ورلڈ کپ کے پہلے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کی فتح نے پاکستان میں ''جشنِ شکست‘‘ کی راہ ہموار کی۔ سوال بھارت کے ہارنے پر خوش ہونے کا نہیں تھا۔ بھارت نے نیوزی لینڈ کے ساتھ مل کر انگلینڈ کو سیمی فائنل تک پہنچانے اور پاکستان کو ایونٹ سے اخراج کا راستہ دکھانے میں جو گھناؤنا کردار ادا کیا تھا اس کے باعث بیشتر پاکستانی چاہتے تھے کہ بھارت کو فائنل تک نہیں پہنچنا چاہیے۔ اور جب ایسا ہوا تو قوم نے محض سکون کا سانس نہیں لیا بلکہ اچھی خاصی مسرّت محسوس کی۔ کراچی میں ٹھیلوں پر پھل بیچنے والے دن کے ڈھلنے پر مال کے دام گرادیتے ہیں اور گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے آواز لگاتے ہیں ''ہوگئی شام‘ گرگئے دام‘‘۔ 10 جولائی کو ورلڈ کپ میں بھارتی کرکٹ ٹیم کی شام ہوگئی ... اور دام بھی گرگئے!
بھارتی کرکٹ کی شام بہت پہلے ہوگئی تھی اور دام بھی گرگئے تھے۔ اس کے لیے آپ کو ماضی کے گلیاروں کی سیر پر نکلنا پڑے گا۔ یو ٹیوب پر ویڈیوز بھری پڑی ہیں۔ براؤزنگ کیجیے اور دیکھیے کہ 1980ء سے 2000ء تک پاکستانی کرکٹرز نے بھارتی کرکٹرز کی کب کب کیسی درگت بنائی۔ 1978ء میں بھارتی کرکٹ ٹیم 16 سال کے وقفے سے پاکستان آئی تو مشہورِ زمانہ سپنرز ''چوکڑی‘‘ (بشن سنگھ بیدی‘ چندر شیکھر‘ ایراپلی پرسنّا اور وینکٹ راگھون) کا سانس پھول چکا تھا۔ ان چاروں کی ظہیر عباس‘ آصف اقبال اور جاوید میانداد نے ایسی دھنائی کی کہ کیریئر ہی چوپٹ ہوکر رہ گئے!
1980ء کے عشرے میں کسی بھی مرحلے پر بھارتی کرکٹرز پاکستانیوں کے مقابل سَر اٹھانے کے قابل نہ ہوسکے۔ 1983ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد بھی بھارتی کرکٹ ٹیم میں اتنا دم خم پیدا نہ ہوسکا کہ پاکستان کو منہ دے سکے۔ ہمارے کرکٹرز بھارت جاتے اور اپنی مرضی کی کرکٹ کھیل کر بھارت کو من چاہے انداز سے ذلیل کرکے واپس آتے۔ 1983-84ء کے دورے میں بھی پاکستان مجموعی طور پر چھایا رہا۔ جاوید میانداد‘ ظہیر عباس اور دیگر کھلاڑیوں نے بھارتی ٹیم کو ناکوں چنے چبوائے۔ میانداد نے 3 ٹیسٹ میچوں میں 75 کے اوسط سے 225 رنز سکور کیے۔ اس کے بعد 1987ء میں بنگلور ٹیسٹ میں پاکستان نے بھارت کو جامع انداز سے ہراکر سیریز جیتی۔ اس میچ میں انتہائی جانبدار امپائرنگ بھی بھارت کو شکستِ فاش سے نہ بچاسکی۔
پاکستانی ٹیم کے ہاتھوں بھارتی کرکٹرز کی بے توقیری کا اصل مرحلہ اس وقت آیا جب شارجہ میں کرکٹ میلہ سجایا گیا۔ 1984ء سے 1991ء تک شارجہ میں پاکستان نے بھارت کو کسی بھی اعتبار سے پُراعتماد ہوکر سامنے آنے کا موقع نہیں دیا۔ شارجہ میں بھارت اتنی بار اور اتنی بُری طرح ہارا کہ بالآخر روتی دھوتی بھارتی ٹیم نے شارجہ میں کھیلنے ہی سے انکار کردیا۔ اس حوالے سے ٹھوس جواز یا بہانے کا کردار 25 اکتوبر 1991ء کو ولز ٹرافی کے فائنل میں عاقب جاوید کی ہیٹ ٹرک نے ادا کیا۔ عاقب جاوید نے اس میچ میں 37 رنز کے عوض سات وکٹیں حاصل کیں۔ ان کی ہیٹ ٹرک منفرد تھی کیونکہ روی شاستری‘ اظہرالدین اور سچن ٹنڈولکر کو ایل بی ڈبلیو آؤٹ دیا گیا۔ اس پر بھارت سیخ پا ہوا۔ اس ہیٹ ٹرک کو بنیاد بناکر بھارتی ٹیم نے شارجہ آنا چھوڑ دیا۔ ظہیر عباس اور جاوید میانداد سے جان چھوٹی تو شاہد آفریدی‘ سعید انور‘ عبدالرزاق اٹک گئے۔ باؤلنگ میں عمران خان سے پنڈ چھوٹا تو پہلے وسیم اکرم‘ پھر وقار یونس اور شعیب اختر نے لہو پینا شروع کردیا۔ بیٹنگ اور باؤلنگ کے نوگزے پیروں کے سامنے بھارت کا اٹھنا محال تھا۔ 1992ء کے ورلڈ کپ تک بھارتی ٹیم کسی قطار شمار میں نہ تھی۔ پاکستان کا سامنا کرتے ہوئے اس کی جان جاتی تھی۔ جب پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا شاید تب حکومتی سطح پر طے کرلیا گیا کہ اب بھارتی ٹیم کو ہر قیمت پر اوپر لایا جائے گا۔ یوں بھارتی ٹیم کے غبارے میں ہوا بھرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔
بھارت میں کرکٹ کا بخار ایک زمانے سے تھا مگر حکومت ''علاج‘‘ پر توجہ نہیں دیتی تھی۔ خاکسار نے 1979ء میں بھارت کے وزٹ کے دوران ایک عجیب تماشا دیکھا۔ تب پاکستان میں لوگ ٹیسٹ اور ون ڈے میچ دیکھنے کے لیے سٹیڈیم جانے کے زیادہ شوقین نہ تھے۔ کسی ٹیسٹ میچ کے آخری دو دن سٹیڈیم میں داخلہ فری کردیا جاتا تھا تب بھی لوگ متوجہ نہ ہوتے تھے۔ پیٹرنز اور قائد اعظم ٹرافی کے میچز میں تو تقریباً پورا سٹیڈیم خالی پایا جاتا تھا۔ دوسری طرف بھارت کا یہ حال تھا کہ 1979ء میں احمد آباد کے سردار ولّبھ بھائی پٹیل سٹیڈیم میں ڈومیسٹک شیڈول کے ایک لو پروفائل میچ میں خاکسار نے کم و بیش 20 ہزار تماشائی دیکھے! رفتہ رفتہ بھارت میں کرکٹ کو باضابطہ کاروباری سیکٹر کی شکل دی گئی۔ یہ مارکیٹنگ کا معاملہ ہوگیا۔ جب بھارتی کرکٹ نے مارکیٹنگ کے نقطۂ نظر سے اہمیت حاصل کی تب لازم ہوگیا کہ بھارتی ٹیم کو بھی ہائی پروفائل بنایا جائے۔ بھارتی کرکٹرز میں دم خم نہیں تھا مگر خیر‘ اُن کی مارکیٹ ویلیو تو تھی اور بڑھائی بھی گئی۔ 1992ء کے ورلڈ کپ کے بعد لازم ہوگیا کہ کسی بھی ایونٹ میں بھارتی ٹیم سیمی فائنل کے مرحلے تک تو پہنچے۔ مگر صرف اتنا کافی نہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے ہاتھ پیر باندھنا بھی لازم تھا۔ یہی سبب ہے کہ ڈیڑھ عشرے کے دوران کئی میچ انتہائی مشکوک دکھائی دیئے۔ کرکٹ سے معمولی سا شغف رکھنے والے بھی اس حوالے سے خاصے سمجھدار ہوگئے۔ آج بھارت میں پاکستان کے خلاف نفرت کو اس حد تک بڑھاوا دے دیا گیا ہے کہ کرکٹ سمیت بہت سے معاملات میں پاکستان کی برتری بنیا ذہنیت سے کسی طور ہضم نہیں ہو پاتی۔ اگر عمومی سطح پر‘ اصولوں کے تحت پاکستان کو کنٹرول کرنا ممکن نہ ہو تو پس پردہ بہت کچھ کیا جاتا ہے تاکہ کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔
اب کے ورلڈ کپ میں پاکستان سے جو امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے اسے پوری شدت کے ساتھ دنیا بھر میں محسوس کیا گیا ہے۔ پاکستانی ٹیم ہر دور میں ایسی رہی ہے کہ اس کے بارے میں پورے یقین سے کچھ بھی کہا نہیں جاسکتا۔ جب تک یہ کسی ایونٹ میں رہتی ہے رونق میلہ لگا رہتا ہے کیونکہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس بار بھی یہی ہوا ہے۔ پاکستان کو راؤنڈ کے آخری چار میچ ناک آؤٹ بنیاد پر کھیلنے تھے یعنی ہارنے کی گنجائش صفر کے مساوی تھی۔ جب یہ اندازہ لگالیا گیا کہ محض کھیل کی بنیاد پر تو یہ ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ ہی جائے گی تب کچھ اور
طے کیا گیا۔ ایسا کئی بار ہوچکا ہے کہ جب ہم کسی ایونٹ میں کم بیک کرتے ہیں تو پھر سبھی کو روندتے چلے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے نمایاں ترین مثال 1992ء کا ورلڈ کپ ہے۔
مہارت‘ تکنیک اور پروفیشنل ازم کی بات کیجیے تو بھارتی ٹیم پاکستانی ٹیم سے بہت آگے ہے‘ مگر پھر بھی بھارت کسی طرح کا خطرہ مول لینے کو تیار نہ ہوا۔ سیمی فائنل میں ٹاکرا ہوتا تو پاکستان کچھ بھی کرسکتا تھا‘ کیے کرائے پر پانی پھیر سکتا تھا۔ ایسے میں دانش کا تقاضا یہی تھا کہ پاکستان کو ایونٹ سے باہر کا راستہ دکھایا جاتا۔ اور دکھادیا گیا۔ خیر‘ ہم نہیں تھے تب بھی بھارت کے لیے ہوگئی شام اور گرگئے دام۔ جب بھی کسی معاملے کو خواہ مخواہ کچھ کا کچھ بنایا جائے گا تب ایسا ہی ہوگا۔ سازشی ذہنیت کو بالآخر بُرے انجام ہی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ جن کی راہ روکی جائے وہ بپھر کر سفّاک ہو جاتے ہیں۔ ع
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
پاکستان کو راستے سے ہٹانے کے لیے کھیل کے میدان سے باہر کی سرگرمیاں‘ بھارت کے لیے آئندہ بھی ذلت کا سامان کرتی رہیں گی۔