تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     10-07-2019

شمالی کوریا اور چین کی قرابت داری

اتوار کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ‘شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ‘ سے غیر عسکری علاقے (ڈی ایم زی) میں ملے‘ جو شمالی اور جنوبی کوریا کو تقسیم کرتا ہے۔ایک گھنٹہ جاری رہنے والی ملاقات کے بعد دونوں ممالک نے شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاروں میں تخفیف پر مذاکرات کی بحالی کے لیے ٹیمیں تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے‘جبکہ دوسری جانب اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے وفد نے بدھ کو کہا ہے کہ امریکہ کو ''پابندیاں عائد کرنے کا جنون ہے ‘‘۔ یہ الزام بھی عائد کیا گیاکہ واشنگٹن جزیرہ نما کوریا کے ''پرُامن ماحول کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔بیان اقوام متحدہ میں دونوں ممالک کے سربراہان کے درمیان ایک تاریخی ملاقات کے بعد سامنے آیا۔
امریکہ کے ساتھ چین کی تجارتی جنگ سے انکار نہیں کیا جا سکتاہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے 20جون کو شمالی کوریا میں اپنے دورِ اقتدار کے 14 برسوں میں پہلی بار شمالی کوریا میں جا کرکم جونگ صدر سے ملاقات کی ۔شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ کے ساتھ ملاقات کا دورہ 20 Gاجلاس سے ایک ہفتہ قبل شیڈول کیا گیا‘جس میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات بھی ہونا تھی۔ادھر جاپان میں 28‘29 جون کو 20 G کے اجلاس میں عالمی سطح پر کئی اہم ملاقاتیں ہوئیں۔سب سے ضروری بات 20 Gکے اجلاس میں عالمی رہنماؤں نے امریکہ اور چین کے درمیان ممکنہ تجارتی جنگ بندی کا تعین کرنے کا موقع فراہم کیا‘تاہم شمالی کوریا کے ایلچی کے دورے کا وقت کلیدی رہا‘ کیونکہ پیانگ یانگ اور واشنگٹن کے درمیان فروری سے ویت نام میں ایٹمی مذاکرات ہوئے جوطویل عرصے سے جاری ہیں۔
یہ دورہ ایک رسمی معاملہ تھا۔ کم جونگ اور اس کی بیوی زئی ‘قومی سلامتی کے مشیران کے ساتھ‘ اعلیٰ اقتصادی اور غیر ملکی امور کے حکام نے‘ چین کے صدر کا پیانگ یانگ کے ہوائی اڈے پراستقبال کیا۔ دونوں رہنماؤں نے ایک خبر رساں ادارے اور اقتصادی ترقی کے ایجنڈے پر 15 مہینے بعد بات چیت کی۔ ان کے مکمل سفر کا پروگرام نامعلوم نہیںرہا‘ وہ شمالی کوریائی صدر کی ضیافت میں بھی شریک ہوئے۔ چینی صدرنے کوریائی دوستی ٹاور کا دورہ بھی کیا ۔شی جن پنگ کے دورے سے شمالی کوریا کا چین کے ساتھ روایتی اتحادمزید مستحکم ہو گا۔ذہن نشین رہے کہ سابق چین کے صدر ہو جن تاؤ نے 2005ء میں شمالی کوریا کا دورہ کیا تھا‘جس کے بعد پیانگ یانگ نے کئی ایٹمی اور متعدد میزائل ٹیسٹ کئے ‘ جس میں اس کے سٹریٹجک ہتھیاروں کے پروگرام اہم ہیں۔چین اور شمالی کوریا کے درمیان دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے ریاستی دورے کی نگرانی کرتے ہوئے‘ امریکہ کے ساتھ پیانگ یانگ کے ایٹمی مذاکرات کے ساتھ‘ واشنگٹن اور بیجنگ کی تجارتی جنگ پر گہرے اثرات مرتب ہوتے دکھائی دیتے ہیں‘ کیونکہ ایک لازمی اقتصادی زندگی کی حیثیت کے طور پر‘ چین نے شمالی کوریا کے لئے اہم تعاون میں شراکت دینے کے لئے ‘موجودہ یو این او پابندیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ‘گنجائش نکالنے کی کوششیں تیز کررکھی ہیں ۔اس میں سیاحوں کے بہاؤ میں اضافہ ہوگا ‘ جزیرے میں بڑھتی ہوئی رقم‘ پیانگ یانگ کا اقتصادی ترقی کے لیے نقد رقم فراہم کرنا‘ اور ضروری اشیاء استعمال کرنے میں اہم خوراک کی کمی کے امکان کو دور کرنا شامل ہے۔اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ حمایت کے علاوہ‘ غیر قانونی سرحد اور تجارت بھی اس سلسلے کی اہم کڑی ہے ‘جو شمالی کوریا کے لئے ایک اہم تعلق ہے۔
شمالی کوریا کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات امریکہ کے لیے واضح پیغام ہیںکہ کسی قسم کے ہتھیار سائٹ کے خاتمے کی تجویز رد کی جا سکتی ہے۔یہ کوئی اتفاق نہیں کہ 20 G کے سربراہی اجلاس میں ٹرمپ کے ساتھ بیٹھے جانے سے قبل ایک ہفتے پہلے پیانگ یانگ کا دورہ ہو رہا تھا۔چین کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا اور یہی حقیقت بھی ہے کہ شمالی کوریا ‘چین کا قریبی اتحادی ہے۔پیانگ یانگ کے اعلیٰ ترین سفر کا دورہ چین کے لئے ایک موقع ہے‘ جس سے وہ اس حقیقت کو واضح کرنے میں کامیاب رہا کہ اب بھی شمالی کوریا ‘اس کا اہم کھلاڑی ہے۔اس دورہ میں 20 G میں شی جن پنگ کی حیثیت کو فروغ دینے میں مدد ملے گی اور چین کے تعاون کے بغیر کام کرنے والے ٹاسک فورس صرف یاد دہانی کی حیثیت سے کام کریں گے‘ جبکہ دونوں ممالک کی قرابت داری سے ‘امریکی قیادت کازیادہ سے زیادہ شمالی کوریا پردباؤ بے بنیاد ہوجائے گا۔
اس کے علاوہ ایشیاء کا دورہ شمالی کوریا کو چین کے ساتھ اپنے تعلقات کی طاقت کو بڑھانے میں مددگارثابت ہوگا‘ جو ایٹمی مشن کے نقطہ نظر پر امریکہ کے ساتھ بات چیت میں اپنی حیثیت کو بڑا منوانے میں بھی اہم ثابت ہوسکتا ہے ۔چین کے شمالی کوریا کے بڑھتے ہوئے تعلقات وقت کے لحاظ سے بھی اہم ہیں‘جبکہ واشنگٹن کئی مسائل پر الٹی میٹم کو زور دیے ہوئے ہے۔صرف یہی نہیں‘گزشتہ ہفتے چین اور روس نے اقوام متحدہ میں بین الاقوامی ادارے کے لئے امریکی بولی کو روک دیا‘جس میں شمالی کوریا کو ناقابل ِیقین حد تک توانائی منتقل کرنے کی پابندیاں شامل تھیں۔اس سے قبل شمالی کوریا کوبہت سی پابندیوں کا سامنا رہا اوراب ان پابندیوں سے تمام اقسام کے ایندھن کی ترسیل‘ کوکوریا کیلئے روک دیا جاناتھا۔
واضح رہے کہ 2018ء سے کم جونگ محتاط پالیسی اپنائے ہوئے ہے اور کھلے عام امریکی مخالفت کی پالیسی کو ترک کرکے کوئی دھمکی یا واضح پیغام نہیں دیا گیا۔دریں اثناء چین کو اس وقت وائٹ ہاؤس کی طرف سے بڑے تجارتی دباؤ کا سامنا بھی ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ کئی معاہدوں کے معاملات کو حل کرنے کے امکانات بہت کم ہیں‘ جو تنازعات کو ختم کر دیں گے‘ لہٰذاامریکہ کے ساتھ شمالی کوریا کے ساتھ مذکورہ ایٹمی مذاکرات اس حوالے سے پوری دنیا میں موضوع بحث ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved