''دفاعی معاہدوں‘ نیوکلیئر اور سٹریٹیجک معاملات سے متعلق کوئی بھی خبر فائل کرنے سے پہلے ہم وائٹ ہائوس اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے ان کی رائے ضرور لیتے ہیں ‘‘یہ اعتراف ہے‘ دنیا کے سب سے بڑے اور انتہائی قابل اعتماد سمجھے جانے والے نیو یارک ٹائمز جیسے اخبا رکا۔ امریکہ کے دوسرے اخبارات اور چینلز کی بھی پالیسی ہے ۔ دوسری جانب ان کے مقابلے میں آپ نہ جانے کتنے برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کے نیو کلیئر اثاثوں سمیت اس کے دفاعی اور حساس معاملات پر'' ڈیوڈ فراگ‘‘ جیسے لوگ پاکستان کی سلامتی اور اس سے متعلق پالیسیوں اور ان پالیسیوں کو لے کر اپنی مخالف اور دشمن قوتوں کو کمزور کرنے کی نیت سے آگے بڑھانے والے اداروں پر بے جا تنقید کرتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں ۔میڈیا کی آزادی کے نام سے اپنے جیسے شتر بے مہار ساتھیوں اور ان کے پیروکاروں کو بیوقوف بناتے ہوئے یہ باہر بیٹھے ہوئے اپنے آقائوں کی جانب سے فیڈ کی جانے والی سٹوریوں کے ذریعے مزے لے لے کر انگریزی اخباروں کے صفحات کالے کر رہے ہیں اورٹی وی ٹاک شوز میں براجمان ہو کر بریکنگ نیوز کی صورت میں اپنے ہی ملک کے اداروں کو رگڑا لگانا باعث فخر سمجھتے ہیں۔
خود کو ترقی پسند اور لبرل کا خطاب دینے والے اس ٹولے سے میں کئی مرتبہ پو چھ چکا ہوں کہ کیا امریکہ میں جمہوریت نہیں ؟کیا امریکہ میں سکیورٹی فورسز کی بالا دستی نہیں ؟کیا امریکیوں کی قسمت کے فیصلے ان کی پینٹا گان نہیں کرتی ؟ کیا سینیٹ اور کانگرس کو پینٹاگان کی بھیجی ہوئی خفیہ بریفنگز انہیںنہیں ملتیں ؟اگر ‘ایسا نہیں‘ تو پھر امریکیوں میں وہ کون سا احساس ہے‘ وہ کون سی سوچ ہے‘ جو انہیں اپنے وطن ‘اپنی دھرتی کے مفادات کے خلاف ایک لفظ بھی لکھنے ‘ بولنے اور ملکی مفادات سے ایک انچ بھی آگے بڑھنے سے روکے رکھتی ہے؟امریکہ کے میڈیا سے تعلق رکھنے والا ہر ورکر اور تجزیہ کار خود کو امریکی سپاہی اور سی آئی اے کی آنکھ اور کان کیوں سمجھتا ہے؟ اسرائیل کے اندر اور باہر کسی بھی جگہ پر موجود یہودی خود کو' موساد‘ کا ایجنٹ کیوں سمجھتا ہے؟ شاید اس لئے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کو دنیا میں بلند اور مضبوط مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں‘ وہ اسے نا قابل ِتسخیر اور ان کے دشمن کی ہر طاقت اور سازش کو ناکام بنانا چاہتے ہیں‘ وہ' نیو ورلڈ آرڈر‘ کے محافظ بن کر کام کرتے ہیں‘ ہر یہودی 'موساد‘ کا کارکن ہے اور ہر امریکی 'سی آئی اے‘ کا اور ان کی جمہوریت ان ہی کی وجہ سے کبھی بھی خطرے میں نہیں پڑی ۔
جبکہ کچھ میڈیا ہائوسز نے اپنے ماد رپدر آزاد کارکنوںکے ہاتھوں میں پکڑائی ہوئی تلوار سے پاکستان کے سٹریٹیجک مفادات پر تابڑ توڑ حملے شروع کروا رکھے ہیں اور اس کیلئے ان کو کھلی چھٹی دیتے ہوئے تھپکی دی جاتی ہے کہ خوب کھل کر کھیلو ---تمہاری زبان میں ڈالے گئے الفاظ ڈھول کی تھاپ پر گونجنے چاہئیں اور یہ لوگ پاکستانی اداروں اورنیو کلیئر اثاثوں پر اپنے الفاظ کے ذریعے حملے کرنے کے بعد اس کے محافظوں کو مزید چڑانے اور اپنے غیر ملکی آقائوں کو مزید خوش کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر ویڈیوزایسے اپ لوڈ کرتے ہیں‘ جیسے کلبھوشن یادیو کیلئے سیف ہائوس وہی فراہم کرتے رہے تھے۔ امریکی ایجنسیاں‘ میڈیا کی آزادی کے نام سے اب تک نہ جانے کتنے ملکوں اور حکومتوں کو زیر عتاب لاتے ہوئے ‘ ان پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کر چکیں‘ لیکن اس کے اپنے ہی ملک میں میڈیا کی یہ حالت ہے کہ وہ کوئی خبر بنانے کے بعد اور کوئی بھی خبر شائع کرنے سے پہلے ‘امریکی حکومت سے اسے شائع کرنے کی اجا زت لینا ‘ سب اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے معروف صحافیJames Risen کے ایک حالیہ انکشاف نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا ہے ۔ا س کے بقول؛ نیو یارک ٹائمز نے یہ تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے سمیت دوسرے اخبارات اور ٹی وی چینلز کو احساس ہے کہ دفاعی اور سٹرٹییجک معاملات کے حوالے سے کوئی بھی سٹوری یا خبر دینے سے پہلے اس کی کاپی ‘وائٹ ہائوس اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ بھیج کر اس کی منظوری لینے میں کوئی حرج نہیں اور اکثر ایسی سٹوریز جو امریکہ ہی نہیں ‘بلکہ دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیتی ہیں ‘ جس سے لگے کہ امریکی مفادات پر زد پڑ جائے گی‘ وہ باقاعدہ 'سی آئی اے‘ کی پلانٹ کی ہوتی ہیں ‘ جبکہ امریکہ کے مقابلے میں دنیا کا میڈیا اپنے ہی ملک کی تباہی پھیرنے ‘اپنے ممالک کو نقصان پہنچانے ‘اقوام عالم میں بد نام کرنے کیلئے ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں سوچتے کہ ان کے پاس جو خبر پہنچائی گئی ہے‘ اس کی اپنے با خبر اداروں سے تصدیق ضروری ہے۔
ممکن ہے کہ پاکستان کے اندر سے جس کسی نے بھی کوئی خبر لیک کی ‘ وہ کسی دشمن ملک کی ایجنسی کیلئے اپنی اس حیثیت کو بطورِ کور استعمال کر رہا ہو۔اکثر یہ ہواہے کہ ملک کے قومی اداروں نے تمام میڈیا کے گروپس کو بلا کر ان سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ آج کل ‘دنیا بھر میں میڈیا وار سے ریاستوں اور اداروں کو کمزوربنایا جا رہا ہے۔ آپ جو چاہے کریں ‘ لیکن ؛اگر ملکی مفادات کے متعلق کوئی خبر ہو تو اسے شائع کرنے یا آن ائیر کرنے سے پہلے‘ اس کی تصدیق کر لیں ‘تو یہ آپ کے اور ملک کیلئے بہتر ہو گا ‘لیکن اتنی سے بات سنتے ہی باہر نکل کر ایک مبینہ میڈیا گروپ کے چند لوگوں نے یہ کہہ کر آسمان سر پر اٹھا لیا کہ میڈیا پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں ۔ اگر‘ پابندیاں ہی لگانی تھیں‘ تو ڈان لیکس کی مثال سب کے سامنے ہے کہ کس طرح اپنے ہی ملک کے سکیورٹی اداروں کو دنیا کے سامنے کٹہرے میں لا کھڑا کیا گیا۔اور جب اس خبر کا پوسٹ مارٹم ہوا تو اس کے اندر سے سوائے جاتی امراء کی بدبو دار ہوا کے اور کچھ نہ نکلا۔آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 اور 1973 آج بھی اسی طرح موجو دہے‘ جسے غلام محمد سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک کے تمام جمہوری حکمرانوں نے پوری شدت سے استعمال کیا ‘لیکن گزشتہ دس برسوں میں اس ملک کے مفا دات کو سابق حکومت کے کہنے پراور اکسانے پر کس کس طریقے سے نقصان نہیں پہنچایا گیا؟ملک کے دفاعی معاملات کے خلاف کیا کیامن گھڑت کہانیاں نہیں گھڑی گئیں؟اس کے با جو دپاکستان کے قومی اداروں نے اپنے خلاف ہر وار کو خاموشی سے سہتے ہوئے خاموشی اختیار کئے رکھی۔
وزیر اعظم عمران خان کے دورہ امریکہ اور صدر ٹرمپ سے ملاقات کا فیصلہ مئی میں ہی ہو چکا تھا‘ لیکن اسے دونوں ممالک کی قیا دت تک ہی محدود رکھا گیا ‘لیکن جیسے ہی جولائی کے اوائل میں یہ خبر آئی‘ تو پاکستان دشمنوں کے ہوش اڑ گئے کہ یہ کیا ہوا ؟پہلے تو اسی مبینہ گروہ نے اپنا پورا زور لگا کر یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ امریکہ نے تو بلایا ہی نہیں ‘وہ تو سوائے بھارت اور مودی کے کسی کو منہ ہی نہیں لگاتا اور اس کیلئے انہوں نے اپنے ''ڈیوڈ فراگ‘‘ کو آگے کر دیا‘ جس نے جھوٹ اور غلاظت اپنے منہ سے نکال نکال کرپاکستان کے مفادات پر پھینکنی شروع کر دی۔کہا جا رہا ہے کہ جج کی مبینہ ویڈیو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اس کیلئے سجن جندال کے نمک خواروں نے اپنے میڈیا ہی نہیں‘ بلکہ اپنے ہم خیال ساتھیوں کا سہارا بھی لیا۔ان کی کوشش یہ تھی کہ امریکی کانگریس اور سینیٹ کے علا وہ ان کے تھینک ٹینک کو یقین دلا یا جائے کہ تم کس ملک کی قیادت کو بلا رہے ہو‘ جو میڈیا پر پابندیاں لگاتے ہیں‘ جو میڈیا کو دھمکیاں دیتے ہیں‘ لیکن سب نے دیکھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی '' رائ‘‘ کی یہ تمام سازشیں اپنی موت آپ مر رہی ہیں ۔