تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     12-07-2019

عظمت کا خواب

زمین کی ملکیت کے جھگڑے بہت خوفناک ہوتے ہیں اور یہ اگلی نسلوں تک سفر کرتے ہیں۔ ایک دفعہ راولپنڈی کے ایک گائوں سے تعلق رکھنے والے ایک بوڑھے نے جب موت کو قریب دیکھا تو سوچا کہ بچوں میں زمین تقسیم کر دوں ۔ اس کے پاس بیس کنال ‘ تین مرلے زمین تھی اور اس کے چار بیٹے تھے۔ اس نے پانچ پانچ کنال زمین ان میں سے ہر ایک کے نام کر دی ؛البتہ اسے سمجھ نہ آئی کہ تین مرلے کو کس طرح تقسیم کیا جائے۔ ان دنوں زمین کوڑیوں کے دام بکا کر تی تھی ۔ ان تین مرلوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ اس نے بڑے بیٹے کو پانچ کنال اور تین مرلے ٹرانسفر کر دی ۔ بیٹوں میں سے کسی نے اعتراض نہ کیا ۔ 
وقت گزرتا گیا ؛حتیٰ کہ علاقے میںایک بڑی سڑک بنی ۔ یہ چند مرلے زمین سڑک کے ساتھ نتھی تھی ۔ اس کی قیمت میں بے تحاشا اضافہ ہو ا۔ اب‘ تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ہر بھائی کے حصے میں جب پانچ کنال زمین آئی تو بڑے کے حصے میں اضافی تین مرلے کیوں ؟ رنجش بڑھتی گئی ۔جیسا کہ جھگڑوں میں ہمیشہ ہوتاہے ‘ وجہ ٔ تنازعہ پیچھے رہ جاتی ہے اورانسان کے اندر موجود خون آشام جبلتیں متحرک ہوجاتی ہیں ۔ آخر وہ خونی دن آیا‘ جب دو نوں طرف سے دو مسلح گروہوں نے ایک دوسرے پرسیدھی فائرنگ کر دی ۔ خاندان کے زیادہ تر مرد مارے گئے ۔ یتیم بچے اور بیوائیں بلکتے رہ گئے ۔ وہ زمین آج بھی وہیں ہے ۔اس کی ملکیت پہ جھگڑنے والے اب زیر زمین ہیں ۔ 
یہ صرف خاندانی جھگڑے نہیں ۔ ممالک میں زمینوں کی ملکیت پہ جھگڑے ہیں۔ یہودیوں نے جس طرح فلسطین کی زمین پر حقِ ملکیت جتاتے ہوئے قبضہ کیا اور جس طرح احتجاج کرنے والوں کو خون میں نہلایا ‘ وہ ہمارے سامنے ہے۔ جنوبی چین کے جزائر پر جاپان اور چین سمیت کئی ممالک کے تنازعات ہیں ۔ چین نے اب جارحانہ حکمتِ عملی اپناتے ہوئے کئی جگہوں پر فوجی تنصیبات قائم کرنا شروع کر دی ہیں ‘ جب کہ امریکیوں نے جب چینیوں کی نروز ٹیسٹ کرنا ہوتی ہیں‘ تو وہ جان بوجھ کر اپنے جہاز ان جزائر کے اوپر سے گزارتے ہیں ۔ اس پر انہیں سخت وارننگز کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ 
شمالی آرکٹک سمیت معدنیات سے بھرپور دنیا کے بہت سے علاقوں پر مختلف ممالک ایک دوسرے کے مخالف اپنا حقِ ملکیت جتاتے رہے ہیں ۔ ہزاروں سالہ انسانی تاریخ میں مختلف فاتحین اپنے زیر نگین زمینوں میں اضافہ کرنے کے لیے ہمسایہ ممالک پہ یلغار کرتے رہے ہیں ۔ یونان کے سکندرِ اعظم سے لے کر سپر پاور جرمنی تک ‘بادشاہ ایک دوسرے کی سلطنتوں پہ حملہ آور ہوتے رہے ہیں ۔ کبھی آپ انسان کی miseryکو اس وقت دیکھیں ‘ جب اسے بھوک لگی ہوتی ہے اور کھانے کو کچھ نہیں ہوتا‘ پھر اسی انسان کو اس وقت دیکھیں ‘ جب اس کے ہاتھ میں مال و دولت ہوتی ہے ‘ پھر اس کاروّیہ ان لوگوں کے ساتھ دیکھیں ‘ جو اس کے سامنے مجبور ہوتے ہیں ۔ آپ کو اچھی طرح سمجھ آجائے گی کہ دنیا میں اتنی miseryکیوں ہے۔ آپ ایک طرف تو یہ دیکھیں کہ survivalکی جنگ لڑتا ہوا انسان کس طرح قابلِ ترس ہوتاہے ۔دوسری طرف آپ یہ دیکھیں کہ ایک دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے کے لیے یہی انسان کس قدر خوفناک جنگیں لڑتا رہا ہے ۔ انسان کی پوری تاریخ ان جنگوں سے بھری پڑی ہے ۔ 
قصۂ مختصر یہ کہ ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ زمین کا یہ ٹکڑا اس کا ہے ۔ اسے اس سے کوئی نہیں لے سکتا۔ حیرت انگیز طور پر ایک دن وہ مر جاتاہے ۔ زمین کے اسی ٹکڑے کا وارث‘ اس کا مالک کوئی اور بن جاتا ہے ۔ اسے بھی یہی زعم ہوتاہے کہ یہ زمین اس کی ہے ۔ زمین تو اپنی جگہ پر ہمیشہ سے وہیں موجود ہے ‘لیکن اس پر حقِ ملکیت جتانے والے سب لوگ مر چکے ہیں یا مستقبل میں مر جائیں گے۔ 
پھر بھی بات پوری طرح سمجھ نہیں آئے گی‘ جب تک ڈائنا سارز اور انسانوں کے عہد کا موازنہ نہ کیا جائے ۔ ایک زمانہ تھا کہ زمین ٹنوں وزنی بڑے بڑے ڈائنا سارز سے بھری پڑی تھی ۔ یہ اتنے خوفناک جانور تھے کہ انسان‘ جن کے مقابل چیونٹیوں سے بھی کمتر تھے ۔ یہ ڈائنا سا ر ایک طویل عرصہ تک کرۂ ارض پہ کوس لمن الملک بجاتے رہے ۔ آج ‘آپ جس زمین پہ اپنا حقِ ملکیت جتاتے ہیں ‘ ایک بہت طویل زمانے تک یہ ڈائنا سارز ان کے مالک تھے ۔ یہ کوئی ہوائی بات نہیں ‘بلکہ انہوں نے اپنے اپنے علاقے پر باقاعدہ نشان لگا رکھے تھے ۔ ان کے نشان زدہ علاقے میں ذرا کوئی اور داخل ہو کر تو دکھائے‘ یہ اس کی تکہ بوٹی نہ کر دیتے ۔ 
اگر‘ آپ نے انسانوں اور ڈائنا سارز کا موازنہ کرنا ہوتو یہ موازنہ ہے‘ انسان کے تین لاکھ سال بمقابلہ ڈائنا سارز کے سترہ کروڑ سال۔ جب ‘آپ حساب لگاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان(ہومو سیپئن) نے جتنا وقت اس زمین پر گزارا‘ وہ ڈائنا سارز کے سترہ کروڑ سال کا صرف صفر اعشاریہ دو فیصد ہے ۔ آپ اس کا مطلب سمجھتے ہیں ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈائنا سارز ؛اگر اس زمین پر ایک سال ‘یعنی 365دن زندہ رہے تو انسان کے زمین پر قیام کی مدت ہے‘ آدھا دن ۔ 
اس آدھے دن کا زیادہ تر حصہ انسان نے پتھر اورہڈیوں کے اوزاروں سے لے کر ایٹم بم اور میزائل بنانے میں صرف کیا ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ دنیا میں ایسے جوہری ہتھیار تیار ہو چکے ہیں ‘ جو کہ کرۂ ارض سے زندگی کو مٹا سکتے ہیں ۔ اگر ‘اوپر سے کوئی حادثہ‘ کوئی دمدار ستارہ یا بڑے آتش فشاں نہ بھی پھٹے تو بھی انسان نے نہ صرف اپنی ‘بلکہ ساری مخلوقات کے خاتمے کی پوری تیاری کر رکھی ہے ۔ اس آدھے دن میں انسان کے دعوے بہت بلندہو گئے ہیں ۔ وہ ''خلائی تسخیر ‘‘ کا دعوے دار ہے۔ جنہیں فلکیات کا علم تھوڑا سا بھی آتا ہے ‘ انہیں معلوم ہے کہ خلائی تسخیر ایک انتہائی گمراہ اصطلاح ہے ۔انسان کبھی اس قابل نہیں ہو سکے گا کہ کسی ہمسایہ ستارے تک جسمانی طور پر پہنچ سکے ۔ رہی اس زمین پر اپنا تسلط ہمیشہ باقی رکھنے والی بات تو جہاں 365دن زندہ رہنے والے باقی نہ رہ سکے تو وہاں آدھا دن گزارکر ایک دوسرے پر ایٹم بم پھینکنے والا کیسے ہمیشہ باقی رہ سکتاہے ۔ 
دوسری طرف آ پ دیکھیں تو کرۂ ارض کا درجہ ٔ حرارت بڑھ رہا ہے ۔ انٹارکٹکا پگھل رہا ہے ۔ سمندروں کی سطح بلند ہو رہی ہے ۔ دنیا بھر میں فوجی تنازعات بڑھ رہے ہیں ۔یہ تنازعات صرف ممالک کی سرحدوں تک محدود نہیں ‘بلکہ جو کوئی انسانی تاریخ کو سمجھتا ہے ‘ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ تین بڑے مذاہب‘ یہودیوں ‘ عیسائیوں اور مسلمانوں میں بہت بڑی جنگیں ہو چکی ہیں ۔ سب کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ایک فیصلہ کن جنگ ہونا باقی ہے‘ جس کے بارے میں مفصل پیش گوئیاں ہو چکی ہیں ‘بل کہ جسے دنیا کی عسکری صورتِ حال کا تھوڑا بہت علم ہے ‘ وہ بھی جانتا ہے کہ یہ جنگیں ہو کر رہنی ہیں ۔ گائیڈڈ میزائلوں سے لے کر انسان نے اپنی تمام تر توانائیاں ؛اگر صرف کی ہیں ‘تو تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تباہی میں ۔ اس کے اس جنون کا نتیجہ اب نکلنے ہی والا ہے ۔
شاید‘ اس کے ساتھ ہی انسانی عظمت کا خواب بھی تمام ہو جائے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved