وزیر اعظم جناب عمران خان نے گزشتہ دنوں اسلام آباد کے نزدیک پچاس لاکھ گھروں کی فراہمی کے پروگرام کے تحت ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی کم آمدنی والوں کے لئے بارہ ہزار سے زائد گھروں کی تعمیر کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے بے حد خوش کن باتیں کیں۔ یہ باتیں عام آدمی کے دل کو لگنے والی ہیں۔ دو تین ہفتے قبل انہوں نے احساس پروگرام بھی پیش کیا تھا‘ جس کے تحت غریب اور نادار لوگوں کو 50 سے 75 ہزار روپے قرضہ حَسنہ کے طور پر دئیے جائیں گے۔ یہ سارے منصوبے اچھے ہیں اور ان کے مثبت نتائج سامنے آنے کی واثق امید ہے لیکن یہاں چند ہزار نہیں چند لاکھ بھی نہیں بلکہ کئی کروڑ ایسے افراد ہیں جو خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ بے نظیر انکم پروگرام سے ہر ماہ تین ہزار روپے لینے کے خواہشمند نہیں‘ بلکہ اپنے ہاتھوں سے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کا یہ احساس پروگرام ان سے بہت دور ہے۔ ان کی اس مقصد کے لئے تیار کئے گئے دفاتر تک رسائی ہی نہیں ہو سکتی‘ اس لئے میں ان سطور کے ذریعے توجہ کا طالب ہوں‘ کیونکہ یہ ایک گھر نہیں بلکہ گھر گھر کی کہانی ہے‘ جہاں احساس پروگرام کا پہنچنا بے حد ضروری ہے۔
میں نے اپنے گزشتہ کالموں میں سے ایک دو میں ایک ایسی بیوہ عورت کا ذکر کیا تھا‘ جس کے سعودی عرب سے واپس آنے والے بیٹے کو اسی کے ایک قریبی رشتے دار نے لالچ میں آ کر قتل کر دیا۔ قتل ہونے والا اس بیوہ کی اکلوتی نرینہ اولاد تھا۔ وہ اپنے گروی گھر کی ادائیگی کیلئے ڈھائی لاکھ بینک سے لے کر گھر جا رہا تھا کہ مار ڈالا گیا۔ یہ ڈھائی لاکھ اس نے سعودی عرب میں دن رات محنت کرکے کمائے تھے۔ یہ بیوہ عورت اس وقت شوگر کی انتہائی خطرناک سٹیج پر ہے۔ کچھ عرصہ اسے شیخوپورہ جناح کالونی کے ایک ہسپتال میں رکھا گیا۔ پھر جب اس کا شوگر لیول چھ سو کو بھی کراس کر گیا تو اسے شاہدرہ کے مشہور و معروف ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ اب اس خاتون کی صحت پہلے سے کچھ بہتر ہے لیکن وہ تاحال چلنے پھرنے یا کھڑے ہونے کے قابل نہیں۔ اﷲ نے اپنے کسی نیک بندے کے ذریعے اس بیوہ کے گروی گھر کی ادائیگی کرا دی اور اسے گھر واپس دلا دیا۔ بیٹے کے قتل کے کوئی تین ماہ بعد اس کے گھر سے ملحق ویران پلاٹ کے ساتھ بنائی گئی دیوار گر گئی۔ وہ دیوار بھی اﷲ نے دوبارہ تعمیر کرا دی۔ پھر کچھ عرصہ بعد اس کی سب سے بڑی بیٹی کی شادی کا بھی اسی پروردگار نے بندوبست کر دیا‘ لیکن جہیز چونکہ نہ ہونے کے برابر تھا‘ اس لئے سسرال میں اس کا وہ حال کیا گیا کہ اس کے بارے میں سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حاملہ ہونے کے باوجود اسے بھاری سامان اٹھانے پر مجبور کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کا دو ماہ کا حمل ضائع ہو گیا۔ صورتحال یہ ہے کہ وہ بچی جہیز نہ لانے کے جرم میں اپنی خراب صحت کے باوجود ماں کے پاس بھیج دی گئی ہے‘ کیونکہ سسرال والے جو ڈیمانڈ کر رہے ہیں وہ پوری کرنا ان دونوں کے بس کی بات نہیں۔ کوئی ایک ماہ ہوئے لاہور میں آنے والی شدید آندھیوں اور بارش نے ان کے گھر کو زمین بوس کر دیا۔ شاید قدرت کو ان کا ابھی کوئی اور امتحان مقصود ہے۔ اس گھر کو بھی اﷲ نے اپنے کسی نیک بندے کے ذریعے دوبارہ تعمیر کرا دیا۔ ابھی اس مکان کو دوبارہ تعمیر ہوئے بمشکل ایک ماہ ہی گزرا ہے کہ ساتھ والے خالی پلاٹ کے مالک نے وہاں گھر کی تعمیر شروع کر دی۔ اس نے بنیادوں کے ساتھ کھدائی کرتے ہوئے تہہ خانہ بنانا شروع کر دیا۔ جب دیوار کھڑی کی تو نہ جانے کس قسم کا مٹیریل استعمال ہوا کہ پانچ دن پیشتر اس کی تہہ خانے سے اٹھی ہوئی دیوار تو ایک جھٹکے سے گری سو گری‘ اس بیوہ کے گھر کے لینٹر والے صحن کو بھی اپنے ساتھ ایک دھماکے سے لے ڈوبی۔ بیوہ عورت چونکہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں اس لئے محلے کے لوگ اس معاملے کو شاہدرہ ماچس فیکٹری تھانے لے گئے‘ جس کے بعد پلاٹ کے مالک نے اس بیوہ کو صرف پندرہ ہزار روپے دیئے۔ اس تھانے کی پولیس کے اے ایس آئی کو سلام کہ اس نے اپنی جیب سے بیوہ کو پانچ ہزار اور محلے والوں نے مل جل کر بارہ ہزار روپے دیئے۔ اس وقت بیوہ اور اس کی تین جوان بیٹیاں اپنے ایک رشتے دار کے گھر میں ہیں۔ جب ان کے صحن کا لینٹر گرا تھا تو منجھلی بیٹی کے جہیز کا سامان‘ جو انہوں نے ایک بڑی پیٹی میں محفوظ کر رکھا تھا‘ واشنگ مشین اور نئے لئے گئے بیڈ‘ جنہیں کپڑے میں لپیٹ کر رکھا ہوا تھا‘ بھی تباہ ہو گیا۔ اس بیوہ کا یہ سارا گھر اس کے اندر کی گلی غسل خانہ باورچی خانہ اور دیوار سمیت کم از کم تین لاکھ روپے اخراجات کا پراجیکٹ ہے کیونکہ اینٹ بجری ریت اور سریا بہت ہی مہنگا ہو چکا ہے۔
میرے خیال میں دراصل ایسے لوگوں کو سب سے پہلے چھت فراہم کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ کراچی سے ایک غریب پرور اور پاکستان سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے ایک دوست نے ایک مرتبہ مجھے مشورہ دیا تھا کہ اس دنیا میں جس گلی‘ جس محلے‘ جس سڑک پر جائو گے تمہیں اس قدر غربت، بے چارگی‘ بھوک ننگ اور افلاس نظر آئے گا کہ تمہارے اوسان خطا ہو جائیں گے۔ اس لئے کسی مصیبت زدہ کی خاموشی سے مدد کرنے کے بعد اس سے رابطہ ختم کر دو کیونکہ مفلس کی تکلیفیں تمہیں دکھائی اور سنائی دیتی رہیں گی‘ جن کی وجہ سے تمہارے جیسا حساس شخص نہ تو کوئی کام کر سکے گا اور نہ ہی چین سے سو سکے گا۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ جد ھر بھی تمہاری نظر اٹھے گی انسانوں کو روٹی کے ایک نوالے کے لئے ترستے ہوئے دیکھو گے۔ شہر‘ محلے اور بلاک میں پھینکے گئے کوڑے کے ڈھیروں پر‘ جن کے قریب سے بھی ہم لوگ گزرتے ہوئے ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں‘ ہم جیسے ہی گوشت پوست سے بنے ہوئے انسان اپنے لئے وہ خوراک ڈھونڈتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ وہ خوراک جسے ان جیسی ہی اشرف المخلوقات نے دو یا تین دن پہلے اپنے گھروں کے ڈسٹ بن میں پھینکا ہوتا ہے۔ کوڑے کے ڈھیر سے اپنے پیٹ بھرنے والے بھی انسان ہیں۔ ہسپتالوں، سڑکوں میں مصیبت زدہ کیلئے دستر خوان لگانے والے بھی انسان ہیں اور ان کے سامنے لمبی قطاریں لگائے اپنے نصیب میں لکھے گئے رزق کی تلاش میں آنے والے بھی انسان ہیں۔ اور ہر قسم کے ہوٹلوں، بنگلوں اور گھروں میں اپنی ڈائننگ ٹیبل پر کھانوں کی ایک طویل قطار سجائے ہوئے بھی انسان ہیں۔ دوست نے مشورہ دیتے ہوئے کہا: وہ بھی انسان ہیں‘ غریب اور غربت کے مناظر کو دیکھ کر جن کے جسم کا رواں رواں کانپ جاتا ہے اور وہ بھی انسان ہیں مجبور اور افلاس زدہ چہروں کو دیکھ کر جو ان کی مدد کو فوراً تیار ہو جاتے ہیں۔ کسی مصیبت زدہ کو کر دیکھ اپنی کم مائیگی پر رونے والے بھی انسان ہیں اور اپنے سامنے ہاتھ پھیلائے انسان کو دھتکارنے والے بھی انسان ہیں۔ پھر اپنی مٹھی کو چپکے سے کسی دکھی کے ہاتھ میں کھول کر تیزی سے گزر جانے والے بھی تو انسان ہی ہیں۔ گھر فراہم کرنے اور احساس پروگرام جیسے منصوبے دراصل ایسے ہی بے بس اور بے سہارا لوگوں کے لئے ہونے چاہئیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے ملک میں غربت بے تحاشا ہے اور آج کے دور میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں‘ جن کو ایک وقت کی روٹی مل جائے تو انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اگلے وقت کا کھانا ملے گا یا نہیں۔ لیکن اس کے خاتمے کے لئے بھی ہمیں ہی آگے آنا ہے ۔ اپنے غریب بھائیوں کو غربت کی دلدل سے اجتماعی کوششوں کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ہماری حکومت اس بات سے آگاہ ہے۔
ہمارے ملک میں غربت بے تحاشا ہے اور آج کے دور میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں‘ جن کو ایک وقت کی روٹی مل جائے تو انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اگلے وقت کا کھانا ملے گا یا نہیں۔ لیکن اس کے خاتمے کے لئے بھی ہمیں ہی آگے آنا ہے ۔ اپنے غریب بھائیوں کو غربت کی دلدل سے اجتماعی کوششوں کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ہماری حکومت اس بات سے آگاہ ہے۔