تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     09-07-2019

کُن کی گہرائیاں

آپ نے دیکھا ہو گا کہ بچوں کو ہمیشہ ہر بات کی جلدی ہوتی ہے ۔ جب دکاندار سے ٹافی مانگتے ہیں ؛ اگر وہ کسی اور کو اشیاء دینے میں مصروف ہو تو بیتاب بچّہ بار بار اسے آواز دیتاہے ۔ جیسے جیسے انسان بڑا ہوتا چلا جاتا ہے ‘ ویسے ویسے اسے کچھ نہ کچھ صبر آنے لگتاہے ۔ جب وہ ایک مکان تعمیر کرواتا ہے تو اسے معلوم ہوتاہے کہ یہ چھ ماہ میں مکمل ہوگا ۔یہ چھ مہینے وہ صبر اور سکون سے گزار دیتاہے ۔ بچوں کو کھیلنے کے لیے جانے اور سکول سے چھٹی ہونے سمیت ہر چیز کی جلدی ہوتی ہے ‘اسی طرح انہیں سفر کے دوران فاصلہ جلد طے ہو جانے کی جلدی ہوتی ہے ۔ بار بار وہ پوچھتے ہیں ؛ گھر کب آئے گا؟ جتنا دور اندیش شخص ہوگا ‘ اتنا ہی اس کے منصوبے بڑے ہوں گے ‘ اتنا ہی زیادہ وہ اپنے منصوبوں میں صبر اور سکون سے کام لے گا ۔ 
قرآن میں لکھا ہے کہ جب خدا ''کُن‘‘ کہتا ہے‘ یعنی جب وہ کسی کام کو ہونے کا حکم دیتاہے تو وہ ہو جاتا ہے ۔ اس سے اکثر لوگ یہ سمجھے کہ خدا ہر کام ایک پل میں کر دیتاہے ؛حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ خدا ہر کام کو مکمل منصوبہ بندی سے کرتاہے ؛ اگر آپ قرآن پڑھیں تو اس میں لکھا ہے کہ چھ دن کا ذکر آیا ہے ۔ ان چھ دنوں میں زمین و آسمان بنائے گئے اور کرہ ٔ ارض میں جانداروں کی ضرورت کی سب اشیا ء رکھی گئیں ۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ خدا نے چھ دن کیوں لگائے۔ آنِ واحد میں سب کچھ پیدا کیوں نہ کر دیا ؟ آپ یہ دیکھیں کہ زمین بنی انسان کے لیے تھی‘ انسان کی آزمائش کے لیے اسے گوشت پوست کے ایک کمزور بدن میں خواہشات کے ساتھ رکھا جانا تھا ‘لیکن اس اسی زمین میں سترہ کروڑ سال تک ڈائنا سارز حکومت کرتے رہے ۔ موجودہ انسان ہو مو سیپین کی کل تاریخ ہی تین لاکھ سال ہے ‘ لیکن ؛اگر آپ زمین کی تاریخ پڑھیں تو یہ بہت خوفناک ہے ۔ جب یہ سورج کے جل اٹھنے کے بعد ا س کے مدار میں گھومتی ہوئی دوسرے سیاروں سے ٹکرا رہی تھی ۔ اس وقت درجہ ٔ حرارت اتنا زیادہ تھا کہ اس پر کسی زندگی کاوجود ممکن ہی نہیں تھا‘ پھر یہ آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوئی ۔ اس کے بعد اس پہ آکسیجن پید اہونا شروع ہوئی ۔ جب کافی آکسیجن بن گئی تو اس نے دھاتوں کے ساتھ تعامل کر کے ان کے آکسائیڈ بنانا شروع کیے اور زمین پر mineralsکی تعداد بڑھتی گئی ۔زمین کی ابتدا کے مختلف مراحل میں سے ہر مرحلہ کروڑوں سالوں پہ محیط تھا۔ جب آکسیجن کافی ہو گئی تو سلفر پہ زندہ رہنے والی جاندار اشیا مر گئیں۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ وہ مخلوق پیدا ہوئی ‘ جس نے آکسیجن اور گلوکوز پہ زندہ رہنا تھا ۔پہلے پودے بنے ۔ زمین جنگلات سے ڈھک گئی ‘ پھر زلزلوں میں یہ عظیم جنگلات زمین کے نیچے دفن ہو گئے‘ تا کہ درختوں کی لکڑی کے کاربن سے کوئلہ‘ تیل‘ گیس اور ہیرے جواہرات بن سکیں ۔ آپ فاسل فیولز کو پڑھیں ۔ یہ کیا ہیں ۔ فاسل فیولز‘ یعنی کوئلہ ‘ تیل اور گیس وغیرہ درختوں اور زمین کے نیچے دفن ہو جانے والے جانداروں کے جسموں سے بنا ہے ۔ جب تک انسان نے ہوش سنبھالا تو اس سے پہلے ہی زمین ان سب مراحل سے گزر چکی تھی ۔ 
