پی ٹی آئی نے پچھلے دورِ حکومت میں جتنے ترقیاتی کام کروائے‘ ان میں سے کچھ منصوبے تو تاحال پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے‘جیسے کہ سو ارب روپے مالیت کا بی آر ٹی منصوبہ یا پھر ڈیرہ اسماعیل خان میں نکاسی آب کا میگا پراجیکٹ ‘جو گزشتہ پانچ برسوں سے شہریوں کیلئے سوہان ِروح بنا ہوا ہے۔کئی ایسے منصوبے بھی ہیں ‘جن کی تکمیل کے باوجود افادیت صفر ہے‘جیسے کہ صوبہ بھر میں اضلاع کی بیوٹیفکیشن کے منفرد پراجیکٹ کا حال ہوا۔پچھلے دورانیہ میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے ترقیاتی کاموںکی ابتداء دس ارب روپے کی خطیر رقم سے صوبہ بھر کے پچیس اضلاع کی بیوٹیفکیشن پراجیکٹ سے کی تھی‘اس منصوبہ کی نگرانی کے لئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی گئی اورکام کے معیار کو بہتر بنانے اور شفافیت قائم رکھنے کی خاطر بھاری معاوضہ پہ لاہور کی ایک فرم کی خدمات بھی حاصل کی گئیں‘ لیکن اس گراں قدر پراجیکٹ پہ عمل درآمد کے دوران سینہ زور اہلکاروں کی مزاحمت اس قدر بڑھ گئی کہ سیکریٹری بلدیات کو بالآخر اس کنسلٹنٹ کمپنی کو فارغ کرکے پورا پراجیکٹ ہی انہی فرسودہ محکموں کے حوالے کرنا پڑا ‘جنہوں نے پہلے ہی ان ہنستے بستے شہروں کو کھنڈر بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔بدقسمتی سے ہمارا مسئلہ اب دیانتداری نہیں رہا‘ بلکہ مخمصہ یہ ہے کہ خیبرپختون خوا میں ڈھنگ سے کوئی بدعنوانی بھی نہیں کر سکتا۔ایک نجی کمپنی ‘جس نے اس منصوبہ کے تحت ہونے والے تمام کاموں کے پی سی ون بنائے‘ ڈرائنگ‘ ڈیزائن تیار کیے اور نرخوںکے تعین کے علاوہ کام کی کوالٹی جانچنے کی ذمہ داری بھی اسی نے نبھانی تھی‘کو چند ماہ کے اندر فارغ کرکے نہایت بے حجابی کے ساتھ بدعنوانی کے دروازے کھو دیئے گئے‘ لیکن اس غیرمعمولی پیش دستی کاکسی کج کلاہ نے نوٹس لیا‘ نہ کسی تحقیقاتی ادارے کو اس کھلی قانون شکنی میں کوئی قباحت نظرآئی۔
علیٰ ہذالقیاس!اسی بیوٹیفکیشن پروگرام کے تحت ڈیرہ اسماعیل خان کی تزئین و آرائش کیلئے پہلے مرحلہ میںکم وبیش تیس کروڑ اور دوسرے مرحلہ میں ستائیس کروڑ خرچ کئے گئے‘ لیکن دو چار برسوں کے اندر اب‘ تزئین و آرائش کا کہیں نام ونشان نظر نہیں آتا‘شہر اسی طرح فرسودہ اور بدحال ہے‘ جسے کروڑوں کے اس منصوبہ کے روبہ عمل لانے سے قبل تھا ‘ بلکہ اب تو بدانتظامی کے وبال نے شکست و ریخت کے عمل کو زیادہ گمبھیر بنا دیا‘جس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم اور ٹیلی کمیونی کیشن کی لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں‘اسی سرگرمی کی بدولت صفائی کی حالت پہلے سے زیادہ ناگفتہ بہ ہو گئی۔اندرون شہر میں ہر طرف گندگی و غلاظت کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں‘نکاسی آب کے تقریباً سارے نالے ادھیڑ دیئے گئے ہیں‘تنخواہوں کی عدم فراہمی کی وجہ سے عملہ صفائی کی آئے روز کی ہڑتالوں سے میونسپل سسٹم بیکارہوتا جا رہاہے۔اے کاش کہ تزئین و آرائش کی بجائے‘ اگر یہی رقم صفائی کیلئے جدید مشینری منگوانے اور عملہ صفائی کی استعداد کار بڑھانے پہ خرچ کی جاتی ‘توکم ازکم اس بدقسمت شہرکی صفائی تو ممکن بنائی جا سکتی تھی‘اس جدید اور پیچیدہ دور میں واسا والے بڑے بڑے نالوں اور انتہائی خطرناک مین ہول کی صفائی کا کام کم تنخواہوں والے ایسے لاچار انسانوں سے لیتے ہیں‘جو جسمانی طور پہ کام کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ‘بلکہ عملہ صفائی کے زیادہ تر کارکنوںمیں چلنے پھرنے کی سکت بھی باقی نہیں بچی‘ہمارے ہاں کوئی ایسا میکانزم موجود نہیں ‘جو سرکاری اداروں میں کام کرنے والے اہلکاروں کی فٹنیس کو چیک کر سکے‘ خاص طور پہ واسا کے عملہ صفائی میں کام کرنے والے ساٹھ فیصد اہلکار منشیات کی لت میں مبتلا ہیں اور چالیس فی صد سے زیادہ ہیپاٹائٹس اور ٹی بی‘ جیسی دیگر مہلک امراض کا شکار بن جاتے ہیں۔
خیبرپختون خوا کے منصوبہ سازوں کی مہارت کا اندازہ صرف اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ2014ء میں پہلے سرکلرروڈ بنائی گئی اور اس کے فوری بعد نکاسی آب کے میگا پراجیکٹ لانچ کر کے ان نوتعمیرشدہ سڑکوں کی اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی گئی‘بیوٹیفکیشن منصوبہ کے تحت سرکلر روڈ کے درمیان کھجوروں کے درخت اور جو سینکڑوں قد آدم پودے لگائے گئے تھے‘ٹی ایم اے کی غفلت کے باعث وہ سارے باغ اُجڑ چکے ‘سرکاری محکموں کی دیواروں پہ کرائی گئی آرائشی پینٹنگز مٹتی جا رہی ہیں اورسٹریٹ لائٹس بجھ رہی ہیں‘سرکلرروڈ سمیت متعلقہ سڑکوں پہ سولر لائٹس کا قیمتی نیٹ ورک از خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا‘مرمت و بحالی کے فقدان کی وجہ سے حق نواز پارک اور تاریخی لیاقت باغ کی ویرانیاں دوچند ہیں۔ دریا کنارے تفریح گاہ کو ڈویلپ کرنے کا پروگرام ابھی ادھورا پڑا ہے ‘لیکن نوتعمیرشدہ جاگنگ ٹریک ٹوٹ پھوٹ کا شکار بن گئی۔ہمارے ماہرین ایک طرف دریا کنارے کو خوبصورت تفریح گاہ بنانے پہ کروڑوں خرچ کر رہے ہیں تو دوسری طرف شہر بھر کے نکاسی آب کے گندے نالوں کو دریا میں ڈال کے دریا سندھ کے پاکیزہ پانیوں کو آلودہ اور ماحول کو متعفن بنانے میں مشغول نظر آتے ہیں‘ہسپتالوں کا آلودہ مواد اور فیکٹریوں کا زہریلا پانی دریا میں گرانے کی وجہ سے قیمتی آبی حیات تلف ہوتی جا رہی ہیں‘یہاں کی مشہور کھگا مچھلی‘ساٹھ کلو وزنی بڑے کچھوے اور بلائنڈ ڈالفن کی نسلیں تقریباً نایاب ہو گئی ہیں۔دریا کو آلودگی سے بچانے کی خاطر سماجی تنظیموں نے بار ہا احتجاج ریکارڈ کروائے‘ لیکن ماحولیات کا محافظ ڈیپارٹمنٹ اور محکمہ تحفظ آبی حیات والوں کے کان پہ جوں تک نہیں رینگتی۔
بہرحال‘ پانچ سال سے جاری نکاسی آب کے نالوں کی تعمیر کا کام اس قدر سست روئی کا شکار ہے کہ گرڈ روڑ‘ سرکلرروڈ‘صدر بازار اور موسمیات روڈ جیسے گنجان آباد علاقوں سے گزرنے والے نالے کے تعمیراتی عمل کو لگ بھگ تین سال بیت جانے کے باوجود یہ انوکھا منصوبہ تکمیل کے مراحل سر نہیں کر سکا‘انہی سڑکوں پہ درجنوں سرکاری و غیر سرکاری سکولز اور بوائز وگرلز کالجز کے علاوہ بسوں اور کوچیز کے اڈے واقع ہیں‘پائب لائن بچھانے کی خاطر وسیع پیمانہ پہ سڑکوں کی کھدائی کی وجہ سے گھنٹوں پہ محیط ٹریفک جام کے علاوہ شہریوں کو ہر روز کئی ناقابل بیان حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ لیکن ضلعی انتظامیہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی تماشا دیکھ رہی ہے‘شہریوں کا کوئی پرسان ِحال نہیں۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ خدا خدا کر کے تین سال بعد مکمل ہونے والی شمالی سرکلرروڈ کی سیوریج لائن کا کام اس قدر غیرمعیاری نکلا کہ عید کے دن وہاں سے گزرنے والا لوڈر ٹرک سیوریج لائنوں کے اندر دھنس گیا‘ جسے کرینوں کی مدد سے نکال کے راستے بحال کرنا پڑے‘اب ایک بار پھر اس بچھائی گئی سیوریج لائن کی دوبارہ کھدائی شروع کر دی گئی‘ تاکہ تعمیراتی کام کی خامیوں پہ لیپاپوتی کی جا سکے‘نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پہ مقامی انجینئر نے بتایا کہ پی سی ون کے مطابق ؛پائپ لائن کے نیچے ریت سے لیولنگ کے بعد کنکریٹ کی فاونڈیشن اور اردگرد نئے مواد سے کمپکشن کے بعد پائپ لائن کے اوپر بھی کنکریٹ کی سلیٹ ڈالنا لازمی تھی‘ مگر تعمیراتی کمپنی نے مبینہ طور پہ اوپر نیچے کنکریٹ کے استعمال سے گریز اور نئے مواد کی بجائے کھدائی کے دوران نکالا گیا پرانا میٹریل استعمال کیا گیا۔ماہرین کہتے ہیں اسلامیہ سکول سے لیکر امامیہ گیٹ تک پائپ لائن کا لیول ٹھیک نہیں‘ یہاں پانی آگے کی بجائے پیچھے جا رہا ہے‘اس لیے عیدگاہ کلاں‘فقیرہ آباد‘امامیہ گیٹ اورکنیراں والا گیٹ سے ملحقہ آبادیوں کو نکاسی کی سہولت نہیں مل سکتی۔
سرکاری اداروں کی طرف سے فراہم کردہ اعدادو شمار کے مطابق ‘شہر میں سیوریج کی پائپ لائن بچھانے پر اب تک 45 کروڑ خرچ اٹھ چکا ‘اس پراجیکٹ کو عملی جامہ پہنانے والے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے ذمہ دارکہتے ہیں‘نکاسی آب کے اس منصوبہ کی تکمیل کیلئے 40 کروڑ روپے مزید درکار ہیں‘ لیکن تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے انجینئرز فنڈز فراہم کرنے والے ادارے ایم ایس پی کو قائل نہیں کر سکے؛ چنانچہ فنڈز کی فراہمی رک گئی۔گویایہ ادھورا منصوبہ اسی طرح شہریوں کیلئے وبال جان بنا رہے گا۔