ملک بھر میں ہر سال گرمی کی شدت بڑھنے کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں جون سے لے کر اگست تک تعطیلات ہوتی ہیں۔ ان تعطیلات میں طالب علموں کو گھر میں تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے بہت سا کام تفویض کیا جاتا ہے۔ طالب علم تعلیمی سرگرمیوں کو انجام دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اہل ِخانہ کے ہمراہ کچھ وقت سیر وسیاحت کے لیے بھی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ والدین بھی اپنے بچوں کی خواہش اور تمنا دیکھتے ہوئے تعطیلات کا کچھ حصہ اپنے بچوں کے ہمراہ ان علاقوں میں گزارتے ہیں ‘جہاں پر موسم خوشگوار ہو اور کچھ وقت قدرت کے حسین مناظر کو دیکھنے میں صرف ہو سکے۔ لوگ اپنے اپنے وسائل اور مالی حیثیت کے مطابق‘ ان علاقوں میں رہائش ‘ خورونوش اور تفریح کا اہتمام کرتے ہیں۔
اسی طرح بہت سے لوگ اپنے اہل ِخانہ کے علاوہ اپنے دوست احباب کے ساتھ بھی موسم گرما کی تعطیلات میں پہاڑوں کے دامنوں میں بلند مقامات پر سرد ہواؤں سے لطف اندوز ہونے کے لیے مختلف مقامات کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں؛ چنانچہ ہم ا س بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ موسم گرما میں مری ‘ بھوربن‘ ایوبیا‘ نتھیا گلی‘ خیرا گلی‘ ایبٹ آباد ‘ کاغان‘ ناران‘ سکردو اور سوات کے علاقوں میں بڑی تعداد میں سیاحت کے لیے لوگ روانہ ہوتے ہیں اوروہاں کے موسم سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ قدرت کے حسین مناظر سے اپنے دل اور روح کو تروتازہ کرتے ہیں۔ ہر انسان فطرت کے حسن میں دلچسپی رکھتا ہے۔ میں نے جن ایام میں انگریزی ادب میں ماسٹر ڈگری کو مکمل کیا‘ ان دنوںمیں ‘میں نے ولیم ورڈز ورتھ کی قدرت کے حسین نظاروں سے متعلقہ شاعری کا بھی بغور مطالعہ کیا اور قدرت کے دلکش نظاروں کی‘ جس اندازمیں ولیم ورڈز ورتھ نے تصویر کشی کی ہے ؛آج تک اس کے اثرات میرے ذہن پر موجود ہیں۔
اتوار کے روز چند دوست احباب کے ہمراہ مجھے ایک مرتبہ پھر مری اور گردونواح کے علاقوں میں تین روز کے لیے جانے کا موقع میسر آیا۔ مری پہنچنے پر جب وہاں کے موسم کا لاہور کے موسم سے موازنہ کیا تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ لاہور کی تکلیف دہ گرمی کے با لمقابل مری میں ٹھنڈک کی طرف مائل انتہائی خوشگوار موسم تھا۔ مری کے گردونواح کے علاقوں کا موسم بھی طبیعت پر نہایت خوشگوار اثرات چھوڑ رہا تھا۔ بھور بن میں کیفیت یہ تھی کہ دن کے وقت موسم میں کسی حد تک حرارت تھی‘ لیکن رات کو آسمان پر اُمڈھتے ہوئے بادل اور لپکتی ہوئی بجلیوں کے خو ش کن اثرات طبیعت پر مرتب ہو رہے تھے اور یوں محسوس ہو رہا تھا‘ جیسے لاہور کا گرم موسم ماضی کی ایک داستان ہے۔
کالا باغ سے وابستہ مری میں موجود بعض دوستوں نے کالا باغ میں موجود ایک بڑی مسجد کے لیے درس کے ٹائم کا اصرا رکیا ؛چونکہ میں نے اپنے بعض امور کی انجام دہی کے لیے لاہور واپس جانا تھا‘ اس لیے میں نے پس وپیش سے کام لیا‘ لیکن احباب کا اصرار انکار پر غالب آیا اور میں کالا باغ جانے پر آمادہ ہو گیا۔ اس سارے سفر کے دوران جہاں پر میں خوش کن ہواؤں ‘ بادلوں کی آمدورفت اور لہلاتے ہوئے سبزے کے حسن پر غور کرتا رہا‘ وہیں پر میری توجہ اس حسین اور وسیع وعریض کائنات کو بنانے والے خالق ومالک کی قدرت اور کاریگری کی طرف بھی پوری طرح مائل رہی اور میں مسلسل اللہ تبارک وتعالیٰ کی تخلیق اور کبریائی پر غور کرتا رہا ۔ ان لمحات کے دوران میرا ذہن سورہ بقرہ کی آیت نمبر 164کی طرف منتقل ہو گیا‘ جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی قدرت کی کاریگری کا ذکر بڑے حسین انداز میں کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں اور (ان) کشتیوں میں جو سمندر میں چلتی ہیں (وہ چیزیں) لے کر جو نفع دیتی ہیں ‘لوگوں کو اور (اس میں) جو اللہ نے اتار ا ہے‘ آسمان سے پانی‘ پھر زندہ (آباد) کیا‘ اس کے ذریعے زمین کو ‘اس کے مردہ (بنجر) ہونے کے بعد اور پھیلا دی۔ اس میں ہر طرح کی جاندار مخلوق اور ہواؤں کی گردش میں اور تابع فرماں بادل میں (جو) درمیان ہے۔ آسمان اور زمین کے (ان سب میں) یقینا نشانیاں ہیں ؛اس قوم کے لیے جو عقل رکھتی ہیں۔‘‘
یقینا قدرت کے حسین نظارے ہر دیکھنے والی آنکھ کو متاثر کرتے ہیں‘ لیکن ضروری نہیں کہ ہر دیکھنے والی آنکھ قدرت کی کاریگری کو دیکھ کر اپنے خالق ومالک کو پہچاننے کی طرف مائل ہو‘لیکن مومن ومسلمان جب بھی کبھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات پر غوروفکر اور تدبر کرتا ہے‘ تو اس کے ذہن میں ہمیشہ اپنے خالق ومالک کا تصور ضرور ابھرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید کے مختلف مقامات پر اپنی صناعی کا احساس دلاتے ہوئے اپنی تخلیق کی طرف انسانوں کی توجہ کو مائل کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر اپنی تخلیق کا ذکر کیا ‘جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ ملک کی آیت نمبر 3‘4اور 5 میںارشاد فرماتے ہیں ''(وہ) جس نے پیدا کیے سات آسمان اوپر تلے ۔نہیں تو دیکھے گا‘ رحمن کے پیدا کیے ہوئے میں کوئی فرق (کمی بیشی) ‘ پس تو لوٹا(اپنی) نگاہ کو‘ کیا تو دیکھتا ہے کوئی شگاف ‘ پھر تو لوٹا (اپنی) نگاہ کو دوبارہ (باربار) لوٹے گی نگاہ تیری طرف عاجز ہو کر اس حال میں کہ وہ تھکی ہوئی ہو گی۔ اور بلاشبہ یقینا ہم نے مزین کیا دنیوی آسمان کو چراغوں سے اور ہم نے بنایا انہیں شیطانوں کو مارنے کا آلہ۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ غاشیہ کی آیت نمبر17 سے 20 میں ارشاد فرمایا ''تو کیا وہ نہیں دیکھتے اونٹوں کی طرف کیسے وہ پیدا کیے گئے ہیں۔ اور آسمان کی طرف کیسے وہ بلند کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کیسے وہ گاڑے گئے ہیں۔ اور زمین کی طرف کیسے وہ بچھائی گئی ہے۔ ‘‘ اسی طرح سورہ فاطر کی آیت نمبر 27‘28 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ نے آسمان سے پانی نازل کیا‘ پھر ہم نے نکالے اس کے ذریعے (ایسے) پھل (کہ) مختلف ہیں ان کے رنگ اور پہاڑوں میں سے کچھ سفید قطعات (گھاٹیاں) ہیں اور کچھ سرخ (قطعات) ہیں اُن کے رنگ مختلف ہیں اور کچھ بہت گہرے سیاہ۔ اور لوگوں میں سے اور جانوروں (میں سے) اور چوپاؤں (میں سے کچھ ایسے ہیںکہ) اُن کے رنگ (بھی) اسی طرح مختلف ہیں بے شک صرف علما اللہ سے ڈرتے ہیں ‘اُس کے بندوں میں سے بے شک اللہ خوب غالب بہت بخشنے والا ہے۔‘‘
جب انسان قدرت کے حسین مناظر کو دیکھتا ہے‘ تو جہاں ان کے حسن سے متاثر ہوتا ہے‘ وہیں پر اس کو اس حسین اور وسیع وعریض کائنات کے حسن اور وسعت پر غور کر کے اس کائنات کو بنانے والے پروردگار کی ذات کے بارے میں بھی غور وفکر کرنا چاہیے اور اپنے مقصد تخلیق کو پہچان کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کے لیے بھی تگ ودو کرنی چاہیے۔ بے شک کائنات کے جا بجا مقامات پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی نشانیاں موجود ہیں ‘لیکن ان نشانیوں پر غور کرنے کے لیے انسان کو محسوس کرنے والے دل اور بصیرت والے دماغ کی ضرورت ہے۔ جو شخص کھلے دل اور دماغ کے ساتھ وسیع وعریض کائنات پر غور کر لیتا ہے اس کو یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت سی نشانیاں اس کائنات میں بکھری ہوئی نظر آ جاتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کا اظہار سورہ آل عمران کی آیت نمبر 191میں یوں فرماتے ہیں ''بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں یقینا نشانیاں ہیں ‘عقل والوں کے لیے ‘ وہ لوگ جو ذکرکرتے ہیں ‘اللہ کا کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر اور اپنے پہلوؤں کے بل اور غوروفکر کرتے ہیں ؛آسمانوںاور زمین کی تخلیق میں (وہ کہتے ہیں) اے ہمارے رب! نہیں پید اکیا تو نے یہ (سب کچھ) بیکار‘ تو پاک ہے (ہرعیب سے) پس بچا ہمیں آگے کے عذاب سے‘‘۔ اسی طرح سورہ حٰم سجدہ کی آیت نمبر 53 میں ارشاد ہوا ''عنقریب ضرو ر ہم دکھائیں گے‘ انہیں اپنی نشانیاں آفاقِ (عالم) میں اور (خود) ان کے نفسوں میں یہاں تک کہ وہ ان کے لیے واضح ہو جائے کہ بے شک وہ ہی حق ہے اور (بھلا) کیا کافی نہیں‘ آپ کا رب (اس بات پر ) کہ بے شک وہ ہر چیز پر گواہ ہے۔‘‘لوگوں کی اکثریت قدرت کے حسین مناظر پر تو غوروخوض کرتی ہے‘ لیکن اپنے خالق ومالک کی معرفت حاصل کرنے کی بجائے انہی حسین نظاروں میں کھو کر رہ جاتی ہے۔ نتیجتاً کائنات اور اپنی تخلیق کے مقاصد کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بصیرت اور حکمت سے نوازے‘ تاکہ ہم کائنات اور فطرت کے حسین نظاروں پر غور کرنے کے بعد اپنے خالق ومالک کی معرفت اور اپنے مقصد تخلیق کو سمجھنے کے قابل ہو سکیں۔ آمین !