تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     12-07-2019

افضل گرو کا عدالتی قتل

13 دسمبر2001ء کو اچانک بھارتی میڈیا پر چیخ و پکار شروع ہو گئی کہ پاکستان کی دو کالعدم تنظیموں کے جدید اور بھاری اسلحہ سے لیس دہشت گردوں نے بھارتی پارلیمنٹ کا گھیرائو کر لیا ہے۔ چاروں جانب شدید فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور اس کے نگہبان‘ ممبران ِپارلیمنٹ کی زندگیاں سخت خطرے میں ہیں۔ یہ خبر ہی ایسی تھی کہ دنیا بھر میں ہائی الرٹ جا ری کر دیا گیا ۔نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن پر پولیس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی ‘جبکہ شہر کے باقی حصوں میں پولیس ا ور سکیورٹی فورسز نے زبردست تلاشی اور چیکنگ شروع کر دی۔ادھر‘ نئی دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کرنے کے جرم میں جہادِ کشمیر کے مجاہد افضل گرو کا انتہائی سخت پہرے اور کرفیو جیسے ماحول میں پھانسی کے نام سے عدالتی قتل کر دیا گیا ۔ افضل گرو کا یہ عدالتی قتل کشمیر کی سینکڑوں بیٹیوں اور ایک لاکھ سے زائد بیٹوں کے بہیمانہ قتل اور انسانی حقوق کی سر بریدہ لاش کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا بد ترین عمل تھا۔ جیسے ہی بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا‘ بھارت سرکار اور اس کے ماتحت میڈیا نے ‘اسے پاکستان کی کالعدم تنظیموں اور قومی اداروں کی ملی بھگت کا کارنامہ قرار دیتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیا‘لیکن افضل گرو کو اس کی آڑ میں دی گئی پھانسی اور اس کیلئے تیار کئے گئے ڈرامے کے تحت نئی دہلی پارلیمنٹ پر حملے کی کہانی اپنے اندر جو را ز لئے ہوئے ہے‘ اس کے ایک ایک لفظ اور پس منظر کو سامنے لانے کیلئے دل چاہتا تھا کہ ا س کی نقاب کشائی حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی کتاب''26/11ممبئی حملے‘‘ میں کرتا ‘لیکن میری اس کتاب کو شائع کرنے والوں نے میری لا علمی کی وجہ سے کچھ ایسے کرتب دکھائے کہ مجھے اپنے بہت سے صفحات سے محروم ہونا پڑا ۔ مجھے ایک لاکھ روپے سے زائدکاجو نقصان ہوا ‘سو ہوا‘ جس پرمیں نے خاموشی اختیار کر لی ہے اور بہتر انصاف کرنے کیلئے اس معاملے کو اپنے خد اکے سپرد کر دیا ہے۔
بھارت سمیت کسی نے بھی آج تک یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ 13 دسمبر2001ء کو جب پارلیمنٹ ہائوس کی تمام رکاوٹیں توڑتے ہوئے6 حملہ آور اس کے اندرونی دروازوں تک پہنچا دیئے گئے تو اس دن بھارتی پارلیمنٹ کے اندر زیر بحث آنے والا ایجنڈہ کیا تھا؟ پارلیمنٹ پر کروائے گئے حملے اور سپیکر کی میز پر اس روز پڑے ہوئے ایجنڈے کا آپس میں کیا تعلق تھا؟اس دن پارلیمنٹ میں کس اہم ترین بل پر بحث ہونے جا رہی تھی؟اس دن وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی کو کس پریشانی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو کس قسم کی ہزیمت کا سامنا ہونا تھا؟اس حملے سے کوئی سات دن قبل حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کیوں گھبرائی ہوئی پھر رہی تھی؟ اس کو کس قسم کا دبائو تھا؟ پارلیمنٹ کے اندر کا ما حول اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہی کیوں کشیدہ تھا؟13 دسمبر کو پارلیمنٹ پر حملہ ہونے کے آدھ گھنٹے بعد بھارت کے بدنام زمانہ اور سفاکانہ بل POTO پر اپوزیشن جماعتوں اور کانگریس کی جانب سے سخت مزاحمت کی جانی تھی ‘کیونکہ حکومت کو اپنی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے معلوم ہو چکا تھا کہ اپوزیشن کے کون کون سے لوگ دھواں دھار تقریریں کرنے جا رہے ہیں ۔ آئی بی کی فراہم کی گئی سمری دیکھنے کے بعد ایل کے ایڈوانی نے وزیر اعظم واجپائی سے کہہ دیا تھا کہ اس سےPOTO کا معاملہ ہی نہیں سنبھالا جا رہا کہ اس سے بھی بڑی ایک اور مصیبت پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں سامنے لائی جا رہی ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر دفاع جارج فرنینڈنس کے خلاف پارلیمنٹ میں ایک تحریک پر کارروائی ہونے جا رہی ہے‘ جس میں ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ کارگل کی جنگ میں مارے جانے والے بھارتی فوجیوں کیلئے امریکہ کی ایک کمپنی سے ان کی وزارت کے تحت منگوائے گئے تین ہزار تابوت انتہائی مہنگے داموں خریدے گئے ۔ اپوزیشن کانگریس کے پاس اس کمپنی کے بھارت کے علا وہ بہت سے دوسرے ممالک کو فراہم کئے گئے تابوتوں کی رسیدیں موجود تھیں‘ جن میں ان کی قیمتیں بھارت کے مقابلے میں بہت ہی کم تھیں۔تابوت ا ور کفن فراہم کرنے والی امریکہ کی بہت سی دوسری کمپنیوں کی قیمتیں ‘بھارتی وزار ت دفاع کی پیش کی گئی قیمتوں سے نصف سے بھی کم نکلیں اور کانگریس یہ تمام ثبوت پارلیمنٹ میں لے کر آ رہی تھی۔ ایل کے ایڈوانی کے پاس اطلاع پہنچ چکی تھی کہ ان کی پیش کی گئی دو تحریکوں پر دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ان کی حکومت کے بہت سے حامی اراکین ِپارلیمنٹ اگلے چند دنوں تک اجلاس سے غیر حاضر رہیں گے ‘جس سے انہیں پارلیمنٹ میں شکست کا سامنا ہو سکتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک ایک رکن ِپارلیمنٹ سے رابطہ کرنے کے بعد جان لیا کہ آج بل پر ان کی شکست یقینی ہے ‘جو ان کی حکومت کیلئے بہت سے مسائل کھڑے کر دے گی۔
روزانہ سننے میں آ رہا ہے کہ پاکستان ‘پالتوکبوتروں کو کچھ اس قسم کی تربیت دینے کے بعد بھارت کی جانب بھیج رہا ہے‘ جو بھارتی ائیر فورس کے طیاروں سے ٹکراکر ان کو نقصان پہنچا رہے ہیں‘ ایسا ہی ایک پرندہ راجستھان میں ٹکرایا تھا‘ جس سے مگ اکیس تباہ ہوا۔1994ء میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں طاعون کی وبا پھیلی تو اس کا الزام بھی بھارت نے پاکستان پر لگا دیا کہ اس نے نئی دہلی میں اس کے جراثیم کا سپرے کروا دیا ہے۔بھارت تو ہر الزام پاکستان کے سر تھوپنے کے خبط میں مبتلا ہو چکا‘ لیکن افسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے میڈیا سے تعلق رکھنے والے بہت سے لکھاری ‘اینکرز اور دانشور تو ایک طرف‘ ہمارے سیا ستدان بھی اپنے ہی ملک کو بدنام کرنے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ آج کل سوشل میڈیا پر ایسے ہی ایک اینکر نے اپنی ویڈیو اپلوڈ کر کے گھٹیا قسم کی مشہوری حاصل کرنے کیلئے اپنی گرفتاری کے چرچے شروع کر رکھے ہیں اور اس ویڈیو کو حیرت سے دیکھا جا رہا ہے۔ایسی ہی دہشت گردی کا ایک اور واقعہ ملاحظہ کریں؛ جسے سنتے ہوئے انسان اپنے قہقہے روکنے کی جتنی مرضی کوشش کرے‘ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ نومبر2001 ء کی بات ہے کہ بھارتی ائیر کنٹرول کو جہاز کے کپتان کی طرف سے پیغام ملا کہ اس کے جہاز میں ہائی جیکر موجود ہیں ۔جیسے ہی یہ پیغام ملا‘ بھارت سمیت دنیا بھر میں ایک شور مچ گیا‘ تاہم بھارتی ائیر لائن کا یہ جہاز بھارت کی فضائوں میں اڑتا رہااور کوئی چار گھنٹے بعد بھید کھلا کہ اس جہاز کے تین مسافر بورڈنگ کارڈ حاصل کرنے کے با وجود کسی وجہ سے جہاز میں سوار نہ ہو سکے تھے‘ جس کی اطلاع جہاز کے کے عملہ اور کاک پٹ میں موجود عملہ کو نہیں تھی ۔جہاز کے کریو نے سمجھا کہ اپنی نشستوں سے غائب ان تین مسافروں نے کاک پٹ پر قبضہ کر لیا ہے اور کاک پٹ والوں نے سمجھا کہ کہ ان تین ہائی جیکروں نے جہاز کے عملہ کو یر غمال بنا لیا ہے۔ ادھر فضا میں کاک پٹ اور کریو کا ڈرامہ جاری تھا تو دوسری جانب زمین پر بھارت کی شہری ہوا بازی کے وزیر مملکت اور سرکاری ایجنسیوں کے سینئر اہل کاروں نے میڈیا کو بریف دینا شروع کر دی کہ یہ تینوں ہائی جیکرز پاکستانی ہیں اور ان کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ ان کا تعلق پاکستانی کالعدم تنظیموں سے ہے ‘کیونکہ ہم نے جہاز کے ریڈیو سے انہیں اردو بولتے ہوئے سنا ہے۔ فضا میں دو گھنٹے سے بھی زیا دہ چکر لگانے کے بعد جہاز کو رن وے پر اتار لیا گیا‘ جہاں عالمی اور مقامی میڈیا پہلے سے موجود تھا۔کئی گھنٹوں کے کمانڈو آپریشن کے بعد کاک پٹ اور جہاز سے کوئی ہائی جیکر نہ ملا ‘تو ائیر پورٹ پر کھڑے سب ایک دوسرے سے منہ چھپائے جارہے تھے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved