اٹھارہویں صدی کے وسط میں بے سیورلے تیونس کا حکمران تھا۔اس نے کئی ایسے متنازعہ معاشی فیصلے کئے ‘ جس کے نتیجے میں تیونس دیوالیہ ہو گیا۔ایسے میں بے سیورلے نے فرانس سے قرض حاصل کیا‘تاکہ اپنے وطن کوترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔ ادھرفرانس نے تیونس کی نا گفتہ بہ حالت دیکھ کراس پر قبضہ کرنے کے لئے منصوبہ بندی شروع کردی۔الجزائر نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے تیونس پر کئی حملے کئے۔ان حالات میں بے سیورلے کی حکومت ڈگمگا گئی ‘ کیونکہ اس کے پاس نہ فوجی طاقت تھی اور نہ ہی عوام کی حمایت کہ وہ ان بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کر سکے؛چنانچہ 1878ء میں برطانیہ اورفرانس کے درمیان ایک خفیہ معاہدہ ہوا‘ جس میں شمالی افریقہ کے اس ملک کے مستقبل کا تعین کیاگیا۔اس مشروط معاہدے کے تحت؛ اگر فرانس‘ قبرص پر برطانیہ کے قبضے کو تسلیم کرلیتاہے ‘تو برطانیہ بھی تیونس پر فرانس کا قبضہ تسلیم کر لے گا۔اس معاہدہ پر دونوں فریق راضی ہوگئے اور اس طرح تیونس 12 مئی 1881ء کوباقاعدہ طورپر فرانس کے زیر اثر آگیا۔
وقت گزرتا گیا اور تیونس آہستہ آہستہ اپنے پائوں پر کھڑے ہونے کی کوششوں میں لگا رہا۔یکم مارچ 1998ء کو تیونس اوریورپی اتحاد کے درمیان اپنی طرز کا پہلا مشترکہ معاہدۂ تجارت عمل میں آیا۔ یہ بحیرہ روم کے کسی ملک اور یورپی اتحاد کا پہلا معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کے تحت تیونس تمام یورپی یونین ممالک سے تجارت کرے گا اور اسے وہ تمام رکاوٹیں دور کرنا ہوں گی‘ جو معیشت کے راستے میں حائل ہوں گی۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ تیونس‘ دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ایک ہے‘ جس کا ثبوت عالمی تجارتی ادارے کی رپورٹ ہے‘ جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ 2007ء میں تیونس کی معاشی ترقی نے ‘اسے افریقہ کی سب سے تیز ترقی کرنے والی معیشت بنا دیا ہے اور آنے والے برسوں میں مزید ترقی کی منازل طے کرے گا۔ عرب دنیا میں معاشی ترقی کے لحاظ سے تیونس پہلی پوزیشن پر جا بیٹھا ہے‘ جبکہ دنیا بھر میں اس کا29واں نمبر ہے۔ وہاں ‘عوام پر ان کی مرضی کے خلاف فیصلے مسلط کئے جا رہے ہیں ‘اس کی حالیہ مثال سرکاری دفاتر میں نقاب پہننے پر پابندی ہے۔ میرے لئے یہ خبر باعث ِحیرت نہیں‘ کیونکہ کسی ملک میں مسلمان اکثریت سے ہوں اور وہاں مسلم لیڈروں کی بہتات بھی ہوں تو لازم نہیں کہ وہ کلی طور پر اسلامی بھی ہو؟ اس کے پیچھے پورا سسٹم ہوتا ہے ‘جو برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں موجود ہے۔تیونس اس سے پہلے بھی نقاب پر پابندی عائد کر چکا۔ صدر زین العابدین بن علی کو تیونس کا اتاترک بننے کا خبط ہے۔2010ء کو ایک گریجویٹ نوجوان البوعزیزی کی خود سوزی کی کوشش نے یہ ثابت کر دیا کہ اقتدار کے لئے زین العابدین نے سیکولر ازم کی تو حد درجہ فکر ہے‘ لیکن بے روزگارنوجوان ان کا مسئلہ ہی نہیں۔انہیں اپنی آئیڈیالوجی کی گھٹی پلا کر بہلاتے رہے‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک البو عزیزی کی موت نے تیونس میں بے روزگار ی کے ہاتھوں ہوئے نوجوانوں کی مایوسی میں مزید اضافہ کر دیا۔ نوجوانوں نے تیونس کی سڑکوں کا رخ کیا اور احتجاجی مظاہروں کا راستہ اپنایا۔تیونسی نوجوانوں کا احتجاج رنگ لایا اور زین العابدین کے اقتدار کی چولیں ہل گئیں۔ انہیں تیونس چھوڑنا پڑا اور 2011ء میں یہ پابندی ختم کر دی گئی۔الغرض تیونس پہلا اسلامی ملک نہیں ‘جہاں یہ پابندی عائد کی گئی ‘کئی اور بھی ممالک اس فہرست میں شامل ہیں۔ کوسوو میں2009ء سے اور آذربائیجان میں2010ء سے پابندی ہے۔ شام میں جولائی2010ء سے یونیورسٹیوں میں چہرہ ڈھانپنا منع ہے۔ ترکی میں ایک عرصے تک بے حجابی سیکولر ازم کی بقا کے لئے ضروری سمجھی جاتی رہی ہے۔ وہاں طیب اردوان کی شریک ِ حیات امینہ اردوان کا حجاب موضوع بحث بن چکا‘ مگر اردوان جیسے مسلمان لیڈر کم ہیں‘ جو خود نہیں بدلتے‘ بلکہ سسٹم کو بدلنے کی جدو جہد کرتے ہیں۔ ترکی میں اسی لئے نقاب پر پابندی آہستہ آہستہ بے اثر ہو رہی ہے۔ با حجاب خواتین ترکی کے مہذب معاشرے میں بھی قبول کی جانے لگی ہیں‘ مگر مراکش میں صورت حال یکسر مختلف ہے۔ مراکش میں باحجاب خواتین کو بھید بھائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ مگر تیونس جیسے ملک نے حجاب پر پابندی عائد کر دی ہے۔
دریں اثناء فرانس میں اپریل2011ء میں پورا چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس وقت کے صدر نکولس سرکوزی نے یہ تاویل پیش کی تھی کہ ان کے لئے لباس کے انتخاب کی آزادی سے زیادہ اپنے ملک کی ثقافت اہم ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ چند سو نقاب پہننے والی عورتیں‘ فرانس کی ثقافت کے لئے خطرہ بن جائیں ۔ 31مئی کو ڈنمارک میں نقاب پر پابندی عائد کی گئی تھی تو اس وقت کے وزیر انصاف سورن پیپ پولسن یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے کہ ا ن کے لئے اپنی اقدار زیادہ اہم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اقدار کے حوالے سے میں ایک مباحثہ دیکھ رہا ہوں کہ ہمارا معاشرہ کیسا ہونا چاہیے؟ ہماری ثقافتی اقدار کا معیار کیا ہونا چاہیے؟اس کے بعد ڈنمارک میں ایک طویل بحث چھڑ گئی۔ اب‘ تیونس کے لیڈروں نے نقاب پر پابندی عائد کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ سرکوزی اور سورن پیپ پولسن جیسی سوچ رکھتے ہیں۔
تیونس میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں اور نقاب کی پابندی واپس لینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ تیونس کے وزیر اعظم یوسف شاہد یوسف یہ سوچ کر اطمینان کر سکتے ہیں کہ اس سے پہلے چین‘ فرانس‘ تاجکستان‘مراکش‘ بلغاریہ‘ کیمرون‘ چاڈ‘ ڈنمارک‘سری لنکا اور بیلجیم بھی یہ اقدام کر چکے‘ لیکن یوسف شاہد یہ بھی سوچیں گے کہ حکمرانوں کی اولین ترجیح عوام ہوتے ہیں؟ یا ان کی آزادیوں کو سلب کرنا ہوتا ہے؟