تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     15-07-2019

Pranks

دنیا اس وقت پرینکس (Pranks) حملوں کی زد میں ہے۔ اگر آپ اکیلے یا اپنی فیملی کے ساتھ کسی پارک‘ کسی شاپنگ مال یا کسی تفریحی مقام پر جاتے ہیں اور اچانک کوئی آپ کا راستہ روک لیتا ہے‘ آپ سے مذاق کرتا ہے‘ عجیب سی حرکت یا عجیب سا سوال کرتا ہے اور آپ کے پیچھے چچڑ ہو کر پڑ جاتا ہے تو سمجھ جائیں وہ آپ کے ساتھ کوئی پرینک کر رہا ہے۔ آپ کی ویڈیو قریب ہی کہیں چھپے ایک یا دو کیمروں کے ذریعے بن رہی ہے۔ اس نے اپنی جیب میں فون ڈالا ہوا ہے اور اس میں اپنی اور آپ کی آواز ریکارڈ کر رہا ہے‘ جس کو وہ بعد میں یوٹیوب یا فیس بک پر پرینک ویڈیو کی شکل میں بنا کر ریلیز کر دے گا‘ اس ویڈیو کو ہزاروں لاکھوں لوگ دیکھیں گے جس سے اسے ڈالر حاصل ہوں گے۔ پرینک (Prank) نامی بیماری پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے کہ سوشل میڈیا پر ہر دوسری تیسری ویڈیو پرینک سے متعلق ہی نظر آتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویڈیوز میں پرینک ویڈیوز اولین نمبروں پر ہیں کیونکہ ان میں حقیقت کا رنگ بھرا ہوتا ہے۔ لوگ اسے اس وجہ سے بھی زیادہ شوق سے دیکھتے ہیں کہ ان میں جس کے ساتھ مذاق ہو رہا ہوتا ہے اسے معلوم نہیں ہوتا۔ وہ بے چارہ اپنے کسی کام کی پریشانی میں کہیں چلا جا رہا ہوتا ہے کہ اسے راستے میں کوئی فقیر گھیر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے آج شام کراچی پہنچنا ہے اور جہاز پر جائے بغیر کوئی چارہ نہیں‘ اس کے لئے جہاز کی ٹکٹ درکار ہے۔ وہ آپ سے کہے گا کہ آپ اسے پیسے نہ دیں‘ جہاز کی ریٹرن ٹکٹ لے دیں۔ آپ اسے کہیں گے کہ تم فقیر ہو کر جہاز پر کیوں جانا چاہتے ہو تو وہ کہے گا: وہاں آج دوسرے فقیر نے پارٹی کی ہوئی ہے‘ اس لئے ہم سارے فقیر پورے ملک سے وہاں پہنچ رہے ہیں اور سب جہاز میں ہی آ رہے ہیں۔ آپ اسے پاگل کہیں گے‘ اس سے جان چھڑائیں گے لیکن وہ آپ کے پیچھے پڑ جائے گا۔ آپ کو غصہ آ جائے گا اور جب آپ اس کو مارنے کے لئے لپکیں گے تو وہ جھٹ سے کہے گا کہ صاحب غصے کیوں ہوتے ہیں ہم آپ کے ساتھ پرینک کر رہے ہیں۔ وہ دیکھیں کیمرہ لگا ہے کیمرے کی طرف دیکھیں اور ہاتھ ہلا دیں اور میرے فلاں چینل کو سبسکرائب کر دیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پرینک لوگوں کی زندگیوں کے لئے خطرہ کیوں بنتے جا رہے ہیں۔ چند ماہ قبل لاہور میں لٹن روڈ کے قریب تین لڑکوں نے گلی سے گزرتے لوگوں کو ڈرانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے پاس نقلی پستول تھا۔ ایک لڑکا چھپ کر کیمرے سے ویڈیو بنانے لگ گیا جبکہ دو لڑکوں نے نقاب پہن لئے۔ گلی سنسان تھی۔ جیسے ہی وہاں سے زوہیب نامی لڑکا گزرا‘ انہوں نے اسے روک لیا‘ اس پر پستول تان لی اور اس سے موبائل اور نقدی مانگی۔ اس پر زوہیب طیش میں آ گیا اور ہاتھا پائی کرنے لگا۔ وہ سمجھا اس کے ساتھ حقیقت میں کوئی ڈکیتی ہو رہی ہے۔ زوہیب کے چند دوست کچھ دُور گاڑی میں بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک کے پاس اصلی پستول تھا۔ اس نے جب زوہیب کو نقاب پوش ڈاکوئوں میں گھرا دیکھا تو پستول نکال کر فائرنگ کر دی‘ لیکن یہ گولی کسی اور کی بجائے زوہیب کو ہی جا لگی اور وہ موقع پر دم توڑ گیا۔ پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر لیا جنہوں نے اعتراف کیا وہ اپنے سوشل میڈیا چینل کے لئے ایسی ویڈیوز بناتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ویووز ملیں اور ان کی آمدنی بڑھ سکے۔ یہ وبا کتنی پھیل چکی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ صرف لاہور میں پرینکس جھگڑوں پر پولیس نے گزشتہ ماہ 77 مقدمات درج کئے۔
پرینک کی اور ایک قسم نوجوان لڑکوں کا لڑکیوں کے ساتھ بے ہودہ مذاق ہے۔ بلکہ اب تو لڑکیاں بھی لڑکوں کے ساتھ کھلے عام ایسے مذاق کرنے لگی ہیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو میں ایک باغ میں آئے ہوئے طلبا اور دیگر مردوں کو روک روک کر ایک لڑکی سوال کرتی کہ میرا فون اس تالاب میں گر گیا ہے پلیز نکال دیں۔لوگ اسے دیکھ کر توجہ نہیں دیتے ‘ مگر بعض خدمت خلق کے جذبے سے سرشار مردِ صالح جوں ہی تالاب میں اترنے کی تیاری کرتے ہیں تو وہ انہیں اپنے کیمرے کی جانب متوجہ کر دیتی ہے۔ پرینک جدید ممالک میں بھی ہوتے ہیں لیکن وہاں اتنی زیادہ شدت پسندی نہیں؛ تاہم چند ایک چینل وہاں بھی ایسے ہیں جو خوف و ہراس پھیلاتے ہیں۔ لڑکے چہرے پر خوفناک ماسک پہن کر رات کے وقت کسی سنسان سڑک پر چھپ جاتے ہیں اور ہر آتے جاتے کو ڈراتے ہیں۔ ایسے میں کمزور دل افراد کو‘ جن کو پہلے ہی دل کا عارضہ لاحق ہو‘ ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے۔ تاہم اپنے چینل کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کے لئے ہر قسم کی حدیں پار کی جا رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں تو اخلاقیات کی بھی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ بھارت میں بھی یہ وبا خطرناک حد تک تباہی مچا رہی ہے۔ بعض لڑکے کسی پارک میں کھڑے کسی لڑکی کا پرس چھین کر بھاگ جاتے ہیں‘ وہ لڑکی اچانک گبھرا کر اردگرد کے لوگوں کو آوازیں دیتی ‘ مدد کے لیے پکارتی ہے تو وہ دوڑ کر اپنے کیمرے کے پاس جا کر گر پڑتا ہے۔ چور پکڑنے کی دھن میں بھاگتے ہوئے لوگ جوں ہی اس لڑکے کو دو چار ہاتھ رسید کرنے لگتے ہیں وہ جوان کیمرے کی سامنے کھڑے ہجوم کو دیکھ کر بلند قہقہہ لگاتا ہے اور اصل حقیقت بتاتا ہے۔ بعض بھارتی لڑکیاں پرینک کرتے ہوئے انتہا کی بیہودگی بھی کرجاتی ہیں مثلاً ایک پرینک میں لڑکی چار لڑکوں کے پاس جا کر کھڑی ہو جاتی ہے اور کہتی ہے میرے پیچھے کوئی لڑکا لگا ہے مجھے تنگ کر رہا ہے مجھے درمیان میں بٹھا لو۔ جس پر وہ ان کے ساتھ چپک کر بیٹھ جاتی ہے۔
یہ پرینکس دراصل جھوٹ‘ دھوکہ اور مذاق کی بدترین شکل ہیں‘ جو اس وقت نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ ایسے ایسے بے کار قسم کے لڑکے جو میٹرک تک پاس نہیں کر سکے اور جو سارا دن لڑکیوں کے کالجوں اور بازاروں میں تانک جھانک کرتے پھرتے ہیں‘ سوشل میڈیا پر آمدنی کے مواقع کی بدولت ان کی بھی چاندی ہو گئی ہے جس پر انہیں کوئی افسوس نہیںہوتا۔ ان بڑھتے ہوئے پرینکس کی وجہ سے شہریوں کی زندگیاں عذاب بنتی جا رہی ہیں۔ کہیں بھی کوئی بھی ان کے ساتھ مذاق کر سکتا ہے اور یہ مذاق کسی شخص کی جان بھی لے سکتا ہے۔ لاہور سمیت ملک کے بعض پارک‘ کالج اور یونیورسٹیاں ایسے ہیں جہاں پر یہ پرینکسٹرز صبح سے شام تک گدھوں کی طرح منڈلاتے رہتے ہیں‘ ان کے شر سے کوئی بندہ کوئی پرندہ تک محفوظ نہیں رہتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان پرینکسٹرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ملک میں نوکریاں تو ہیں نہیں‘ معلوماتی یا تربیتی ویڈیوز بنانے میں وقت بھی لگتا ہے اور محنت بھی اور ہمارے یہ شیر محنت سے پہلے ہی بھاگتے رہے ہیں اسی لئے تو ان بیہودہ پرینکس کا سہارا لے رہے ہیں۔ آپ لکھ رکھیں بہت جلد ایسا وقت آنے والا ہے جب ان پرینکس پر پاکستان میں پابندی لگ جائے گی‘ تسلسل کے ساتھ چند ہولناک واقعات رونما ہو گئے جن میں کسی کی جان چلی گئی یا کوئی اور نقصان ہو گیا تو یہ سارے ڈرامے بند ہو جائیں گے۔ پاکستانی ہر دو نمبر کام میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے میں لگے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں یہ ٹیکنالوجی ایجاد نہیں کر سکتے‘ یہ نئے منفرد سافٹ ویئر اور اچھوتی ایپلی کیشنز نہیں بنا سکتے اور یہ گوگل اور فیس بک میں اعلیٰ عہدوں تک نہیں پہنچ سکتے تو کم از کم اس ٹیکنالوجی‘ اس سوشل میڈیا اور ان ایجادات کا بہتر استعمال کرنا ہی سیکھ لیں۔ ابھی چند روز قبل اخبارات کی شہ سرخی تھی کہ پاکستان چائلڈ پورنوگرافی دیکھنے والے ممالک میں دنیا میں اول نمبر پر ہے۔ یقین کیجئے ایسے سرعام فحش اور سنگین مذاق یونہی چلتے رہے تو بہت جلد پاکستان بیہودہ پرینکس بنانے والے ممالک کی فہرست میں بھی پہلے نمبر پر آ جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved