالت سے اپنے ذرائع سے نکلوائی ہیں جو آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ بینظیر بھٹو دور میں سیکرٹ فنڈ کے استعمال کے بارے میں آئی بی کے سابق سربراہ مسعود شریف خٹک کا1992ء میں ایک جج کی عدالت میں دیا گیا بیان نکلوایا‘ یقین نہیں آتا کہ سیکرٹ فنڈ کے نام پر ملکی خزانے کو اس بے دردی سے بھی لوٹا جا رہا تھا! سپریم کورٹ میں حال ہی میں انٹیلی جنس بیورو کی طرف سے جمع کرائی گئی ایک خفیہ رپورٹ (جسے ابھی تک عام نہیں کیا گیا) میں انکشاف کیا گیا ہے کہ جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو اس وقت فیصلہ کیا گیا کہ آصف زرداری، بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کے خلاف بیرون ملک چلنے والے مقدمات میں پارٹی بننا ہے۔ اس کے لیے بہت سارے دستاویزی ثبوتوں کی ضرورت تھی۔ اب سوال یہ پیدا ہوا اس کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ کیا چل رہا ہے ۔ نواز شریف کے وفاداروں نے اس کا ایک حل نکالا۔ اس سال آئی بی کا سالانہ سیکرٹ فنڈ بجٹ آٹھ کروڑ روپے تھا ۔ اس پر نواز شریف نے اپنے وزیرخزانہ سرتاج عزیز کو کہا کہ وہ آئی بی کو خاموشی سے 17 کروڑ روپے جاری کریں اور آئی بی کو کہا گیا کہ وہ اسے سیکرٹ فنڈ قرار دے دیں تاکہ ان پیسوں کی پوچھ گچھ یا آڈٹ نہ ہو سکے ۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔ جونہی یہ پیسے آئی بی کے اکائونٹ میں پہنچے، نواز شریف کی طرف سے حکم دیا گیا کہ اب یہ سترہ کروڑ روپے چپکے سے سیف الرحمن کو دے دیئے جائیں۔ وہ بیگوں میں یہ پیسے بھر کر اپنے ساتھ لے گئے۔ آج تک کچھ پتہ نہیں کہ سیف الرحمن نے وہ پیسے بیرون ملک کہاں اور کس کو بھجوائے۔ سیف الرحمن ان دنوں احتساب سیل کو چلا رہے تھے۔ اکتوبر 1997ء میں وزیراعظم نواز شریف کے دفتر سے وزارت خزانہ کو مزید ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ مزید 6 لاکھ ڈالر آئی بی کو سیکرٹ فنڈ کی مد میں ادا کریں اور آئی بی کو کہا گیا کہ وہ یہ چھ لاکھ ڈالر بھی سیف الرحمن کو دے دیں۔ وزیراعظم نواز شریف کے دفتر سے مزید ہدایات آئی بی کو بھیجی گئیں کہ وہ 15 ہزار ڈالرز Patrick Doyle کو ادا کردیں۔ اس پر بس نہیں ہوئی۔ وزیراعظم نواز شریف کے دفتر سے یہ ہدایات بھی جاری ہوئیں کہ وہ آئی بی کو 55 ہزار پونڈ کھلی مارکیٹ سے خرید کر دیں جو انہوں نے لندن میں ایک فرم کو ادا کرنے تھے۔ نواز شریف نے مئی 1999ء میں ایک اور حکم دیا کہ 150,000 پونڈز مارکیٹ سے خرید کر جنیوا کی ایک پارٹی کو ادا کریں۔ نواز شریف نے اپریل 1999ء کو ہدایت کی کہ لندن میں پاکستان ہائی کمشنر کو 125,000 پونڈ اوپن مارکیٹ سے خرید کر بھجوا دیں جس نے کسی کمپنی کو ادائیگی کرنی تھی۔ نواز شریف کے ہی حکم پر لندن میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو مزید 109,000 پونڈز خرید کر بھجوائے گئے۔ نواز شریف کے حکم جاری ہوتے رہے۔ نواز شریف کے حکم پر ہی 100,000 ڈالر آئی بی نے سیکرٹ فنڈز سے مارکیٹ سے خریدے اور وہ جنیوا بھجوائے گئے۔ اس سے پہلے بینظیر بھٹو دور میں سیکرٹ فنڈ کا استعمال کچھ اور طریقے سے ہورہا تھا۔ اس وقت یہ فنڈ جنرل نصیراللہ بابر اور مسعود شریف خٹک استعمال کررہے تھے۔ وہ دونوں ہمیں افغانستان فتح کر کے دے رہے تھے۔ خٹک صاحب عدالت میں دیے گئے اپنے تحریری بیان میں فرماتے ہیں جب وہ ڈی جی آئی بی تھے تو صرف وہ براہ راست وزیراعظم بھٹو سے سیکرٹ فنڈز کے معاملات پر رابطے میں تھے۔ کسی تیسرے کو علم نہیں تھا یہ پیسے کدھر جارہے ہیں۔ وہ پیسوں کے بیگ بھر کر وزیراعظم ہائوس لے جاتے اور وزیراعظم ہائوس میں کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا کہ کتنے پیسے کس کو دیے جارہے تھے اور کون کیا لے رہا تھا۔ اس حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں لہٰذا وزیراعظم جس کو چاہیں پیسے دینے کا حکم دے سکتے ہیں۔ لوگوں کے نام لکھنے کی بجائے، جس سیکرٹ کام کے لیے وہ پیسے دیے جارہے ہوتے ، صرف وہ رجسٹر میں لکھ دیا جاتا۔ دیگرکوئی تفصیل فراہم نہیں کی جاتی۔ خٹک صاحب فرماتے ہیں: بعض معاملات میں تو جعلی ناموں سے کام چلایا جاتا۔ پیسے اگر اکبر کو دیے گئے ہیں تو وہاں رجسٹر پر نام بلال کا لکھا جاتا ۔ پیسے ایسے لوگوں کے ذریعے بھجوائے جاتے جس پر اگلے بندے کو اعتماد ہوتا ۔ جس کے ذریعے وہ پیسے بھجوائے جاتے ہیں اس کا نام بھی رجسٹر پر نہیں لکھا جاتا۔ خٹک صاحب فرماتے ہیں کئی دفعہ وہ خود بھاری رقومات لے کر مختلف لوگوں کو ان کے گھروں تک پہنچانے بھی گئے تھے۔ ان دنوں افغانستان میں فوجی بغاوت ہوئی تھی اور جنرل شاہ نواز بغاوت کی ناکامی کے بعد ہیلی کاپٹر پر فرار ہوکر پاکستان آگئے تھے‘ انہیں بھی نوٹوں کے بیگ دیے گئے ۔ جنرل نصیراللہ بابر ان کے ساتھ رابطے میں تھے اور ہدایات دیتے رہتے تھے کہ کسے ادائیگیاں کرنی ہیں۔ خٹک کا کام وزیراعظم بینظیر کو پیسے پہنچانا تھا۔ وہ کس کو پیسے بھجواتی تھیں، یہ ان کا کام تھا۔ خٹک لکھتے ہیں انہیں اس میں کوئی شک نہیں وہ رقومات جو وزیراعظم بھٹو کو پہنچائی گئی تھیں وہ یقینا عظیم تر قومی مفاد میں لوگوں کو ادا کی گئی ہوں گی۔ بینظیر اور جنرل نصیراللہ بابر کے حکم پر بھاری رقومات آئی بی کے سیکرٹ فنڈ سے نکلوا کر افغان نگران حکومت کے کچھ وزیروں کو پہنچائی جارہی تھیں۔ خٹک کے بقول ان کے لیے یہ کافی تھا کہ جنرل بابر نے انہیں ایک سرٹیفکیٹ دے دیا تھا کہ یہ سیکرٹ فنڈ کے کروڑوں روپے درست جگہ پر خرچ ہوئے تھے۔ خٹک لکھتے ہیں جو رقومات آئی بی‘ سیکرٹ فنڈ سے استعمال کرتی ہے ان کا نہ تو کوئی آڈٹ ہوتا ہے اور نہ ہی جب یہ رقومات وزیراعظم کو فراہم کی جاتی ہیں، ان کا کوئی ریکارڈ رکھا جاتا ہے کہ وہ پیسے کس کو کیوں دیے جارہے ہیں۔ بس پیسوں کا ایک بیگ وزیراعظم ہائوس پہنچا دیا جاتا ہے اور اس کے بعد وزیراعظم جانے اور اللہ جانے۔ مسعود شریف خٹک لکھتے ہیں کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے وہ چمڑے کے ایک بیگ میں نوٹ بھر کر وزیراعظم بینظیر بھٹو کے پاس لے جاتے تھے اور اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا تھا۔ سپریم کورٹ سے التجا کی جاسکتی ہے کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو دور کے سیکرٹ فنڈز کے ان طلسم ہوشربا کارناموں کو بھی اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیں جیسے دور دراز علاقوں میں جان سے ہاتھ دھونے والے صحافیوں کی غریب بیوائوں کو وزارت اطلاعات کی طرف سے ادا کیے گئے پانچ پانچ ہزار روپے کی تفصیلات ڈالی گئی ہیں…!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved