ڈاکٹر سیدوسیم اختر کی وفات پر تحریک اسلامی ہی نہیں تحریک سے باہر بھی اہلِ پاکستان ایک بہت بڑی تعداد غم میں مبتلا ہوگئی۔ڈاکٹر صاحب 9ستمبر1956ء کو لاہور میں پیداہوئے۔ آپ کے والد گرامی سیداختر حسین سول اینڈ ملٹری اکاؤنٹس میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ جماعت اسلامی پاکستان کے سابق مرکزی ناظم مالیات جناب مسعوداحمد خان بھی ان کے ساتھیوں میں سے تھے۔ اخترحسین صاحب انتہائی قابل افسر اور ازحد خوش خُلق مردِ مومن تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں مال اور اولاد کی نعمت سے خوب نوازا۔ اللہ کے فضل سے ان کی اہلیہ بھی عظیم خاتون تھیں۔ ساری اولاد نیکی کے راستے پر گامزن اور تحریک اسلامی میں سرگرمِ عمل ہے۔
وسیم اختر صاحب کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں۔ دو بھائی اور ایک بہن ڈاکٹر صاحب کی زندگی ہی میں فوت ہوگئے تھے۔ ان کی بہن سیدہ نوشین اختر برطانیہ میں تھیں‘ وہیں ان کی وفات ہوئی۔ اتفاق سے میں بھی ان دنوں برطانیہ میں تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی ہمشیرہ لندن ویسٹ میں اپنے میاں سید خالدحسین کے ساتھ مقیم تھیں۔ لندن ویسٹ جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں مسجد میں دوستوں نے بتایا کہ ڈاکٹر سیدوسیم اختر صاحب کی ہمشیرہ سیدہ نوشین اختر پچھلے دنوں فوت ہوئی ہیں اور ان کے میاں سیدخالد حسین بھی مسجد میں موجود ہیں۔ خالد صاحب سے خصوصی طور پر ملاقات کی اور مرحومہ کی وفات پر اظہارِ افسوس اور تعزیت کی۔ سیدخالد حسین نے اپنی مرحومہ اہلیہ کے جو اوصاف بیان کیے‘ وہ سن کر دل میں یقین ہوگیا کہ مرحومہ اہل جنت میں سے ہیں۔
خالد صاحب کی زبانی معلوم ہوا کہ مرحومہ بہت متحرک اسلامی ورکر تھیں۔ بہت تھوڑی عمر میں اللہ نے ان کو اپنے پاس بلا لیا۔ وہ اولاد سے بھی محروم تھیں‘ مگر کبھی بددل اور مایوس نہیں ہوئی تھیں۔ اللہ نے مرحومہ کو نفس مطمئنہ عطا فرمایا تھا۔ انہوں نے اپنی بیماری کے دوران ہی وصیت فرمائی تھی کہ وفات کی صورت میں ان کے جسد خاکی کوکہیں منتقل کرنے کی بجائے اسی سرزمین پر دفن کردیاجائے۔ مرحومہ کے شوہر سید خالد حسین صاحب سے ان کی اہلیہ کی وفات پر تعزیت کی اور دعائے مغفرت کی۔ وہ اپنی اہلیہ کی خوبیوں کے مداح اور ان کی پارسائی وتقویٰ کی گواہی دے رہے تھے۔ ایسی خوش قسمت خواتین حدیث کے مطابق ؛اللہ کی رحمت ومغفرت کی مستحق قرار پاتی ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم کے دیگر بھائیوں کے نام سیدشاہداختر مرحوم‘ سیدواصف اخترمرحوم‘ سیدنظیف اختر اور سیدذیشان اختر ہیں ‘جبکہ ان کی دوسری ہمشیرہ کا نام سیدہ نووین اختر ہے‘ جو لاہور میں مقیم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سیدوسیم اختر کو ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں عطا فرمائیں۔ اپنی زندگی میں چاربیٹیوں اور بیٹے کی شادی کردی تھی۔ چھوٹی بیٹی اس وقت ایم بی بی ایس کررہی ہے۔ بیٹا عمرعبدالرحمن بھی ڈاکٹر ہے۔ سب بھائی اور بیٹا دورِ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رفیق یا رکن اعلیٰ ذمہ داریوں پر فائز رہے۔ بعد میں جماعت کے کارکن اور رکن بنے۔ سیدذیشان جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے ہیں‘ ریاض سعودی عرب میں مقیم تھے‘ تو وہاں حلقہ اسلامی کے ذمہ دار رہے۔ سعودی عرب سے واپس آئے تو آج کل جماعت اسلامی ضلع بہاولپور کے امیر کے طور پر فرائض ادا کررہے ہیں۔ مرکزی شوریٰ کے رکن ہیں اور اپنے بھائی سیدوسیم اختر کی طرح بہت میٹھی اور عظیم شخصیت کے مالک ہیں۔ ڈاکٹر وسیم مرحوم کو اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ نے اپنا پوتا دیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ ان کے پوتے ابراہیم عمر کیلئے ہماری دعا ہے کہ وہ بھی اپنے عظیم دادا کی طرح عظمتوں کی منزلیں طے کرے۔ سیدذیشان اختر اسلامی جمعیت طلبا میں ڈویژن کی نظامت سے لے کر مرکز میں معتمدعام کے منصب پر کام کرتے رہے۔ ان کے بیٹے عبداللہ ذیشان‘ ابراہیم ذیشان اور دانیال ذیشان بھی جمعیت میں ہیں۔ ڈاکٹر مرحوم کی بیٹیوں میں سے دو حافظہ قرآن اور جماعت اسلامی کی رکن بھی ہیں۔ یہ خاندان ہر لحاظ سے ایک مثالی خاندان ہے۔
ڈاکٹر سید وسیم اختر مرحوم ومغفور کے ساتھ ایک طویل عرصے سے بہت ہی قریبی برادرانہ تعلق رہا۔ جس زمانے میں وہ اسلامی جمعیت طلبہ میں تھے‘ اس زمانے میں شناسائی ہوئی اور میں ان کے اخلاص اور سنجیدگی سے بہت متاثر ہوا۔ جماعتی ذمہ داریوں پر انہوں نے ضلع بہاولپور میں مثالی کام کیا۔ ان کی پیدایش لاہور کی تھی۔ میڈیکل کالج بہاولپور میں تعلیم کے دوران انہوں نے محسوس کیا کہ بہاولپورایک اچھی اور زرخیز زمین ہے ‘جہاں تحریک کا کام اچھی طرح کیا جاسکتا ہے‘ اسی سوچ کے تحت اپنے خاندان (والدین اور بہن بھائیوں) کو بھی وہاں منتقل ہونے پر آمادہ کرلیا۔ڈاکٹر وسیم اختر صاحب بہاولپور میں تحریک اسلامی کی پہچان بن گئے۔ تین مرتبہ وہاں سے صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پہلی بار 1990ء میں اہلِ بہاولپور نے انہیں بھاری اکثریت کے ساتھ منتخب کیا۔ ان کو 32,382ووٹ ملے‘ جبکہ ان کے قریب ترین حریف کو 11,222ووٹ ملے۔ ڈاکٹر صاحب دوسری بار 2002ء میں 21,078ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ تیسری بار 2013ء میں وہ پنجاب سے جماعت کے اکلوتے ایم پی اے منتخب ہوئے۔ اس مرتبہ ان کے ووٹ 29,978تھے۔ اپنی ہر میعاد میں ڈاکٹر صاحب نے اسمبلی میں بہترین نمائندے کے طور پر اپنا سکہ منوایا۔ اہلِ بہاولپور کے بہت سے مسائل حل کرانے کے علاوہ اسلامی موضوعات پر قانون سازی میں بھی اپوزیشن میں ہونے کے باوجود بہت نمایاں کارکردگی کے ساتھ اپنا اور جماعت کا نام روشن کیا۔
جس زمانے میںر اقم الحروف امارتِ صوبہ پنجاب کی ذمہ داریاں ادا کررہا تھا‘ تومیں نے امارتِ صوبہ میں اپنے آخری سیشن میں ساتھیوں کی مشاورت سے ڈاکٹر سیدوسیم اختر صاحب کو نائب امیرصوبہ مقرر کیا۔ شروع میں مرحوم نے کسی قدر جھجک ظاہر کی‘ مگر میرے اصرار پر وہ یہ ذمہ داری اٹھانے پر آمادہ ہوگئے۔ بعد میں وہ متحدہ پنجاب کے دو سیشن کے لیے امیر رہے۔ ڈاکٹر صاحب کی مصروفیات گونا گوں تھیں‘ مگر اس کے باوجود انہوں نے صوبہ بھر کے ہر ضلع میں اپنے ساتھیوں سے قریبی روابط رکھے اور ہر ساتھی کے غم اور خوشی میں شریک ہوتے رہے۔ وہ عوامی شخصیت تھے۔ ان کو کبھی غصے میں نہیں دیکھا گیا۔ اتنے خوش اخلاق کہ مخالفین بھی ان کے سامنے ہی نہیں ان کی عدم موجودگی میں بھی ان کا بے حد احترام کیا کرتے تھے۔ ایسی شخصیات کم کم ہی تحریک اسلامی کو نصیب ہوتی ہیں۔ مرحوم نے ڈاکٹر نذیراحمدشہید کی یادیں تازہ کردیں۔ ڈاکٹر صاحب پنجاب اسمبلی میں جماعت کے اکیلے رکن تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے تعلیمی اداروں میں قرآن کی تعلیم کا بل اسمبلی میں پیش کیا اور اسے منظور کروایا۔ یہ ان کا ایسا کارنامہ ہے ‘جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ حکمران‘ اگر اس پر عمل کرنے میں پس وپیش سے کام لے رہے ہیں‘ تو یہ ان حکمرانوں کی بدنصیبی ہے۔ بہرحال ڈاکٹر وسیم اختر مرحوم ومغفور کو اس کا اجر ہمیشہ پہنچتا رہے گا۔ وہ زندگی بھر خیر کے علم بردار رہے اور ہر شخص کو دوزخ کی آگ سے بچانے کے لیے شیریں زبان اور میٹھے بول سے اپنے قریب لانے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے خاندان کا ہر فرد ان کی خوبیوں کا تذکرہ کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص پیدایشی طور پر صاحبِ خیر تھا۔ ہوش سنبھالتے ہی اللہ کے دین کا سپاہی بن گیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ ولیٔ کامل میڈیکل ڈاکٹر ہونے کے ساتھ روحانی مسیحا بھی تھا۔
چند سال پہلے دل کا آپریشن ہوا تو ہسپتال میں عیادت کیلئے حاضر ہوا۔ اس موقع پر مجھ سے فرمانے لگے: میں نے کبھی بھی زندگی کے بارے میں یہ فکر نہیں کی کہ یہ کتنی ہے۔ بس‘ یہ فکر ہمیشہ لاحق رہتی ہے کہ زندگی کا کوئی لمحہ خیر سے خالی نہ رہے۔ کیا عظیم شخصیت کا مالک تھا یہ برادر عزیز! زندگی کے آخری سال میں ایسی بیماری لاحق ہوئی کہ جس کا کوئی سراغ کسی ہسپتال میں کوئی ماہر سے ماہر ڈاکٹر نہ لگا سکا۔ دن بدن کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے گئے۔ منصورہ میں جب ملاقات ہوتی تو دیر تک ان سے تبادلہ خیالات رہتا۔ کبھی ان کو بددل اور مایوس نہیں پایا۔ وفات سے چند ماہ قبل کراچی کے ہسپتال میں کئی ہفتے زیرعلاج رہے‘ مگر کوئی افاقہ نہ ہوا۔ بہاولپور میں بھی ہسپتال میں ڈاکٹر اپنی بھرپور کوشش کرتے رہے‘ مگر خالق کائنات کو منظور نہیں تھا کہ یہ ہیرا اور روشن ستارہ مزید اس دنیا میں سانس لے۔ اللہ نے اپنے پیارے بندے کو اپنے جوارِ رحمت میں بلالیا۔ اللہ‘ اپنے مخلص بندے کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ (آمین)