گرفتاری کیلئے تیار ہوں لیکن جرم بھی تو بتایا جائے:شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''گرفتاری کیلئے تیار ہوں‘ لیکن جرم بھی تو بتایا جائے‘‘ کیونکہ حکومت جسے جرم سمجھتی ہے‘ وہ ہمارے لیے روٹین کا معاملہ ہے اور اسے کبھی جرم نہیں سمجھا گیا۔ بیشک پچھلے تیس سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لی جائے ‘جسے سنہری الفاظ میں لکھا جا چکا‘ جبکہ ایک وزیراعظم تو غلط کام کر ہی نہیں سکتا‘ نیز مال بنانا‘ یعنی رزق حلال اکٹھا کرنا بھی کوئی جرم نہیں۔ علاوہ ازیں جرم صرف عوام کرتے ہیں اور جیلیں بھی انہی کیلئے بنائی گئی ہیں اور اسی لیے میرے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں ہو رہے‘ لیکن مجھ سے جو بلٹ پروف گاڑی واپس لے لی گئی ہے‘ اس سے میری سکیورٹی کو سخت خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور حکومت؛ اگر واقعی میری ہمدرد ہے تو یہ گاڑی ہی واپس کردیں کہ آخر انسانی ہمدردی بھی کوئی چیز ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ہماری بے گناہی ثابت ہو چکی اور نواز شریف سرخرو ہوئے:مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ہماری بے گناہی ثابت ہو چکی ہے اور نواز شریف سرخرو ہوئے‘‘ لیکن اس کی تردید کر کے اچھا نہیں کیا گیا کہ ایک خاتون کو جھٹلانا‘ جو وزیراعظم بھی بننا چاہتی ہے‘ اس کے جذبات کو مجروح کرنا کوئی اچھا فعل نہیں اور اگر میرا نہیں تو اپنے دیرینہ دوست ناصر بٹ ہی کا کچھ خیال کرنا چاہیے تھا کہ ایسے نیک نامی شخص کی ساری محنت پہ پانی پھیر رہے ہیں اور جو پانی کا صحیح استعمال نہیں ہے‘ جبکہ یہ اللہ کی نعمت ہے اور اسے غلط طور پر استعمال کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔چاہے‘ وہ چلو بھر پانی ہی کیوں نہ ہو‘ جبکہ اس کا بھی ایک صحیح استعمال موجود ہے‘ جس کی طرف بالآخر رجوع کرنا پڑتا ہے اور مجھے ان سے ایسی امید ہرگز نہیں تھی‘ جبکہ اس معصومانہ حرکت پر میرا مواخذہ بھی ہو سکتا ہے ‘آخر اس ملک کا کیا بنے گا؟ آپ منڈی بہائوالدین میں جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
یہ وقت آپس میں دست و گریبان ہونے کا نہیں:چودھری نثار
سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ''یہ وقت آپس میں دست و گریبان ہونے کا نہیں‘‘ بلکہ دیرینہ نیاز مندوں کی دست گیری کا ہے ۔اس لیے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میاں شہباز شریف جن کا جیل جانا ٹھہر گیا ہے‘ پارٹی کی باگ ڈور میرے سپرد کر کے پورے اطمینان سے اندر ہو جائے ‘کیونکہ احتسابی عمل سے شاید ہی کوئی بچے‘ جو یہ ذمہ داری سنبھال سکتا ہو‘ جبکہ مریم بی بی بھی ویڈیو کی پاداش میں سرخرو ہونے والی ہیں اور یہ بھی بلی کے بھاگوں چھینٹاٹوٹنے والی بات ہے اور ایسا لگتا ہے کہ میاں صاحب کو ان نتائج کا بخوبی علم تھا‘ جو وہ پریس کانفرنس کے دوران حیرانی اور مایوسی کی تصویر بنے نظر آ رہے تھے‘ کیونکہ ایک لفظ بول کر وہ بھی اس معاملے میں شریک اور ذمہ دار قرار پا سکتے تھے اور ان کی راہ کا یہ روڑا دُور ہونے پر میں انہیں دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ گر قبول اُفتد زہے عز و شرف۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں مختلف یونین کونسلوں کے چیئرمین حضرات کے ایک وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی حکومت کیلئے ایک بڑا سرپرائز ہوگا:کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی سنٹرل پنجاب کے صدر قمرالزمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی حکومت کیلئے ایک بڑا سرپرائز ہوگا‘‘ اور اگر وہ تبدیل نہ ہو سکے تو یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا سرپرائز ہوگا‘ کیونکہ سینیٹ میں کچھ بے پیندے کے لوٹے بھی موجود ہیں‘ جو کسی وقت کسی طرف بھی گھوم کر پانسہ پلٹ سکتے ہیں‘ اس لیے اپوزیشن کو پیشگی بغلیں بجانے کی بجائے ان لوٹوں کی منت سماجت کی طرف توجہ دینی ہوگی اور ان میں کچھ حضرات ایسے بھی ہیں‘ جنہیں ہر وقت حکومت کی خوشنودی درکار ہوتی ہے اور وہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے بھی حقیقتاً اس کے ساتھ نہیںہوتے ‘لیکن اتنا خیال رہے کہ ان لوگوں کو قائل کرنے کی بجائے خود قائل ہو کر نہ رہ جائیں اور اندیشہ یہ ہے کہ حکومت ہارس ٹریڈنگ کی کوشش کرے گی ۔ آپ میانوالی میں ایک کنونشن سے خطاب کر رہے تھے اور اب آخر میں ابرار احمد کی یہ نظم:
موہوم کی مہک
دھند ہے/ دھند میں ہاتھوں کا پتا چلتا نہیں/ لمس کوئی مرے کاندھے پہ دھرا رہتا ہے/ سرگراں پھرتی ہے‘ چکراتی ہے/ ایک انجان مہک/ میرے ہر خواب کی راہداری میں/ گنگناہٹ سی کوئی/ ساتھ اپنے لیے پھرتی ہے مجھے/ کتنی راتوں سے گزرتا ہوں/ اس اک رات کی سرشاری میں/ جس نے مجھ پر کبھی/ اسرارِ طلب کھولنا ہے/ تیر کوئی مرے پہلو میں اترنا ہے کہیں/ اک پرندہ ہے‘ جسے/ میرے ہونٹوں پہ کبھی بولنا ہے/ ایک بادل ہے جسے‘میری جلتی ہوئی مٹی پہ/ برسنا ہے کبھی/ ایک دیوار ہے‘ جس سے میں نے/ اپنے اس گھومتے سر کو/ کبھی ٹکرانا ہے
تُو تکلم مرا‘ لکنت میری/ تو مری تشنہ لبی‘ میری لگن/ تو زمیں پر مرے ہونے کا سبب‘ میرا گماں/ تو وہ اک نغمۂ نو... جس کو ترستی ہے‘ سماعت میری/ تو وہ لمحہ جو مرے بس میں نہیں
میں جو رنجیدہ ہوں‘ تُو رنج مرا/ تُو مرے دل کی دکھن‘ میری تھکن/ میں تری سمت ہمہ وقت رواں/ دھند ہے/ دھند میں رستے کا پتا چلتا نہیں/ آنکھ بھرتی ہے‘ چھلک جاتی ہے/ ڈھونڈتا ہوں تجھے اس بے سروسامانی میں/ اور دن رات کی طغیانی میں/ تو مرے پاس نہیں‘ دُور نہیں/ تو وہ معلوم‘ جو معلوم نہیں/ اے کہ وہ تُو! کسی موہوم ستارے کی طرح/ کہیں موجود‘ اگر ہے بھی/ تو موجود نہیں!
آج کا مطلع
کچھ بھُولو‘ کچھ یاد رہو
شاد رہو آباد رہو