زمانے کا کام کیا ہے؟ روگ دینا۔ انسان ایک عارضے سے بیماری سے ابھی پوری طرح نمٹ نہیں پاتا کہ دوسری نازل ہو جاتی ہے اور پھر معاملہ جسم تک محدود رہے تو انسان کسی نہ کسی طور صبر بھی کرلے‘ آنسو پونچھ کر رہ جائے۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ جسمانی کم اور ذہنی بیماریاں زیادہ آتی ہیں اور جانے کا نام بھی نہیں لیتیں۔
آج کا آفاقی ‘یعنی ہر جگہ پایا جانے والا ذہنی مرض ہے‘ اپ ڈیٹ رہنا۔ یہ مرض ایسا اڑ کر لگتا ہے کہ انسان دیکھتا اور ہاتھ ملتا ہی رہ جاتا ہے۔ پاکستانیوں کو تو یہ مرض اتنی تیزی سے لگا ہے کہ اس سے پہلے کہ کہ کچھ سوچنے اور سنبھلنے کی توفیق نصیب ہوتی‘ لاکھوں افراد اِس کے دام میں پھنس چکے تھے۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ملک بھر میں کروڑوں افراد کو اپ ڈیٹ رہنے کی لت پڑچکی ہے۔ رات ہوتی ہی کالی ہے ‘مگر اپ ڈیٹ کی ذہنی پیچیدگی سے دوچار لڑکے اور لڑکیاں اسے مزید کالی بنانے پر تُلے رہتے ہیں۔ سمارٹ فون کی مدد سے رات رات بھر اپ ڈیٹنگ جاری رہتی ہے۔ لوگ اپنے ہر معاملے کو ریکارڈ کرنا اور ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں‘ تاکہ ''سند‘‘ رہے۔ کوئی پوچھے کہ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ سند رہے تو کسی سے کوئی جواب بن نہیں پڑتا۔ بات کچھ یوں ہے کہ کوئی جواب ہے ہی نہیں!
کوئی سمجھانے کی کتنی ہی کوشش کرلے کہ بھائی! زندگی کا ہر معاملہ ایسا نہیں ہوتا کہ منظرعام پر لایا جائے‘ کوئی سمجھنے کو تیار نہیں۔ آپ لاکھ سر پھوڑیے کہ اپنے ہر معاملے کو دنیا کے سامنے لانا محض خرابیوں کو جنم دیتا یا پہلے سے موجود الجھنوں کو مزید شدت سے دوچار کرتا ہے‘ ماننا تو دور کی بات ہے کوئی سُنے گا بھی نہیں۔ نئی نسل کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپ ڈیٹ رہنے اور اپ ڈیٹ کرتے رہنے کو زندگی کا حاصل سمجھ بیٹھی ہے۔ ایک دور تھا کہ موبائل فون کی بیٹری چارج کرلیجیے تو ایک ایک ہفتہ چلتی تھی۔ سمارٹ فون میں سوفٹ ویئرز اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ان سب کو چلانے میں بیٹری چار پانچ گھنٹے میں جواب دے جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ موبائل فون کی مدد سے اپنے سٹیٹس کے ساتھ ساتھ بیٹری کو بھی اپ ڈیٹ کرتے رہنا پڑتا ہے! معاملہ اس حد تک ہے کہ کوئی کہیں جاتا ہے تو سب سے پہلے اس بات کا اطمینان کرتا ہے کہ باتھ روم ہو نہ ہو‘ چارجنگ کی سہولت ضرور ہونی چاہیے!
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قوم کو اور بالخصوص نئی نسل کو اپ ڈیٹنگ کا عارضہ کیوں لاحق ہے اور دن بہ دن شدت کیوں اختیار کرتا جارہا ہے۔ ہماری زندگی میں آخر ایسا کیا ہے ‘جو ہر وقت دنیا کے سامنے آنا چاہیے؟ اور معاشرے میں ایسا کیا ہو رہا ہے‘ جس سے ہمیں ہر لحظہ باخبر رہنا ہی چاہیے؟ اپ ڈیٹنگ دو دھاری تلوارکے مانند ہے۔ ایک طرف تو ہمیں یہ جاننا ہے کہ معاشرے میں کہاں کیا ہو رہا ہے‘ یعنی اپ ڈیٹ ہونا ہے اور اس اپ ڈیٹ کی بنیاد پر جو کچھ بھی ہمارے ذہن کے پردے پر ابھرے وہ دوسروں تک پہنچانا ہے ‘یعنی اُنہیں بھی اپ ڈیٹ کرنا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی اپ ڈیٹ تو ہو تو‘ مگر اپ ڈیٹ نہ کرے۔ یہ ٹو وے ٹریفک ہے۔ اُدھر سے گاڑی آرہی ہے‘ اِدھر سے گاڑی جارہی ہے۔