یہی صورتِ حال زندگی کی ہے ؛ اگر‘ آپ زندگی کے بارے میں گہرائی میں سوچیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایک دفعہ پیدا ہونے کے بعد زندگی کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ اس کی مثال ایسے ہے کہ اس وقت دنیا میں زندگی بسر کرنے والے سات ارب انسانوں کا شجرہ ٔ نسب نکالیں تو وہ کروڑوں مرحوم لوگوں سے جا ملے گا۔ یہ کروڑوں لوگ لاکھوں مرحوم لوگوں کی اولاد ہیں‘ اسی طرح پیچھے جاتے جائیں تو یہ جا کر ایک جد ّ امجد سے جاملے گا‘ یعنی مرنے سے قبل ایک جاندار بچّے پیدا کر دیتاہے ۔ اس سے بھی زیادہ گہرائی میں جائیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر خلیہ خود مرتے ہوئے دو خلیات پیدا کر جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی امر ہے ۔ جب اس زمین پر پہلا جاندار خلیہ پیدا ہوا تھا تو اسی وقت سے زندگی کو خدا نے امر کر دیا تھا ۔اس کے بعد کرۂ ارض کے ہنگامہ خیز حالات میں یہ زندگی ارتقا کرتی رہی ۔ یہ سنگل سیل والے جانداروں سے شروع ہوئی ۔ پھر یہ کثیر خلوی جانداروں تک آئی۔ پھر یہ پانی سے باہر نکلی ۔ یہ ریپٹائلز‘ میملز اور پرائمیٹس تک پہنچی ؛حتیٰ کہ انسان پیدا ہو گیا۔ 
ہارون یحییٰ جیسے سکالرز کو یہ بات ہضم نہیں ہوتی تھی ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ارتقا مذہب مخالف نظریہ ہے ‘ اسی لیے وہ ساری زندگی یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ خدا نے کّن کہا اورساری مخلوقات اس حالت میں پیدا ہو گئیں ‘ جس میں آج ہم ان کو دیکھتے ہیں ‘ جبکہ یہ عقل اور منطق کے ہر اصول کے خلا ف تھا۔ یہ مسلمانوں کی طرف سے مختلف سائنسز کو پڑھے بغیر ان کا انکار تھا ۔ہونا تو یہ چاہیے کہ پہلے آپ ایک سائنس کو پڑھیں۔ آپ کو پتا تو ہو کہ ریڈیو کاربن ڈیٹنگ ہوتی کیا ہے ۔ فاسلز کی سائنس کیا ہے اور جینز او رڈی این اے کو کیسے پڑھا جا تا ہے۔ اس کے بعد ہی انسان اس قابل ہو سکتاہے کہ مغربی افکار کا انکار کر سکے ‘ لیکن یہاں ہوا اس کے برعکس ہے ۔ یہاں ہر چیز کو پڑھے بغیر ‘ ہر evidenceکا جائزہ لیے بغیر ہی اس کا انکار کر دیا گیا ہے ‘ جبکہ evidenceبے تحاشا ہے ۔ 
آج بھی اگر آپ غور کریں تو ماں کے پیٹ میں بچہ ایک دم پیدا نہیں ہوتا۔ پہلے ماں اور باپ کا ایک ایک خلیہ آپس میں ملتاہے ‘ پھر نئے بننے والا خلیہ ایک سے دو ‘ دو سے چار اور چار سے آٹھ کی شکل میں بڑھتا چلا جاتاہے ۔ دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پہلے بنتی ہے ‘ پھر اس کے گرد ساری ہڈیاں ‘ گوشت اور خون پیدا ہوتاہے ‘ اسی طرح آپ دنیا میں جتنی بھی چیزیں دیکھیں گے‘ وہ ایک تدریجی عمل میں اپنی تکمیل کو پہنچتی ہیں‘ جبکہ خدا ایک ایسا منصوبہ ساز ہے ‘ جو انسان کو پیدا کرنے سے پہلے سترہ کروڑ سال تک اس زمین پہ ڈائناسارز کی حکومت دیکھتا رہا ہے ۔ 
آپ کا کیا خیال ہے کہ وہ انسان کا حساب کتاب کرنے کے لیے پانچ چھ سو سال مزید انتظار نہیں کر سکتا۔ اور‘ جب خدا کو نہ ماننے والے اس کی existenceکے بارے میں طنزیہ گفتگو کرتے ہیں‘ تو کیا وہ فوراً آپے سے باہر ہو کر زمین پہ قیامت نازل کر دے گا؟ 
جو جتنے بڑے مرتبے پر فائز ہوتاہے ‘ جس کے پاس جتنا زیادہ علم ہوتاہے ‘ اتنا ہی اس کے اند رصبر ہوتا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں آپ جتنے بھی مظاہر دیکھیں گے ‘ وہ ایک تدریجی عمل سے گزر کر برگ و بار لاتے ہیں ۔اس تدریجی عمل کو جتنا جتنا انسان جانتا چلا گیا ‘ اسے وہ مختلف سائنسز میں نوٹ کرتا رہا ۔ خدا‘ اس بات پہ قادر ہے کہ وہ ایک ہی دن میں درخت پر پکے ہوئے آم اگا دے‘ لیکن 99.9فیصد مواقع پر وہ معجزے برپا نہیں کرتا‘ بلکہ اسی تدریجی عمل سے کام لیتا ہے ۔
یہ تدریجی عمل‘ یہ چھ دن ''کُن ‘‘ کی گہرائیاں ہیں ‘کبھی تو اس پر بھی مسلمان غور کریں گے ۔
دنیا میں آپ جتنے بھی مظاہر دیکھیں گے ‘ وہ ایک تدریجی عمل سے گزر کر برگ و بار لاتے ہیں ‘ یہ تدریجی عمل ‘ یہ چھ دن ''کُن ‘‘ کی گہرائیاں ہیں ‘کبھی تو اس پر بھی مسلمان غور کریں گے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved