ان دنوں پیپلزپارٹی اپنے جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کیلئے مختلف شہروں میںجلسوں کا انعقاد کر کے خیبرپختونخوا میں پارٹی کی نشاۃ ثانیہ میں مصروف دکھائی دیتی ہے۔بلاول بھٹو کو چارسدہ کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے حق نواز پارک میں جلسہ عام سے خطاب کروا کے ذوالفقارعلی بھٹو کی روایت دہرانے کی رسم نبھائی گئی‘ لیکن یہ جلسہ بھی محض عمر رفتہ کو آواز دینے کی ناکام کوشش ثابت ہوئی۔امر واقعہ یہ ہے کہ بلاول بھٹو پچھلے کئی ماہ سے قبائلی اضلاع میں پی ٹی ایم کی حمایت کے ذریعے پشتون سماج میں پیپلزپارٹی کیلئے جگہ بنانے کی سرگرانی میںمشغول رہے۔بلاول کا خیال تھا کہ جب وہ خیبر پختونخوا میں داخل ہوں گے تو اس زبانی کلامی حمایت کے عوض پختون نوجوانوں کی قابل ِلحاظ تعداد ان کا والہانہ استقبال کرے گی‘مگرافسوس‘ ایسا کچھ نہ ہوا۔چارسدہ کا جلسہ میں بھی پیپلزپارٹی والوں کے سوا وسطی پختونخوا کا کوئی نیا عنصر ان کا خطاب سننے نہیں آیا۔ڈیرہ اسماعیل خان کے جلسہ میں مانگ تانگ کے شرکاء کے علاوہ صرف پیپلزپارٹی کے عمر رسیدہ کارکنان ہی جھومتے نظر آئے۔خاص کر اندرون شہرمیں انہیں کوئی پذیرائی نہیں ملی؛حالانکہ ڈیرہ اسماعیل خان کے جلسہ کو کامیاب بنانے کیلئے قریبی ضلع میانوالی‘ بھکر‘ٹانک ‘لکی مروت اور بنوں سے لوگوں کو لایا گیا۔
پیپلزپارٹی کے ایم پی اے شیراعظم خان وزیر کے ہمراہ بنوں سے سینکڑوں افراد آئے‘ لیکن پیپلزپارٹی پرانے شہر کی فصیل کے اندر واقع اس چھوٹے سے حق نوازپارک کو بھی بھر نہیں سکی‘جہاں مشکل سے آٹھ دس ہزار افراد ہی آ سکتے ہیں۔اس تقریب کا سب سے بڑا سقم یہ تھا کہ اندورن شہر کے باسیوں نے جلسہ سے کامل تعلقی ظاہر کی‘ہرچند کہ مقامی سرائیکی آبادی کو کھینچنے کی خاطر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کوخاص طور پہ بلایا گیا تھا‘ جنہوں نے وہاں سرائیکی میں خطاب کیا ‘مگر افسوس کہ بلاول بھٹو کی رونمائی کی تقریب شہریوں کی توجہ حاصل نہیں کر پائی۔بلاول بھٹو کے جلسہ پہ تبصرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی ترجمان نے کہا کہ اس سے بڑا پروگرام تو یہاں طلبہ تنظیمیں کر لیتی ہیں۔تاریخ کے طالب علموں کی آگاہی کیلئے یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ 1968ء میں ذوالفقار علی بھٹو جب پہلی بار ڈیرہ اسماعیل خان آ رہے تھے تو ان کا استقبال کرنے والوں میں حق نواز گنڈہ پور اور شائستہ بلوچ جیسے چند غریب کارکنوں کے سوا کوئی قابل ِذکر سیاسی لیڈر موجود نہیں تھا۔اس وقت کے کمشنر وجیہہ الدین خان بھٹو کے دوست تھے۔انہوں نے مسٹربھٹو کی ایما پہ شہر کے دونوں پارکوں اورپولو و بیساکھی گراؤنڈز میں پانی چھوڑ کے کسی کھلی جگہ جلسہ کے امکانات کو معدوم کر دیا۔کمشنر کے کہنے پہ پولیس نے استقبال کے لئے جانے والے چالیس پچاس کارکنوں پہ لاٹھی چارج کر کے بھٹو کے آنے کی خبر کو شہر میں پھیلا دیا۔ان حالات میں ذوالفقار علی بھٹو نے بازار توپانوالہ میں ایک پرانے بالاخانہ کی بالکونی میں کھڑے ہو کے کوئی ڈیڑھ دو سو لوگوں سے بغیر لاوڈ سپیکر کے خطاب کیا۔پولیس نے اس چھوٹے سے پر‘امن مجمع پر بھی آنسوگیس کی شیلنگ کر کے شہر میں بھٹو کی مقبولیت بڑھانے کے علاوہ اس معمولی سے واقعہ کو عالمی خبربنا دیا۔
روزِاول سے پیپلزپارٹی کا المیہ یہی رہا کہ اس کے بانی چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو سمیت کوئی لیڈر بھی پشتونوںکے سیاسی کلچر اور پختون عوام کی سماجی نفسیات کا درست ادراک نہ کر سکا۔اس لیے ترقیاتی کاموںکے باوجود پی پی پی کو یہاں کبھی ویسی پذیرائی نہیں ملی‘ جو ماضی پرست لسانی تحریکوں اور جمودپرور جماعتوں کے حصہ میں آئی یا پھر اب پی ٹی آئی جیسی پارٹی کو ملی۔پیپلزپارٹی ستر کی دہائی میں اپنے عروج کے زمانہ میں بھی صوبہ بھر سے کوئی ایک صوبائی نشست نہ جیت سکی۔1977ء کے الیکشن میں نیپ(اے این پی) نے این ڈبلیو ایف پی(خیبرپختونخوا) کی بیس میں سے آٹھ نشستیں جیت کربرتری حاصل کی‘ لیکن خان عبدالولی خان نے قیوم لیگ کی راہ روکنے کی خاطر وزارتِ اعلیٰ دونشستوں والی جے یو آئی کے سپرد کر کے مولانا مفتی محمودکو وزیراعلیٰ قبول کر لیا۔مفتی صاحب ساڑھے تین ماہ تک صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ رہے‘بعد میں جب وزیراعظم بھٹو نے بلوچستان میں نیپ کی صوبائی حکومت برطرف کی تو مفتی صاحب احتجاجاً مستعفی ہو گئے‘ جس کے بعد پیپلزپارٹی نے قیوم لیگ اور آزاد امیدواروں کی مدد سے یہاں''ہم خیال‘‘حکومت بنائی۔انہی دنوں این ڈبلیو ایف پی کے گورنر حیات محمد خان شیرپاو ٔکی بم دھماکہ میں ہلاکت کے بعد حکومت نے نیپ پہ پابندی لگاکے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈرخان عبدالولی کو گرفتار کرکے حیدرآباد ٹربیونل میں ان پہ غداری کا مقدمہ چلایا۔
دریں اثناء مسٹر بھٹو نے قبائلی علاقوں اوراین ڈبلیو ایف میں تعلیم اور کمیونی کیشن کے شعبہ میں بے شمار ترقیاتی کام کروائے‘ان میں کیڈٹ کالج رزمک اور گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان نمایاں ہیں۔بھٹو صاحب نے پہلی بار غربت و افلاس کے قعر مزلت میں پڑے قبائلی طلبہ کیلئے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز اور سول سروس میں کوٹہ مقرر کر کے انہیں آگے بڑھنے کے مواقع دیئے۔بھٹو دور میں قبائلیوں کو اس وقت پاکستانی پاسپورٹ دیکر مزدوری کیلئے گلف اور عرب ممالک بھجوایا گیا‘جس وقت کراچی‘لاہور اور اسلام آباد کے شہریوں کو پاسپورٹ نہیں ملتا تھا۔گلف جانے کے بعد قبائل میں مادی خوشحالی آئی‘ لیکن اس سب کے باوجود قبائلی عوام کی اکثریت بھٹو کو ناپسند کرتے رہے۔لامحدود ترقیاتی کام کرانے کے باوجود پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا میں جگہ نہ بنا سکی‘ تاہم بینظیر بھٹو نے ایم آر ڈی کے سہارے اے این پی اور مولانا فضل الرحمن کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرکے پشتون معاشرے میں پیپلزپارٹی بارے پائے جانے والے منفی پرسیپشن کو ختم کر کے بھٹوز کیلئے یہاںکچھ گنجائش نکالی ‘جس کی بدولت پیپلزپارٹی کو 1988ء اور 1993ء میں یہاں مخلوط حکومتیں بنانے کے مواقع ملے‘لیکن تمام تر مساعی کے باوجود پیپلزپارٹی خیبرپختونخوا میں جڑیں گہری نہ کر سکی؛چنانچہ آفتاب شیرپاؤ نے جب پارٹی چھوڑی‘ تو پیپلزپارٹی ریت کی دیوار کی مانند گر گئی۔بعد ازاںصدر بنتے ہی آصف علی زرداری نے بھی این ڈبلیو ایف پی کا نام خیبر پختونخوا رکھ کے اس گداز صوبہ میں پذیرائی پانے کی ناکام کوشش کی ‘لیکن بدقسمتی سے اس وقت صوبائی حکومت اے این پی کے ہاتھ تھی‘اس لیے صوبہ کے نام کی تبدیلی کا کریڈٹ اسفندیار لے اڑے۔
ادھر صوبہ کے نام کی تبدیلی غیرپشتون آبادی کے اندر پیپلزپارٹی کے خلاف نفرت کے ایسے جذبات بھڑکا گئی ‘جس نے بے نظیر بھٹو کی جانب سے کی گئی مساعی کو ملیامیٹ کر دیا‘ لہٰذا 2013ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی چھ اور 2018ء کے الیکشن میں پانچ صوبائی نشستوں تک محدود ہوگئی۔اب‘ پھر اپنے والد آصف علی زرداری کی طرح بلاول بھٹو زرداری بھی پی ٹی ایم کی پرُجوش حمایت کے ذریعے پشتون سماج میں سرایت کی کوشش کرتے نظر آئے‘ لیکن بے وقت کی یہ راگنی انہیں پھر ‘نامراد بنا دے گی۔ایسی سرسری کوششوں سے پیپلزپارٹی کبھی پختون سماج کا اعتماد حاصل نہیں کر پائے گی‘ بلکہ غیر پشتونوں میں موجود اپنے حامیوں کو بھی کھو دے گی۔بلاول کو یہ سمجھنا چاہیے کہ خیبر پختونخوا کی پشتونوں کی قوم پرست جماعتوں یا پھر مذہبی تحریکوں سے وابستگی گہری ہے۔وہ ان پہ وقت ضائع کرنے کی بجائے ساٹھ فیصدغیرپشتون آبادی کی حمایت کے حصول کو ہی اپنا ہدف بنائے۔