کبھی کبھی‘ دعوت دیئے جانے پر ‘یعنی کسی موضوع پر بہت سوچ سمجھ کر خاصے بلند معیار کے ساتھ بولنے کا معاملہ ہو تو انسان خاصی تیاری کرتا ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکلے‘ جس کا بتنگڑ بنایا جاسکے‘ مگر جب ہر وقت بولنا لازم ٹھہرے تو کوئی کہاں تک احتیاط برتے؟ یہی معاملہ اپ ڈیٹ کا بھی ہے۔ اگر‘ دو چار دن میں کوئی ایک معاملہ دنیا کے سامنے لانا ہو تو سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کی بھی جائے۔ جب بات بات پر اپ ڈیٹنگ لازم ٹھہری تو کیا چھان پھٹک اور کیا سوچ بچار۔ باتھ روم سے باہر آئیے تو اپ ڈیٹ۔ گھر سے باہر قدم رکھیے تو اپ ڈیٹ۔ دفتر پہنچے تو اپ ڈیٹ۔ پہلی چائے کی پہلی چُسکی لیجیے تو اپ ڈیٹ۔ لنچ ٹائم میں ٹفن کھولیے تو اپ ڈیٹ۔ پہلا نوالہ لیجیے تو اپ ڈیٹ۔ آخری نوالہ حلق سے اتاریے تو اپ ڈیٹ۔
1975 ء کے زمانے میں غالباً یوسف آزاد قوال سے ایک آئٹم سُنا تھا‘ جس میں ''پہنچی‘‘ کی تکرار تھی۔ ؎
تمہیں بھیجی تھی اک پہنچی‘ وہ پہنچی یا نہیں پہنچی
اگر پہنچی ہو پہنچنے تک تو لکھ بھیجو کہ ہاں پہنچی
جواب آیا کہ ہاں پہنچی جو بھیجی آپ نے پہنچی
مگر پہنچے تلک پہنچی نہیں پہنچی تو کیا پہنچی
کہیں بھولے سے جب ہم نے اتاری ہاتھ سے پہنچی
کوئی کم بخت آ پہنچی‘ اٹھا کر لے گئی پہنچی
یہاں پہنچی وہاں پہنچی‘ خدا جانے کہاں پہنچی
دیکھا آپ نے؟ اس ''پہنچی‘‘ نے تو ناک میں دم کردیا۔ بس‘ اپ ڈیٹ کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اس نے بھی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ لوگ زندگی کا ایک ایک لمحہ یوں شیئر کرنا چاہتے ہیں‘ گویا ایسا نہ کرنے کی صورت میں کوئی قیامتِ صغریٰ برپا ہوجائے گی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اپ ڈیٹ کے نام پر بہت کچھ سمارٹ فون کے ذریعے دوسروں تک پہنچ جاتا ہے۔ اس میں وہ باتیں بھی ہوتی ہیں ‘ جن کا اپنی ذات سے ہٹ کر کسی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یا دوسروں کو معلوم ہوجانے کی صورت میں صرف بگاڑ پیدا ہوتا ہے‘ مگر جب انسان کے سر پر اپ ڈیٹنگ کا بھوت سوار ہو ہے‘ تب وہ پلٹ کر نہیں دیکھتا اور آنکھ بند کرکے دوڑتا چلا جاتا ہے۔
نئی نسل کو اگر اپ ڈیٹ کا ہَوکا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ رگوں میں دوڑنے والا لہو گرم ہو تو جذبات پر قابو پانا بہت حد تک ناممکن ہوتا ہے۔ یہ کوئی ایسا پیچیدہ نکتہ نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔ حیرت‘ اگر ہوتی ہے تو اس بات پر کہ جو لوگ اب عمر کی پانچویں یا چھٹی دہائی میں ہیں‘ وہ بھی اپ ڈیٹ کے عارضے سے بچ نہیں سکے ہیں! اس کیڑے نے اُنہیں بھی ایسا کاٹا ہے کہ ہوش میں آنے کا نام نہیں لے رہے۔ سب کچھ جاننے کی ہوس ہے کہ توانا سے توانا تر ہوتی جاتی ہے اور جو کچھ جان لیا ہو اُس سے دوسروں کو آگاہ کرنا بھی سب نے اپنے آپ پر فرض کرلیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جن معاملات سے بہت دور کا بھی کوئی تعلق نہ بنتا ہو‘ اُن کے بارے میں جاننے کے حوالے سے ایسی بے تابی دکھائی جاتی ہے کہ دیکھ کر سمجھ میں نہیں آتا کہ زیادہ حیرت ہونی چاہیے یا افسوس۔ سارے دھندے‘ تمام مصروفیات ایک طرف ہٹاکر توجہ صرف اس ''نکتۂ جاں فزائ‘‘ پر مرکوز ہے کہ کسی نہ کسی طور دوسروں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانا جائے اور اپنے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ بتایا جائے۔ یہ اور بات کہ جاننے کے لیے کچھ ہے ‘نہ بتانے کے لیے۔ خیر‘ جوش و خروش تو ہے نا۔ یہی بہت ہے اور یہ جوش و خروش بھی‘ اسی لیے تو ہے کہ برباد کردیا جائے‘ ٹھکانے لگادیا جائے۔ زندگی کا کوئی واضح اور بڑا مقصد متعین کرنے کا چلن عام نہ ہو تو اجتماعی سطح پر زندگی کو ''24/7 اپ ڈیٹ‘‘ جیسے نفسی عوارض کی چوکھٹ پر قربان کرنے جیسی روش ہی پروان چڑھتی ہے۔